بالی وڈ کے سلطان، سلمان خان نے اس بار بھی عید پر ’’ریس‘‘ لگانے کے لیے انٹری دے دی ہے ۔عید میٹھی ہو اور ُاس پر سلمان کی فلم ہو تو سینما جانے والوں کی عید کا مزا دوبالا ہوجا تاہے۔سلمان خان ہر عیدپر انٹر ٹینمنٹ کی عیدی بانٹتے ہیں اور خود کروڑوں روپوں کے ساتھ تالیاں اور سیٹیاں سمیٹ کر لے جاتے ہیں۔ بالی وڈ والے کہتے ہیں، لگتا ہے کہ باکس آفس پر عید آتی ہی سلمان کے لیے ہے۔ بالی وڈ میں 2009سے پہلے عید کو فلموں کی ریلیز کے لیے اتنا موزوں نہیں سمجھا جاتا تھا، جتنا کرسمس اور دیوالی کے تہواروں کو اہمیت دی جاتی تھی، لیکن سلمان اور عید کی جوڑی نے سال کی سب سے بڑی ’’ریلیز ڈیٹ‘‘ اِسی عید کے دن کو بنادیا ہے۔ اب عید پر مکمل کنٹرول سلمان خان کا ہے۔کوئی اور اِس دن فلم ریلیز کرنے کا سوچتا بھی نہیں۔بالی وڈ میں سو سو کروڑ کا بزنس کرنے والی مسلسل 12 فلمیں دینے والے واحد سپر اسٹار کی یہ بارہ فلمیں دنیا بھر سے 42رب روپوں کا بزنس کرچکی ہیں۔ سلمان کی پچھلی 7عید فلمیں صرف بھارت میں14ارب اور دنیا بھر میں26ارب روپوں سے زیادہ کا بزنس کرچکی ہیں۔ آئیے آپ کو ہر سال عید پر سلمان کے کمال کی کہانی سُناتے ہیں۔2018۔اس سال سلمان خان کی ریس تھری ریلیز ہوگی۔ریس سیکوئل ہے 2008میں ریلیز ہونے والی ریس اور 2013میں ریلیز ہونے والی ریس 2کا۔ریس اور ریس 2دونوں بلاک بسٹر فلمیں تھیں ، لیکن ان میں سلمان نہیں سیف علی خان نے مرکزی کردار نبھائے تھے۔ اس بار ریس تھری میں فلم کا ہیرو بھی بدل گیا ہے اور ڈائریکٹر بھی۔پہلی دونوں ریس کی ڈائریکشن عباس مستان نے دی تھیں، اس بار ’’ اے بی سی ڈی ‘‘ والے ریمو اس فلم کے کپتان ہیں۔ فلم میں سلمان کے ساتھ انیل کپور ،بوبی دیول،ثاقب سلیم،جیکولین اور ڈیزی شاہ نظر آئیں گی۔ فلم کے صرف ورلڈوائیڈ سینما رائٹس190کروڑ میں فروخت کیے گئے ہیں۔ یعنی اس فلم کوبھارت سمیت دنیا بھر میں سپر ہٹ ہونے کے لیے 450کروڑ کمانے ہوں گے۔دوسری طرف فلم بنانے والوں یعنی ٹپس اور سلمان خان فلمز کو تو اپنی لاگت سے بھی زیادہ پیسے تو ایسے ہی مل گئے۔اب ڈیجیٹل ،سیٹلائٹ اور میوزک رائٹس الگ ہیں، جن سے مزید فلم بنانے والوں کو 200کروڑ اکاؤنٹ میں آنے کی توقعات ہے۔
2017۔یہ سال سلمان ، ان کے چاہنے والوں،باکس آفس ،ڈسٹری بیوٹرز اور پورے بالی وڈ کے لیے دھچکا ثابت ہوا۔اس سال باکس آفس نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ یہاں کب کیا ہوجائے کوئی نہیں جانتا۔سلمان خان اور عید کا ساتھ اس بار ناکام ثابت ہوا۔ فلم ’’ٹیوب لائٹ‘‘ باکس آفس پر فیوز ہوگئی۔فلم کے ڈائریکٹر بجرنگی بھائی جان والے کبیر خان تھے اور پروڈیوسر خود سلمان خان۔’’ٹیوب لائٹ‘‘کے ڈائریکٹر کبیر خان کے ساتھ سلمان کی تیسری فلم تھی۔ دونوں کی پچھلی فلمیں’ایک تھا ٹائیگر‘ اور’بجرنگی بھائی جان‘ بھی عید پر ہی ریلیز ہوئی تھیں اور سپر ڈوپر ہٹ ہوئی تھیں۔ سلمان فلم میں اپنے چھوٹے بھائی سہیل خان کے ساتھ نظر آئے تھے۔ دونوں اس سے پہلے فلم ’’ویر‘‘ میں بھی بھائیوں کا کردار ادا کرچکے ہیں۔ ’میں نے پیار کیوں کیا‘،’گاڈ تُسی گریٹ ہو‘،’سلامِ عشق‘،’مسٹر اینڈ مسز کھنہ‘ اور’ہیروز‘میں بھی دونوں نے ایک ساتھ کام کیا، لیکن کردار بھائیوں کے نہیں تھے۔’ٹیوب لائٹ‘ ہالی وڈ کی فلم ’’دی لٹل بوائے‘‘ سے متاثر ہو کر بنائی گئی تھی۔ فلم بھارت اور چین کی جنگ کے پس منظر میں بنائی گئی تھی، لیکن دیکھنے والوں کو بالکل نہیں بھائی۔ فلم اتنی بُری طرح پِٹی کہ دنیا بھر میں ڈھائی سو کروڑ کا بزنس بھی نہیں کرسکی۔سلمان اور عید کی چھٹیوں نے فلم کو اپنے دیس میں 120کروڑ کا بزنس ضرور کروادیا،جس کی وجہ سے سلمان کی مسلسل سو سو کروڑ کی فلمیں دینے کا ریکارڈ بچ گیا۔2016۔اس سال عید پر سلمان نے ہریانہ کا سلطان بن کر پہلوانی اور مکس مارشل آرٹ کے جوہر دکھائے۔فلم سلمان خان کی دوسری تین سو کروڑ فلم ثابت ہوئی۔ اس فلم نے دنیا بھر میں590کروڑ کا بزنس کیا۔ یہ دنیا بھر میں سلمان خان کی اب تک کی دوسری کام یاب ترین فلم ہے۔ اس فلم کے ڈائریکٹر علی عباس ظفر تھے، جنھوں نے بعد میں سلمان کے ساتھ ’’ٹائیگر زندہ ہے‘‘ بنائی۔اس فلم کی پروڈیوسر یش راج فلمز تھی۔ فلم میں پہلی بار انوشکا شرما اور موسیقار وشال اینڈ شیکھر نے سلمان کے ساتھ کام کیا۔
2015۔ سلمان خان اس عید پر ’’بجرنگی بھائی جان‘‘ بنے اور فلم میں پاکستان کا چکر بھی لگایا۔ فلم میں سلمان نے دوسروں کو مارا پیٹا نہیں بلکہ سب سے مار کھائی،ہاتھ جوڑ جوڑ کر اور ’’مُنی‘‘ کو پاکستان چھوڑ کر اپنے وطن میں پورے 300کروڑ کی عیدی کمائی۔اس فلم میں کرینا کپور ہیروئن تھیں، لیکن چائلڈ اسٹار منی اور نواز الدین صدیقی کے کردار زیادہ پسند کیے گئے۔ بجرنگی بھائی جان 2018میں چین میں بھی ریلیز ہوئی،اس طرح اس فلم نے اب تک دنیا بھر میں تقریبا1000کروڑ بزنس کیاہے۔بجرنگی بھائی جان اب تک سلمان کے کیریئر کی سب سے کام یاب ترین فلم ہے۔2014۔ سلمان خان نے عید پر پھراس سال ’’کِک‘‘ لگائی۔فلم میں سلمان نے چور اور سپاہی دونوں کردار ادا کیے۔ اس فلم سے انہوں نے پہلی بار دو سو کروڑ کا چھکا لگایا اور عامر اور شاہ رخ کے بعد دو سو کروڑ کلب میں جگہ بنائی۔ فلم کے ڈائریکٹر سلمان کے دوست اور مشہور پروڈیوسر ساجد نڈیاڈ والا تھے۔ فلم میں جیکولین ، رندیپ اور نواز الدین نے مختلف کردار ادا کیے۔اس فلم نے دنیا بھر میں377کروڑ کی کمائی کی۔2013۔اس سال سلمان خان اپنی بیماری کی وجہ سے عید کو ٹارگٹ نہیں کرسکے اور انھوں نے وہ عید شاہ رخ خان کے لیے چھوڑ دی۔ شاہ رُخ خان اور دپیکا کی فلم ’’چنئی ایکسپریس‘‘ نے کروڑوں کی ڈبل سنچری بنائی اور یہ فلم اب تک شاہ رخ خان کے کیریئر کی سب سے کام یاب فلم ہے۔ چنئی ایکسپریس نے دنیا بھر میں400کروڑ سے زیادہ کا بزنس کیا۔اس فلم کے ڈائریکٹر اب تک سب سے زیادہ سو سو کروڑ فلمیں دینے والے روہت شیٹھی تھے۔
