موسیقار گھرانوں کا کہنا ہے کہ کلاسیکی موسیقی کا حُسن کبھی ماند نہیں پڑتا۔ گیت و سنگیت انسانی احساسات و کیفیات کے اظہار کا ایک ایسا وسیلہ ہے، جس میں الفاظ کو سُر اور سریلی آواز سے سجایا جاتا ہے۔ اسی طرح لوک گیت بے ساختہ ابل پڑنے والے چشمے کی طرح ہوتے ہیں۔ یہ کسی ایک فرد کی ملکیت نہیں۔ لوک گیت کسی خطے یا علاقے کے باسیوں کی ریتوں، رسموں، رواجوں، دُکھوں، سکھوں،محبتوں،، خواہشوں، اور محرومیوں کا اجتماعی اظہار ہوتے ہیں۔ یہ انسانی جذبات و محسوسات کے استعارے ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے معروف گلوکار کرم عباس خاں کی خوبی یہ ہے کہ وہ لوک گیت بھی ثقافتی رچائو کے ساتھ گاتے ہیں، تو کلاسیکی موسیقی انہیں ورثے میں ملی، غزل، گیت اور صُوفیانہ کلام کی گائیکی نے انہیں دیگر گائیکوں سے منفرد اور ممتاز کردیا۔ گوالیار گھرانے سے تعلق رکھنے والے گائیک کرم عباس خان کے نام اور کام سے یقینا سب واقف ہوں گے۔ انہوں نے نہایت قلیل عرصے میں کلاسیکل گائیکی کے میدان میں خود کو منوایا۔ وہ جب نغمہ سرا ہوتے ہیں تو ان کی آواز سماعتوں کے ذریعے سیدھی دل میں اتر جاتی ہے اور سامع بے ساختہ واہ واہ کرنے لگتا ہے۔ موسیقی کا فن انہوں نے اپنے والد استاد احمد علی خان اور استاد رحمت علی خان سے باقاعدہ سیکھا۔ 18 برس کی عمر سے محافل موسیقی میں آواز کا جادو جگارہے ہیں، جب انہوں نے ’’کوک اسٹوڈیو‘‘ کے سیزن 8 میں راگ بھیم پلاسی اپنی آواز میں پیش کیا تو ہر طرف ان کے چرچے ہونے لگے۔ ان کا ساتھ مائی ڈھاٹی نے دیا تھا۔ کرم عباس خان نے پہلی بار ٹیلی ویژن کے پروگرام ’’راگ رنگ‘‘ میں گایا۔ ان کے ساتھ سجاد علی اور مہناز نے بھی اس پروگرام میں حصہ لیا۔ اس پروگرام کی پروڈیوسر ساحرہ کاظمی تھیں۔ بعدازاں انہوں نے کراچی میں منعقدہ سارک کانفرنس میں عالمی شہرت یافتہ گلوکار عابدہ پروین، الن فقیر، اختر چنار وغیرہ کے ساتھ فوک گیت پیش کیے۔ وہ نامور گلوکارہ مہناز کے ساتھ ڈوئٹس گا چکے ہیں۔ مہناز کے ساتھ ان کی غزلوں پر مبنی دو آڈیو البم بھی ریلیز ہوچکے ہیں۔ 2001ء میں پاکستان فلم انڈسٹری کا سب سے بڑا نگار ایوارڈ بھی حاصل کرچکے ہیں۔ بہترین گلوکار کا ایوارڈ انہوں نے ملک کی معروف اداکارہ سنگیتا بیگم کے ہاتھوں وصول کیا تھا۔ جیو سے ان کی دوستی بہت پُرانی ہے۔ جیو کے سپرہٹ پروگرام ’’پاکستان آئیڈل‘‘ میں اپنی خدمات پیش کرچکے ہیں۔ حال ہی میں جیو کے مقبول پروگرام ’’ننھے استاد‘‘ میں بہ حیثیت جج نئے ٹیلنٹ کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ دنیا کے مختلف ممالک میں وطن عزیز کا نام روشن کرنے والے کلاسیکل سنگر کرم عباس خاں سے گزشتہ ہفتے ایک ملاقات میں ان کے فن کے بارے میں بات چیت ہوئی، جس کی تفصیل نذرِ قارئین ہیں۔
