• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بحریہ ماڈل اسکول و کالج، اورماڑہ

سمیرا بصری

بلوچستان رقبے کے لحاظ سے مُلک کا سب سے بڑا صوبہ ہونے کے باوجود، بنیادی سہولتوں سے محروم ہی رہا ہے۔ کم وبیش ہر دَورِ حکومت میں یہاں کے مسائل کسی نتیجہ خیز حل تک پہنچائے بغیر ادھورے چھوڑ دیے گئے۔ یہ صوبہ، سرحدی لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ اس کی سمندری حدود سی پیک منصوبے کی صُورت مُلک و قوم کے لیے نفع بخش ثابت ہو رہی ہے، تو دوسری طرف، یہ معدنی لحاظ سے زرخیز ہونے کی وجہ سے مُلک کی کئی ضروریات پوری کرتا ہے، مگر اس سب کچھ کے باوجود، یہاں کے عوام سے روا رکھے گئے منفی سلوک کا منطقی انجام احساسِ محرومی کی شکل میں سامنے آیا، جس سے بغاوت جیسے خطرناک عزائم تک کو فروغ ملا۔ اس سارے معاملے کے بہت سے پہلو ہیں، جن پر تفصیل سے بات کی جاسکتی ہے، تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ، حکومتِ پاکستان بھی کہیں نہ کہیں اس ناانصافی کی ذمّے دار ہے۔

مسلح افواج جہاں مُلک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے قربانیاں دے رہی ہیں، وہیں اندرونِ مُلک بھی ان کی خدمات کچھ کم نہیں۔ اس کی ایک واضح، روشن اور قابلِ تقلید مثال، بلوچستان میں پاک بحریہ کی زیرِ نگرانی کام کرنے والے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے ہیں۔ پاکستان نیوی، بلوچ عوام تک بنیادی سہولتیں پہنچانے کے لیے دن رات کوشاں ہے، جس میں صحت، تعلیم، روزگار، صاف پانی کی فراہمی، ماہی گیروں کے لیے سرحدی حدود کی نشان دہی کیے جانے جیسے دُور رَس اقدامات شامل ہیں۔ پاک بحریہ کی ان کوششوں سے ایک طرف تو عوام کے مسائل میں کمی واقع ہوئی ہے، تو دوسری طرف، عوام میں مُلک و قوم کے لیے خلوص و محبّت کے جذبات کو بھی مزید فروغ حاصل ہوا ہے۔’’ بحریہ ماڈل اسکول و کالج، اورماڑہ‘‘ بھی ایک ایسا ہی منصوبہ ہے، جو بلوچ عوام کے درخشاں مستقبل کی نوید بن کر سامنے آیا ہے۔

2004 ء میں بلوچستان کے ضلع، گوادر کی تحصیل، اورماڑہ میں پہلے’’ بحریہ ماڈل اسکول‘‘ کا آغاز کیا گیا۔ یہ اسکول، چند کمروں کے ایک فلیٹ پر مشتمل تھا۔ 2013 ء میں یہ پودا، درخت بن گیا اور اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نئی عمارت میں منتقل کر دیا گیا، جس کے بعد اسے’’ بحریہ ماڈل اسکول و کالج‘‘ کا درجہ دے دیا گیا۔ یہ اس ضلعے کا واحد نجی کالج ہے۔ یوں تو اس علاقے میں کئی سرکاری پرائمری اور ہائی اسکولز موجود ہیں، مگر اُن کی حالت انتہائی ابتر ہے۔ بیش تر اسکولز میں طلبہ کے بیٹھنے تک کے لیے جگہ نہیں، تو کہیں لیب اور دیگر جدید سہولتوں کا فقدان ہے۔ 