2012۔اس سال عید پر سلمان خان کی ’ایک تھا ٹائیگر‘ نے دُھوم مچائی اور ایسی مچائی کہ فلم دو سو کروڑ سے صرف دو کروڑ پیچھے رہی۔یہ یش راج کے ساتھ سلمان خان کی پہلی فلم تھی۔دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ فلم پہلے شاہ رخ خان کو آفر کی گئی تھی، لیکن بعد میں سلمان خان کی جھولی میں آگری۔ سلمان اور کترینا اس فلم میں جتنا اسکرین پر اچھے لگے اتنا کسی اور فلم میں نہیں۔2011۔اس عید پر’’باڈی گارڈ‘‘ لوگوں نے سوئیاں اور شیر کھانے کے بعد دیکھی اور بار بار دیکھی۔ اس فلم نے بھی سو کروڑ سے زیادہ کی عیدی سمیٹی۔ یہ سلمان اور کرینا کپور کی جوڑی کی پہلی کام یاب فلم تھی ،دونوں اس سے پہلے میں اور مسز کھنہ اور کیوں کہ جیسی میگا فلاپ فلموں میں ایک ساتھ کام کرچکے تھے۔
2010۔کی عید الفطر پر سلمان نے ’’دبنگ‘‘ انٹری دی اور پہلی بار باکس آفس پر سو کروڑ کا چھکا لگایا۔دبنگ سلمان خان اوران کے چاہنے والوں کی سب سے پسندیدہ فلموں میں سے ایک ہے۔اس فلم میں سلمان خان نے’’چلبل پانڈے‘‘ کا یادگار کردار ادا کیا۔فلم کے گانے ،مکالمے اور ایکشن بھی بہت مقبول تھے لیکن ’’منی بدنام‘‘ تو گلی گلی سُنا گیا،یہاں تک کہ سیاسی تقریروں میں بھی ’’منی بڑی بدنام‘‘ ہوئی۔دبنگ میں سوناکشی سنہا نے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا۔فلم کے ڈائریکٹر’’ ابھی نیو کشیپ ‘‘ تھے، جنھوں نے بعد میں رنبیر کپور کو ’’بے شرم ‘‘ بنا کر ایسا کیریئر خطرے میں ڈالا کہ رنبیر آج تک اس وقت کو یاد کر کے روتے ہوں گے، جس وقت انھوں نے بے شرم بننے پر فلم سائن کی۔ صرف 42کروڑ کی لاگت سے بننے والی اس فلم نے دنیا بھر میں2ارب سے زیادہ کی کمائی کی۔2009 ۔اس میٹھی عید میں سلمان خان ایکشن مسالہ انٹرٹینمنٹ فلم ’’وانٹیڈ‘‘ سے انڈسٹری میں’’موسٹ وانٹیڈ‘‘ ہوگئے۔ یہ وہ فلم تھی، جس نے سلمان خان کے پھر سے ڈوبتے کیرئیر میں جان ڈال دی تھی۔وانٹیڈ اور اس کے بعد دبنگ پھر جو سفر ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔یہ فلم ساؤتھ انڈین فلم کا ری میک تھی۔اس فلم کے پروڈیوسر بونی کپور اور ڈائریکٹر پرابھو دیوا تھے۔فلم کی ہیروئن عائشہ ٹاکیہ تھیں، جو عائشہ فرحان ہوگئیں ہیں۔ چھوٹی عید تو ہمیشہ سلمان اور ان کے چاہنے والوں کے لیے’’میٹھی‘‘ ثابت ہوئی، لیکن بڑی عید پر سلمان کی قسمت کا ستارہ ایسا نہیں چمکا،2002میں سلمان خان،دیا مرزا اور سشمیتا سین کی فلم ’’تم کو بہ بھول پائیں گے‘‘ باکس آفس پر ناکام ثابت ہوئی تھی۔ میٹھی عید1997میں بھی سلمان کے لیے شیریں تھی، کیوں کہ اس سال عید پر سلمان کی جڑواں ریلیز ہوئی اور سپر ڈوپر ہٹ ہوئی تھی۔اب سلمان اس باکس آفس پر اپنی ایکشن پیک ریس سے باکس آفس پر کیسی ’’تباہی ‘‘ مچاتے ہیں یہ سب کو عید کے ایک ہفتے بعد پتا لگ جائے گا۔
فلم آڈیو، وڈیو ٹریڈ رپورٹ
اطہر جاوید صوفی
رمضان المبارک اور اسٹوڈیوز کی ویرانی
