پاکستان ہی نہیں دنیا کے تمام جمہوری ممالک میں جیسے ہی عام انتخابات کا وقت قریب آتا ہے سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ، سیاسی رہنما اور کارکنان اپنی سیاسی وابستگیاں تبدیل کرکے اپنے گھونسلے بدلنے لگتے ہیں۔ پاکستان میں بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے کچھ ایسا ہی سلسلہ جاری ہے۔ پارٹی وابستگیاں تبدیل کرنے والے سیاسی رہنما اور کارکنان زیادہ تعداد میں جس پارٹی میں شمولیت اختیار کرتے ہیں تو سمجھا جانے لگتا ہے کہ وہ پارٹی آئندہ انتخابات میں اکثریت حاصل کرے گی اور اقتدار سنبھالے گی۔ یہ عمل کافی حد تک یہ بھی ثابت کردیتا ہے کہ اگلے چند برسوں کے دوران وہی پارٹی ایک بڑی سیاسی قوت ہوگی۔1988ء کے عام انتخابات سے قبل آئی جے آئی کے نام پر ایک بڑا سیاسی اتحاد قائم کیا گیا 9مختلف مذہبی و سیاسی جماعتوں پر مشتمل وہ واحد سیاسی اتحاد تھا جسے عام انتخابات میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی اور پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں مگر اس کے بعد جتنے الیکشن بھی آئے ان میں جس پارٹی کیلئے ماحول بنایا گیا وہی اقتدار پر براجمان ہوئی۔ 2013ء کے الیکشن میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال تھی اور الیکشن سے قبل ہی سب پر واضح ہوچکا تھا کہ مسلم لیگ (ن) اقتدار سنبھال لے گی ۔ تاہم2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف بھی ایک بڑی سیاسی قوت بن کر ابھری تھی اور ثابت کردیا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے بعد دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ 2008ء میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو ان کے 5سالہ دور کو انتہائی غیر مستحکم قرار دیا جاتا رہا۔ 2013ء کے انتخابات آنے تک پیپلز پارٹی کی حکومت اور ان کے وزراء پر کرپشن اور بدعنوانیوں کے الزامات تھے اور یہ چرچہ عام تھا کہ پیپلز پارٹی کے وزراء قومی خزانے کو نقصان پہنچا رہے ہیں، بدترین لوڈشیڈنگ کے ساتھ ساتھ بیڈ گورننس کا دور دورہ تھا، دہشت گردی سمیت ایسے بہت سے مسائل تھے جس پر پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں کوئی کام نہیں کیا گیا، اگرچہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر کرپشن کے الزامات ہیں اور نیب مختلف قسم کی تحقیقات میں مصروف بھی ہے مگر یہ الزامات بہت پرانے اور لیگی قیادت کی ذاتی جائیداد کے حوالہ سے ہیں۔ پنجاب میں بھی نیب جو کارروائیاں کررہا ہے ان کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ یہ تمام تر کارروائیاں متنازع ہیں۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) نے ان گنت ترقیاتی منصوبے شروع کیے۔ سی پیک کی صورت میں کھربوں کی غیر ملکی سرمایہ کاری، موٹرویز اور توانائی کے منصوبے بھی لیگی حکومت کا ایسا کارنامہ ہیں جن پر ابھی تک سیاسی مخالفین نے بھی انگلی نہیں اٹھائی۔ پاناما کیس منظر عام پر آنے سے پہلے یہ تاثر عام تھا کہ 2018ء میں بھی مسلم لیگ (ن) ہی اقتدارسنبھالنے میں کامیاب ہوگی مگر پاناما فیصلے کے بعد حالات یکسر تبدیل ہوتے چلے گئے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد مسلم لیگ (ن) کا شیرازہ بکھیرنے کیلئے کوششیں شروع کردی گئیںجس کا آغاز بلوچستان سے کیا گیا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے 50 سے زائد ممبرز قومی و صوبائی اسمبلی پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں اس صورتحال سے یہ تاثر بھی قائم ہورہا ہے کہ تحریک انصاف شاید اگلی حکومت بنائے گی۔