ایسے میں بحریہ ماڈل کالج، علاقے کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں، جو انٹرمیڈیٹ تک معیاری تعلیم کے مواقع فراہم کر رہا ہے۔ اس ادارے میں اورماڑہ ہی نہیں، دیگر دُور دراز علاقوں کے بچّے بھی حصولِ تعلیم کے لیے آ رہے ہیں۔ فی الوقت، اس کالج میں تقریباً 700 طلبہ زیرِ تعلیم ہیں اور اس پس ماندہ علاقے کے کسی اسکول و کالج میں بچّوں کی اتنی بڑی تعداد، بہ ذاتِ خود تعلیم کے سفر میں ایک بڑی کام یابی ہے۔ پاک بحریہ کی جانب سے گوادر، جیونی اور تُربت میں بھی ماڈل اسکولز قائم کیے گئے ہیں۔ 

ان تمام اسکولز کے اخراجات، نیول ہیڈ کوارٹر کی جانب سے ادا کیے جاتے ہیں۔ البتہ، طلباء وطالبات کے جذبۂ خود داری کو برقرار رکھنے کے لیے اُن سے ہر ماہ محض 450 روپے فیس کی مد میں وصول کیے جاتے ہیں اور جن طلبہ کو اس فیس کی ادائی میں بھی دشواری ہو رہی ہو، تو اُن کے لیے مختلف مددگار اسکیمز ترتیب دی گئی ہیں، جن کے ذریعے نہ صرف مستحق بچّوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کیے جاتے ہیں، بلکہ کھانے پینے اور پِک اینڈ ڈراپ کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں، تعلیم کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے مقامی اساتذہ کے ساتھ، مُلک بھر سے مطلوبہ شعبے کے ماہر اساتذہ کو بھی تدریس کے لیے بلایا جاتا ہے اور اُنہیں بہترین تن خواہ اور دیگر مراعات دی جاتی ہیں۔ اسکول پرنسپل کے عُہدے پر کسی نیوی افسر ہی کو تعیّنات کیا جاتا ہے، جب کہ دیگر عملہ سویلینز پر مشتمل ہے۔

وائس پرنسپل، یاسمین موسیٰ ابتدائی ایّام ہی سے اس کالج سے وابستہ ہیں۔ وہ اپنے خاندانی اور تعلیمی پس منظر سے متعلق بتاتی ہیں کہ’’ میرا تعلق اورماڑہ کے ایک بلوچ گھرانے سے ہے۔ والد ماہی گیر ہیں۔ مَیں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی، وہاں وقت بدلنے کے ساتھ، تعلیم کے لیے قبولیت تو پیدا ہوچکی تھی، مگر میرے اَن پڑھ والدین تب بھی اسے محض خواب ہی سمجھتے تھے کہ اُن کی بیٹی پڑھ لکھ کر اُن کا نام روشن کرے۔ 

چوں کہ خاندانی روایات، اعلیٰ تعلیم کے حصول کی اجازت دیتی تھیں اور نہ ہمارے علاقے میں تعلیم کا رجحان تھا۔ مزید یہ کہ حصولِ تعلیم کے مواقع بھی ناپید تھے، اس لیے والدین کا خواب پورا ہونا کوئی اتنا آسان امر نہ تھا۔ بہرحال، مَیں نے گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول، اورماڑہ سے میٹرک کیا، اُس وقت تک وہاں لڑکیوں کا اسکول محض آٹھویں جماعت تک تھا اور ہم چند لڑکیاں بے حد کوشش، سخت محنت اور ٹیوشن لینے کے بعد میٹرک کے امتحان میں لڑکوں کے ساتھ شامل ہو جاتی تھیں، اس طرح مَیں نے 2004 ء میں میٹرک سائنس، بلوچستان بورڈ سے کیا، لیکن کالج نہ ہونے کی وجہ سے پرائیویٹ امیدوار کے طور پر انٹرمیڈیٹ اور2008 ء میں بی اے کا امتحان تربت جاکر دیا۔2009 ء میں اورماڑہ بوائز اسکول میں قائم، علّامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کے مرکز سے بی ایڈ کیا اور2013 ء میں کوئٹہ یونی ورسٹی سے پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے ایم اے اردو کیا، جس کے فوراً بعد ایم ایڈ بھی علّامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی سے کیا۔ 