ماضی میں عیدین کے مواقع پر فلموں کی نمائش کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا، 70اور 80 کی دہائی میں عیدین کے مواقع پر بہ یک وقت6 سے8 فلمیں ریلیز کی جاتی تھیں، عیدالفطر کا فلم بینوں بالخصوص فلم پروڈیوسرز کو بھی انتظار رہتا تھا، رمضان المبارک میں اس دور میں جتنے بھی فلم اسٹوڈیوز تھے، وہاں فلور کا حاصل کرنا بہت ہی مشکل ہوتا تھا۔ اسٹوڈیوز میں فلور کے علاوہ بھی فلمی مناظر کی مناسبت سے بہت سی فلموں کے سیٹ بیرون فلور بھی لگائے جاتے تھے، رمضان میں دن میں گرم موسم کے اعتبار سے کم رش ہوتا تھا، مگر رات کو سحر تک ہر فلور پر رونق ہوتی تھی، ایورنیو اسٹوڈیو، باری اسٹوڈیو، شاہ نور اسٹوڈیو، شباب اسٹوڈیوز، جب کہ کراچی میں ایسٹرن اسٹوڈیوز، ماڈرن اسٹوڈیوز، انٹرنیشنل اسٹوڈیوز میں بھی فلورز کے حصول کے لیے رسہ کشی جاری رہتی تھی، جن فلم سازوں کو ان اسٹوڈیوز میں فلور نہیں ملتا تھا، وہ آئوٹ ڈور لوکیشن پر شوٹنگز کرتے تھے، تاکہ ان کی فلم عیدالفطر یا بقر عید پر ریلیز ہوسکے، تمام اسٹوڈیوز میں رونق اور گہما گہمی قابل دید ہوتی ہے، معروف فن کار محمد علی، ندیم، مصطفی قریشی، ننھا، انجمن، اسلم پرویز، سلطان راہی، منور ظریف، بہار بیگم، ادیب طالش ایک سیٹ سے دوسرے سیٹ پر مصروف نظر آتے تھے۔ اسی دور میں منور ظریف، سلطان راہی، مصطفی قریشی، بہار بیگم کی فلمی مصروفیات کے باعث ٹیڈی شفٹ کی اصطلاح عام ہوگئی۔ ٹیڈی شفٹ کے ذریعہ فلمیں تو کثیر تعداد میں بننے لگی تھیں، مگر فلموں کا معیار روز بروز گرتا چلا گیا، جس کی وجہ سے فن کاروں کی مصروفیات کے باعث ریہرسل کے لیے ان کے پاس وقت ہی نہیں تھا، اس دور میں اسٹوڈیوز کا یہ حال تھا، جب کہ آج تمام اسٹوڈیوز ویرانی کا شکار ہیں، جہاں کبھی فلمی دفتر کے حصول کے لیے فلم سازوں اور پروڈکشن ہائوسز کو سفارش درکار ہوتی تھی، آج اگر ان اسٹوڈیوز کا دورہ کیا جائے، تو وہاں ویرانی ہی ویرانی نظر آتی ہے۔ کراچی میں ایسٹرن اسٹوڈیو میں ایک بوسیدہ سا فلور ہے، جہاں ٹیلی ویژن ڈراموں کی ریکارڈنگ بھی کبھی کبھی ہوتی ہے، ماڈرن اسٹوڈیو بھی تقریباً ختم ہوچکا ہے، لاہور میں ایورنیو اسٹوڈیو جہاں دن رات رونق ہوتی تھی، وہاں اب ویرانی ہی ویرانی ہے، چند ایک ماضی کے مقبول ہدایت کاروں الطاف حسین، حسن عسکری، پرویز کلیم وغیرہ آج بھی اسٹوڈیوز سے رشتہ جوڑے ہوئے ہیں۔ ایک دور تھا، ایورنیو اسٹوڈیوز کے فوارے پر فلمی لوگ ٹولیوں کی شکل میں نظر آتے تھے، اب وہاں اکا دکا شخص نظر آجائے تو وہاں چند موجود افراد میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے، یہی صورت حال شاہ نور اسٹوڈیوز کی ہے، جہاں جا بچا کچرے ڈھیر دکھائی دے رہے ہیں۔ شباب اسٹوڈیوز بھی ویران ہوچکا ہے، اس اسٹوڈیوز کے کچھ حصے پر سید نور نے فن کاروں کی تربیت کےلیے اکیڈمی قائم کی ہے۔ سید نور بھی ایک زمانے میں بہت معروف ہدایت کار رہ چکے ہیں۔ شباب اسٹوڈیو کے جس حصے پر اکیڈی بنائی گئی ، وہاں تو کچھ صورت حال بہتر ہے، مگر دیگر جگہ پورا اسٹوڈیو شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، سید نور حالاں کہ اپنے آفس جاتے ہیں ، مگر بقیہ اسٹوڈیو پر ان کی توجہ بھی نہیں ہے۔ باری اسٹوڈیو رقبے کے اعتبار سے بڑا اسٹوڈیو ہے، مگر وہ بھی فلموں کی عکس بندی نہ ہونے کے برابر ہے، اکا دکا فلم ساز اس طرف کا رخ کرتےہیں، ان اسٹوڈیوز کی ویرانی ہونے کی بہت سی وجوہ ہیں، ہمارےاسٹوڈیو اونرز نے بھی کام کم ہوجانے کے باعث اپنے اسٹوڈیوز کی جانب سے توجہ ہٹالی، جس کی وجہ سے جا بجا کچرے کے ڈھیر نظر آرہے ہیں۔ باری اسٹوڈیو میں ایک بنایا کھیت بھی موجود تھا، جو آج کل ویرانی کا شکار ہے، اگر سینما مالکان وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اسٹوڈیوز کو اپ ڈیٹ کرتے رہتے اور پوسٹ پروڈکشن کے حوالے سے لاہور میں جدید اسٹوڈیوز کی تعمیر وترقی پر توجہ دی جاتی تو فلم سازوں کو پوسٹ پروڈکشن کے لیے سنگاپور یا ممبئی نہ جانا پڑتا، دراصل پاکستانی فلم صنعت کو بغیر پلاننگ کے چلایا جاتا رہا، فلمی صنعت کے کرتا دھرتائوں نے مستقبل کے لیے کچھ بھی نہیں کیا، جس کی وجہ سے فلمی صنعت مسلسل بحران کا شکار ہوتی گئی۔ آج اسٹوڈیوز کی ویرانی کے ذمے دار ہمارے فلم ساز ہدایت کار اور فن کار ہیں، فلمی صنعت کے بحران کی بہت سی وجوہ ہیں، ان میں ڈبل ورژن فلمیں تسلسل سے یکسانیت کا شکار فلمیں، چربہ فلمیں، اس وقت تک مقبول ہوتی رہی، جب تک وی سی آر نہیں آیا تھا، جیسے ہی وی سی آر چربہ سازی سے پردہ اٹھ گیا۔ فلم بینوں نے فلمیں مسترد کرنا شروع کردیں۔ فلم سازوں نے ان معاملات پر قابو پانے کی بجائے، اسی ڈگر پر چلتے رہے اپنی روش نہ بدلی، بعض فلم سازوں نے حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اچھی فلمیں بھی بنائیں، مگر ایسی فلموں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہی، جس کا فلمی صنعت کو خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا، اب چند سالوں سے ہمایوں سعید، فضا علی مرزا، جاوید شیخ، جامی، ندیم بیگ نے اچھی فلمیں بنائیں، جنہوں نے اچھا بزنس کیا، جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستانی فلم بین آج بھی اچھی فلمیں دیکھنے کے خواہاں ہیں۔ آج رمضان المبارک میں فلمی اسٹوڈیوز ویران ہیں، کیوں کہ وہاں فلم بنانے کی سہولیات ہی دستیاب نہیں ہیں، جس کی وجہ سے فلمیں اب بنگلوں، ہوٹلوں اور آئوٹ ڈور بن رہی ہیں۔ آج کا دور ڈیجیٹل فلموں کا ہے، جس کے لیے جدید اسٹوڈیوز کی بھی ضرورت ہے، جو اب دستیاب نہیں ہیں۔ یہ سب ہم سب کے لیے لمحہ فکر ہے۔ اس کے باوجود نئی نسل کے ہدایت کار پاکستانی فلمی صنعت کے مستقبل سے مایوس نہیں ہیں۔ عیدالفطر پر 6فلموں کا اعلان کیا گیا ہے، ریلیز کتنی ہوتی ہیں، اس کا فیصلہ آئندہ چند روز میں ہوجائے گا۔