س: آپ نے گائیکی کے میدان میں کلاسیکل موسیقی کا ہی انتخاب کیوں کیا، جب کہ سب جانتے ہیں کہ آج کل کلاسیکل موسیقی کی مانگ زیادہ نہیں ہے؟
کرم عباس خاں: خیال گائیکی، جسے کلاسیکل موسیقی کہا جاتا ہے۔ یہ ہمیں ہمارے بزرگوں سے ورثے میں ملی ہے۔ اس کی تعلیم حاصل کرنا ہمارے لیے ضروری ہوتا ہے۔ اس سے مستقبل میں گائیکی کے دیگر شعبوں میں بھی مدد ملتی ہے، جب میں نے کلاسیکل گانا شروع کیا تھا تو اس وقت اتنا اچھا ماحول نہیں تھا، لیکن اب صورتِ حال بہت بہتر ہوگئی ہے۔ نوجوانوں نے بھی کلاسیکل موسیقی سُننا شروع کردیا ہے۔ گانا اب سستا ہوگیا ہے، بیماری کی طرح پھیل گیا ہے۔ نئی نسل کے گلوکار گانا سیکھنا نہیں چاہتے، اگر وہ سیکھ کر آئیں تو زیادہ بہتر کام یابی حاصل کرسکتے ہیں۔ ہم نے گانے کے لیے کئی برس ریاضت کی تو آج ہر طرح کے نغمے گا لیتےہیں۔
س : گانے کو سننے کے بجائے وڈیو کے ذریعے دیکھنے کی چیز بنادیا گیا ہے، اس سے موسیقی کو کیا فائدہ ہوا؟
کرم عباس خاں: شوبزنس کی دُنیا اب کمرشلائز ہوگئی ہے۔ نت نئے تجربات کیے جاتے ہیں۔ گانوں کی وڈیو بنانے سے اس کی دل کشی میں اضافہ ضرور ہوا ہے، لیکن گانے کی مٹھاس اور موسیقی کی سچائی کم ہوگئی ہے۔ وڈیوز کی وجہ سے موسیقی کا اثر بھی جاتا رہا۔ گانوں کی وڈیوز میں خوب صورت ماڈل اور لوکیشن کا ہونا ضروری ہے، چاہے موسیقی کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو۔ جسے دیکھو وہ ایک گانے کا وڈیو بناتا ہے اور گلوکار بن جاتا ہے۔ اس سے موسیقی کی روایت کو شدید نقصان ہوا ہے۔ اب سامعین سنگر کی صورت ہی ہیرو تلاش کرتے ہیں۔
س : جیو کے پروگرام پاکستان آئیڈل کا تجربہ کیسا رہا؟
کرم عباس خان: پاکستان آئیڈل بہت بڑا شو تھا، جس کی وجہ سے مجھے بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس پروگرام کے سلسلے میں ہم نے نئی آوازیں اور ٹیلنٹ کا انتخاب کیا۔ نئے آنے والے گلوکاروں کے آڈیشن لیے اور بعدازاں ان کی تربیت بھی کی۔ سب نوجوانوں نے مجھے بہت عزت دی۔ اس پروگرام کے دوران گائیکی کے حوالے سے بے پناہ شہرت رکھنے والے ستاروں سے ملاقات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکارہ عابدہ پروین، سجاد علی، عالمگیر، حامد علی خان، علی ظفر، ٹینا ثانی، بشریٰ انصاری، حدیقہ کیانی، وغیرہ سے دل چسپ گفتگو کا تبادلہ بھی ہوا۔ گزشتہ دنوں جیو کے ایک خوب صورت پروگرام ’’ننھے استاد‘‘ میں جج بنا۔ اس پروگرام میں بھی بہت سارا نیا ٹیلنٹ سامنے آیا۔ ہماری نئی نسل میں موسیقی کے حوالے سے بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے، صرف ان کو رہنمائی کی کمی کا سامنا ہے۔
س : بیرون ملک کہاں کہاں پرفارم کیا اور کوئی یادگار پروگرام کا ذکر بھی کیجیے؟
