ممتاز شاعر عبید اللہ علیم کی آج بیسویں برسی ہے ۔’چاندچہرہ ، ستارہ آنکھوں ‘کے شاعرکا شمار اُردوکےاُن مترنم شعراء میں ہوتاتھاجومشاعروں میں اپنی شاعری اورترنم کے حسین امتزاج سے ایک سماں باندھ دیتے تھے۔
عبید اللہ علیم 12 جون 1939ء کو بھوپال میں پیدا ہوئے تھےاور18مئی 1998ء کو کراچی میںاُن کا انتقال ہوا۔اُن کی اپنے ہم عصراور باکمال شاعرجون ایلیا سے گہری دوستی تھی۔جون نے 1968ء میں عبیداللہ علیم کے نام ایک منظوم خط لکھا تھا ۔سوشل میڈیا پر یہ خطعلیم اور جون کے چاہنے والوں نے شیئر کیا ہےجسے ہم ’جنگ‘ کے قارئین کے لیے یہاں پیش کر رہے ہیں۔
اے علیم اے بہارِ زخم چٹاں
موسمِ گل کی لا لا رنگ خزاں
اے زلیخاء پناہ کشورِ فن
کج کلہائے دیار و دستِ سخن
اےغزالِ غزل، غزل کے شہید
آج کے چارہ ساز کل کے شہید
اے ادب اشنائے مجلسِ غم
حالت افضائے حلقہِ ماتم
اے انیسِ دلِِ دل افگاراں
شاہدِ شاہدانِ شہر مغاں
واں سے ناشاد آ گیا ہوں میں
حیدرآباد آ گیا ہوں میں
جانے اس وقت تو کہاں ہو گا
میں نہیں ہوں جہاں ، وہاں ہو گا
چاندنی لئے کی کھل رہی ہو گی
درد کی داد مل رہی ہو گی
حلقہِ نقطہ پروراں ہو گا
یار یاروں کے درمیاں ہوگا
اک فضاء بے وبالِ جاں تو ملی
کہیں مجھ سے تجھے اماں تو ملی
بند وہ ہجرہء جنوں تو ہوا
چند روزہ سہی،، سکوں تو ہوا
کرب جاں کا بہانہ جو نہ رہا
اب تو آشوبِ ہائو ہو نہ رہا
اب کے جب میں ہوں ایک دور نشیں
اب تو واں فتنہ و فساد نہیں
شعر ارشاد ہو رہے ہوں گے
ذخم زخموں کو دھو رہے ہوں گے
زخمِ اتھر مہک رہا ہو گا
اور سینہ دہک رہا ہو گا
جب وہ کوچے میں جانِ جاں کے گئے
سرگراں، گر، پہ،، سرگراں کے گئے
اُس کا انجام کیا ہوا آخر
شامِ آزردگی بتا آخر
مثلِ باد صبا گئے تھے وہ
چندہی ساتھ واں رہے تھے وہ
اُن پہ وہ مہرباں ہوا کہ نہیں
کاروبارِ جنوں چلا کے نہیں
اے علیم، اے نوا طر ازِ حزیں
یارِ تسخین بخش و بے تسخین
تو بہت یاد آرہا ہے آج
دل زدہ ہائے تیری سعی علاج
چارہ گر ہائے تیری بیماری
ہائے بیمار تیری دلداری
فرضِ یاری نبھاہنے والے
میرے دکھ میں کراہنے والے
شعلہ سامانِ جزبہء جاں سوز
حرم عشق کے نیاز آموز
جادہ ءبندگی کے تُند خرام
عشق میں خود سپردگی کے امام
میری اصلاح ہے تجھے منظور
یعنی ڈھے جائے مرا قصرِ غرور
نہ رہے مجھ میں خیشتن داری
ہو انا نظرِ ناز برداری
اپنی اصلاح کر رہا ہوں میں
پندگر لے بکھر رہا ہوں میں
ہاں مگر ایک بات کہنی ہے
پھر تیری بحث آ کے سہنی ہے
اے وفا کے مبلغ اورنقیب
اے میاں ممبرِ وفا کے خطیب
خوئے تسلیم کے مسیح سلیم
تو نے کیا پا لیا وفا کر کے
کر کے مسمار اپنا قصرِ انا
داورِ حرف تو مٹا کے بنا
ناز برداریوں کے آزاری
مجھ کو بھی پندِ ناز برداری
یوں ہی یوسف بنا تھا دیوانے
انگلیاں کاٹ دیں زلیخا نے
دوسری اک مثال بھی سن لے
ذکرِ امکان حال بھی سُن لے
یعنی شیوہ ہماری لیلیٰ کا
زخم جلتا ہے دل میں فردا کا
وہی خاطر وہی خرام نہ ہو
یہ بھی اُس زہر کاہی جام نہ ہو
جس نے تجھ کو ہلاک کر ڈالا
اور مجھ کو سہمناک کر ڈالا
زخم چابوں کے خون تھوکوں میں
کیسے ممکن ہے سر جھکا دوں میں
میں ہو ں یا تو ہو لا زوال ہیں ہم
خالقِ حُسنِ خد و خال ہیں ہم
ہم سے ہیں عشوہ ہائے اشک انگیز
ہم ہیں یزدانِ دہرِ خوباں خیز
سن حقیقت کہاں مجاز کہاں
ہم کہاں سجدہِ نیاز کہاں
واہ دریغہ ۔ میں اور مرا یارِ جانی
کتنے اجنبی ہو گئے ہیں
یار ِ جانی لوٹ بھی آ، یارِ جانی لوٹ بھی آ