یوں محدود وسائل کی وجہ سے زیادہ تر تعلیم پرائیویٹ امیدوار کے طور پر حاصل کی، جو بہرحال کسی بھی لحاظ سے کلاس روم اور استاد سے تعلیم لیے جانے کے برابر نہیں۔‘‘ اُن کا اپنی ملازمت کے حوالے سے کہنا ہے کہ’’ میٹرک کے بعد ہی پاک بحریہ کے اسکول سے بہ طورِ ٹیچر منسلک ہوگئی تھی۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ ترقّی بھی ہوتی رہی اور اب، وائس پرنسپل کے طور پر اپنے فرائض انجام دے رہی ہوں۔ جب اسکول شروع ہوا، تب ہم چند مقامی استانیاں اور پاکستان نیوی کی طرف سے تعیّنات عملہ، گھر گھر جاکر لوگوں کو، بچّے اسکول بھیجنے کے لیے قائل کرتے تھے۔ شروع میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن پھر آہستہ آہستہ اعتماد بحال ہوتا گیا اور آج، والدین کی اوّلین خواہش ہے کہ اُن کا بچّہ، بحریہ ماڈل اسکول ہی میں تعلیم حاصل کرے۔ جہاں اُسے بہترین تعلیم کے ساتھ اچھا ماحول بھی دیا جاتا ہے۔ پاک بحریہ پر عوامی اعتماد کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے پاس داخلے کے لیے آنے والے طلباء و طالبات کی تعداد گنجائش سے کہیں زیادہ ہے۔ 

نیز، ہمارے اسکول سے فارغ التّحصیل ہونے والے طلبہ کوئٹہ اور کراچی میں اسکالر شپ حاصل کر کے اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔ مَیں اپنی زندگی سے بے حد مطمئن ہوں کہ مَیں نے تعلیم حاصل کی اور اپنی قوم کے لیے پاکستان نیوی کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہوں۔ بچّوں کو پڑھاتی ہوں، کیوں کہ میرا یقین ہے کہ جو پڑھتے ہیں، وہی صحیح راہ بھی چُنتے ہیں۔ بلوچ قوم، جو زندگی کی بنیادی سہولتوں تک سے محروم تھی، پاکستان نیوی نے انھیں عمدہ سہولتوں کی فراہمی میں اپنا کردار ادا کیا، خاص طور پر تعلیم کے شعبے میں، یہاں تک کہ بلوچ بچّوں کو قومی دھارے میں شامل کر کے ہم نے اُن کے دِلوں کو فتح کرلیا ہے۔‘‘

ماہ سُندرہ، بحریہ ماڈل اسکول و کالج، اورماڑہ کے پرائمری سیکشن کی انچارج ہیں۔ اُن کے نام کے معنی’’ بے حد خُوب صورت‘‘کے ہیں۔ اُنھوں نے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ’’ والدین نے میرا یہ نام رکھتے ہوئے شاید تصوّر بھی نہیں کیا ہوگا کہ اُن کی بیٹی زندگی میں فروغِ تعلیم جیسے خُوب صورت مشن کے لیے کام کرے گی۔مَیں نے 2004 ء میں گرلز اسکول، اورماڑہ سے آٹھویں تک تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد، اپنے علاقے کی چند گنی چُنی دیگر لڑکیوں کی طرح میری بھی یہ ہی فکر تھی کہ میٹرک کے پیپرز کیسے دیے جائیں، بالآخر بوائز اسکول میں کلاس کے بیچ پردہ ڈال کر پڑھنے کی سبیل نکالی گئی، اس طرح میٹرک کا امتحان دیا۔ 