کرم عباس خاں: جنرل پرویز مشرف کی حکومت کا زمانہ تھا۔ محترمہ ملیحہ لودھی کی دعوت پر ہم لندن کے دورے پر گئے۔ اس موقع پر غلام علی، سجاد علی، فاخر وغیرہ بھی ساتھ تھے۔ ایک ہفتے کا دورہ تھا۔ یہ پروگرام 2005ء میں زلزلے کے سلسلے میں تھا۔ لندن کے سب سے خوب صورت رائل البرٹ ہال میں میرا نام اچانک پکارا گیا۔ میرے دل کی دھڑکن میں زبردست اضافہ ہونے لگا۔ جیسے ہی ہال کی لائٹس آن کی گئیں، میں خوش گوار حیرت میں ڈوب گیا، سامنے ہزاروں انگریز و دیگر سامعین موجود تھے۔ یہ پروگرام میری اب تک کی فنی زندگی کا یادگار پروگرام ثابت ہوا، جہاں تک دنیا بھر میں پرفارمنس کا سوال ہے تو اس سلسلے میں عرض کردوں، تقریباً آدھی دنیا گھوم چکا ہوں۔ امریکا، یورپ وغیرہ جاتا رہتا ہوں۔ ابھی حال ہی میں پھر پروگرام کی دعوت آئی ہے۔ عیدالفطر کے بعد یو کے جائوں گا۔ بیرون ملک پرفارم کرتے ہوئے ہمیشہ ملکی وقار کاخاص خیال رکھا۔ کوشش کی کہ انہی تمام تر صلاحیتوں اور آواز کی بہ دولت سب کے دل جیت لوں۔ بیرون ملک پاکستانی موسیقی اور فن کاروں کی بہت مانگ ہے۔
س : اپنی فیملی کے بارے میں کچھ بتانا پسند کریں گے؟
کرم عباس خاں: ہم آٹھ بہن بھائی ہیں، چھ بھائی اور دو بہنیں، میرا ایک بیٹا ہے، وہ بھی اب موسیقی کے میدان میں اڑنے کے لیے پر تول رہا ہے۔ بھائی وسیم عباس خان اور راحت عباس خان بھی موسیقی سے وابستہ ہیں۔ ہم سب مل کر بھی پرفارم کرتے ہیں۔
س : سُنا ہے آپ ’’ٹھمری‘‘ بہت اچھی گاتے ہیں؟
کرم عباس خان: ٹھمری، کلاسیکل کی آسان شکل ہے، کیوں کہ خیال گائیکی میں شاعری کم ہوتی ہے، بڑے غلام علی صاحب نے ٹھمری کو حسن بخشا۔ مجھے ٹھمری گانے میں بہت مزا آتا ہے۔ ٹھمری کے ذریعے گائیکوں نے راگوں کو آسان بنایا اور اس کے بعد غزل اور گیت بھی سامنے آئے۔
سن : مہناز بیگم کے ساتھ دو البم کا تجربہ کیسا رہا؟
کرم عباس خان: مہناز صاحبہ بہت بڑی گائیکہ تھیں۔ ان کے ساتھ ڈوئٹس گانا میرے لیے اعزاز کی بات تھی۔ ان کے ساتھ مل کر غزلوں کے دو البم ریلیز کیے۔ غزل گائیکی کا اپنا حُسن ہے، اس کی اپنی خوب صورتی ہے۔
س : مستقبل کے کیا پروگرام ترتیب دیے ہیں؟
کرم عباس خاں: میں نے نوجوانوں کی پسند کو سامنے رکھتے ہوئے دو تین نئے گیت تیار کیے ہیں۔ ان کی وڈیوز بھی بنارہا ہوں۔ عید کے بعد انہیں ریلیز کروں گا، کیوں کہ مجھے معلوم ہے، موسیقی کو سب سے زیادہ جنہوں نے نوجوانوں میں ہوتا ہے۔
س : شوبزنس میں کن فن کاروں سے قریبی مراسم ہیں؟
کرم عباس خاں: جاوید لوٹیا اور سلمان علوی مجھے بہت سپورٹ کرتے ہیں۔ انور مقصود کی رہنمائی اور پذیرائی سے مجھے بہت حوصلہ ملتا ہے۔
س : کون سے گلوکار پسند ہیں؟
کرم عباس خاں: سجاد علی اور راحت فتح علی خان کے گائے ہوئے گیت شوق سے سُنتا ہوں اور میری خواہش ہے کہ میں بھی بالی وڈ کی فلموں میں آواز کا جادو جگائوں۔ ایک دو جگہ سے پیش کش ہوئی ہیں۔ دوستوں اور چاہنے والوں کی دعائوں سے جلد ہی بالی وڈ میں میری آواز بھی سنائی دے گی۔