سابق صدر آصف علی زرداری بھی ’’گیم‘‘ کا حصہ ہیں لیکن شاید ’’وقت‘‘ اور ’’گیم‘‘ ان کے ہاتھ سے نکلتی جارہی ہے۔ ابتدائی طور پر ان کا اپنا یا ان کو ’’سونپا‘‘ گیا پلان یہ تھا کہ وہ اندرون سندھ سے بھرپور کامیابی حاصل کریں گے اورخود کو بڑے شہروں میں بھی بڑی سیاسی قوت ثابت کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ پنجاب کے حوالہ سے یہ منصوبہ تھا کہ آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے 30سے زائد اراکین کو پیپلز پارٹی میں شامل کرایا جائے گا، اس کے علاوہ خیبرپختونخوا اور فاٹا سے منتخب ہونے والے اراکین کو بھی ان کی پارٹی سے جوڑا جائے گالیکن تازہ ترین صورتحال کے مطابق خاص طور پر پنجاب اور بالعموم پاکستان بھر میں یہ حکمت عملی کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے تمام افراد نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی ہے کیونکہ زمینی حقائق نے جنوبی صوبہ محاذ کے اراکین پر واضح کردیا تھا کہ ان کا پی ٹی آئی میں جانا زیادہ سود مند ثابت ہوگا اگر وہ انفرادی طورپر اور آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیتے تو عین ممکن تھا کہ مسلم لیگ (ن) میدان مارنے میں کامیاب ہوجاتی مگر جنوبی صوبہ محاذ کے لوگ پی ٹی آئی میں چلے گئے ۔میری دانست میں اب پیپلز پارٹی کا مرکز میں حکومت بنانے کا امکان ختم ہوچکا ہے اور پنجاب میں ان کی دال گلنے والی نہیں، اس صورتحال کو بھانپتے ہوئے آصف علی زرداری نے اپنی تمام تر توجہ سندھ پر مرکوز کردی ہے اور چاہتے ہیں کہ سندھ کے شہری حلقوں سے نشستیں حاصل کرنے کے عمل کو یقینی بنائیں۔ پی ٹی آئی کو اس بات کا پختہ یقین ہے کہ وہ پنجاب، سندھ اور دیگر صوبوں میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی مگر رپورٹس اور حالات اشارہ کررہے ہیں کہ پی ٹی آئی کو خیبرپختونخوا میں بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکے گی۔ سب کچھ جانتے ہوئے بھی پی ٹی آئی کی تمام تر توجہ پنجاب پر ہے اس کا خیال ہے کہ پنجاب میں میدان مارلینے کی صورت میں مرکز میں اسکی حکومت قائم ہو جائے گی۔ پنجاب کے بیشتر لیگی اراکین پی ٹی آئی میں شامل ہوچکے ہیں جس سے پی ٹی آئی کی پوزیشن مضبوط ہوئی ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے مزید اراکین بھی پی ٹی آئی میں چلے جائیں ۔ اس صورتحال اور حقائق کی روشنی میں مسلم لیگ (ن) شدید دبائو اور کنفیوژن کا شکار ہے ۔ پارٹی کو میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے مختلف ’’بیانیوں‘‘ کے باعث بہت سے مسائل کا سامنا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اتنی کمزور نہیں کہ اسے کھیل سے باہر رکھا جاسکے۔ دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں کہ آئندہ کا منظر نامہ انتہائی غیر واضح اور بے یقینی کی کیفیت سے دوچار ہے اگر یہ سمجھ بھی لیا جائے کہ مسلم لیگ (ن) مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگی تب بھی وہ پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں 70 سے زائد نشستیں حاصل کرنے کی پوزیشن میں ضرور ہے ایسی صورت میں مسلم لیگ (ن)، کوئی بھی دو بڑی جماعتوں کو اتحاد کرکے حکومت بنا سکے گی۔
ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے، وہ کون سی دو بڑی جماعتیں ہوں گی جو اتحاد کرکے مرکز میں حکومت بناتی ہیں۔ آخر میں یہ بات کرنا چاہتا ہوں کہ اپنی زندگی میں اس قدر بے یقینی کا شکار الیکشن کبھی نہیں دیکھے کیونکہ پارٹی توڑنے والے بھی خوفزدہ ہیں اور متاثر ہونے والے تو پہلے ہی سے خوفزدہ ہیں ان حالات میں اس بات کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا کہ عوام کا موڈ بہت مختلف دکھائی دے رہا ہے۔ انتخابات میں شاید ایسے غیر یقینی نتائج بھی نکلیں جو سب کو حیران کردیں۔