بحریہ ماڈل اسکول و کالج، اورماڑہ

کالج نہ ہونے کی وجہ سے انٹرمیڈیٹ کے امتحانات پرائیویٹ امیدوار کے طور پر پسنی میں دادی کے گھر رہ کر دیے۔ بی اے میں بھی صُورتِ حال تبدیل نہ ہوئی اور تُربت میں ایک دُور کے رشتے دار کے گھر رہ کر امتحان دیا، اسی دَوران علّامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی سے بی ایڈ کیا اور آج کل کوئٹہ یونی ورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کر رہی ہوں، لیکن کلاس میں استاد کی زیرِ سرپرستی تعلیم حاصل کرنا ہمارا وہ خواب ہے، جس کی تعبیر ہمیں تو میّسر نہ ہوئی، لیکن امید کرتی ہوں کہ حکومت ہمارے علاقے میں بھی یونی ورسٹی بنائے گی تاکہ آنے والی نسل باقاعدہ طریقے سے بھرپور تعلیم حاصل کر سکے۔ ٹیچنگ کا آغاز، بحریہ ماڈل اسکول کے ابتدائی دَور ہی سے کر دیا تھا،2005 ء میں، بہ طور ٹیچر یہاں کام کرنا شروع کیا اور اب پڑھانے کے ساتھ، پرائمری سیکشن کی انچارج بھی ہوں۔ تعلیم سے ہمارا ماحول بدل رہا ہے، اب بلوچ لڑکی بھی تعلیم کے حصول اور فروغ کے لیے گھر سے نکلتی ہے، جس کا ایک دہائی پہلے تک تصوّر بھی ناممکن تھا۔ ہم پانچ بہنیں ہیں، جو سب پڑھتی ہیں، ہمارا اکلوتا بھائی بھی پڑھ رہا ہے۔ پاکستان نیوی نے ہمیں، ہمارے علاقے ہی میں ملازمت کے مواقع مہیا کیے ہیں، میری ایک بہن میرے ساتھ اسکول میں پڑھاتی ہے اور دوسری، نیوی کے اسپتال میں نرس ہے۔ 

میرا تعلق بھی ماہی گیر گھرانے سے ہے، لیکن میرے والد خود ہمیں اسکول چھوڑ کر آتے تھے۔ اُن کی خواہش تھی کہ اُن کے بچّے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔ پاکستان نیوی نے اُن کے اس خواب کو کسی حد تک پورا کیا ہے، ہمارے زمانے میں کالج کی سہولت نہیں تھی، مگر اب میرے چھوٹے بہن بھائی، بحریہ ماڈل کالج میں اساتذہ کی زیرِ نگرانی اپنی مرضی کے مضامین کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر بے حد خوشی ہوتی ہے کہ صرف ہمارے علاقے ہی سے نہیں، دوسرے علاقوں سے بھی بچّے بحریہ کالج میں تعلیم حاصل کرنے آ رہے ہیں۔ نیز، پاکستان نیوی نے علاقے کی ترقّی کے لیے بھی بے حد کام کیا ہے، جس کی وجہ سے بلوچستان کے اس پس ماندہ علاقے میں کافی ترقّی ہوئی ہے اور اس ضمن میں ہم پاکستان نیوی کے بے حد ممنون اور شُکر گزار ہیں۔‘‘

پاک بحریہ کی کوششیں اپنی جگہ جاری ہیں، لیکن تعلیم کے فروغ کے لیے ان علاقوں میں مزید ہنگامی اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔ خاص طور پر صوبے کے تمام چھوٹے بڑے اضلاع میں اسکولز، کالجز اور جامعات کی بڑی تعداد کا قیام وقت کی اشد ضرورت ہے۔ سو، حکومت کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے پاک بحریہ ہی کے معیار کی تعلیمی سہولتیں، بلوچستان کے ہر گاؤں، قصبے، تحصیل اور ضلعے میں فراہم کرے۔

ہمارے ادارے کے طلبہ شان دار کام یابیاں حاصل کر رہے ہیں پرنسپل، لیفٹیننٹ کمانڈر، امبرین

لیفٹیننٹ کمانڈر، امبرین گزشتہ تین برسوں سے بحریہ ماڈل اسکول و کالج، اورماڑہ کی پرنسپل ہیں۔ اُنھوں نے ادارے کی کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا’’ مجھ سے پہلے بھی لوگوں نے اس ادارے کی ترقّی کے لیے جاں فشانی سے کام کیا اور اب مَیں یہ اہم ذمّے پوری کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ بلوچستان کے اس پس ماندہ علاقے میں تعلیم کا فروغ ایک مشکل کام ہے، دیگر بہت سے عوامل کے علاوہ، یہاں کے طلبہ کا ایک اہم مسئلہ غربت ہے۔ کچھ روز پہلے اسکول انچارج میرے پاس ایک ایسے طالبِ علم کو لے کر آئیں، جو دس روز غیر حاضر رہنے کے بعد اسکول آیا تھا، جب تفصیل معلوم کی تو اُس طالبِ علم نے کہا’’ میڈم! گھر میں کھانے کے لیے پیسے نہیں تھے، مجھ سے گھر والوں کے فاقے برداشت نہیں ہوئے اور مَیں نے ایک مستری کے پاس دس دن مزدوری کی، جس سے کچھ روپے ملے، وہ پیسے اماں کو دیے تاکہ گھر میں کھانے پینے کا انتظام ہوسکے اور پھر خود اسکول چلا آیا‘‘، یہاں ہر دوسرے طالبِ علم کی ایسی ہی کہانیاں ہیں اور جو صداقت پر بھی مبنی ہیں۔ 

بحریہ ماڈل اسکول و کالج، اورماڑہ

ہم پوری کوشش کرتے ہیں کہ اپنے اسکول میں پڑھنے والے بچّوں کے مسائل حل کریں اور اس سلسلے میں مختلف اسپانسر شپ پروگرامز ہمارے لیے بے حد مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔ اب بھی بہت سے مسائل ہیں، مگر کام یابیوں کا تناسب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ہمارے اسکول و کالج کے طلبہ ہر سال شان دار کام یابی حاصل کر کے ادارے اور والدین کا سر فخر سے اونچا کر رہے ہیں۔ گزشتہ سال بحریہ ماڈل اسکول و کالج کے64 طلبہ نے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں شرکت کی اور ہمارا رزلٹ 100 فی صد رہا۔ اس شان دار کام یابی پر بلوچستان بورڈ کی جانب سے طلبہ کو وظیفے اور اسکالر شپ کی پیش کش کی گئی، جو کہ ہمارے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔‘‘

سی این ایس اسپانسر آ چائلڈ اسکیم

اس اسکیم کا آغاز 2012 ء میں کیا گیا، جس کا مقصد کوسٹل ایریا میں ضرورت مند طلبہ کی مالی معاونت کرنا ہے۔ پاک نیوی اور سول سوسائٹی کے ارکان کی مشترکہ کوشش سے اس اسکیم کے تحت، 150 طلباء و طالبات کو بحریہ ماڈل اسکول و کالج میں مفت تعلیم کی سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔ 

نیز، مخیّر افراد کی سہولت کے لیے اس اسکیم کے تحت دو پیکجز متعارف کروائے گئے ہیں۔ ایک طالبِ علم پر آنے والے اخراجات کا تخمینہ اس کی کلاس کی نسبت سے 8000 اور 16000 ہزار روپے سالانہ لگایا گیا ہے، یوں یہ رقم ادا کرکے کسی ایک طالبِ علم کی کفالت کی جاسکتی ہے اور یقیناً یہ رقم کسی بھی طرح تعلیم جیسے عظیم مقصد کے فروغ کے لیے زیادہ نہیں ہے۔‘‘

تازہ ترین