• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرانس کے ڈرائیور پر مبنی ہالی وڈ کی فلم ’’دی ٹرین‘‘

  
فرانس کے ڈرائیور پر مبنی ہالی وڈ کی فلم ’’دی ٹرین‘‘

دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر جرمن فوج کو فرانس خالی کرنے کا حکم ملا تو جرمن کمانڈنٹ نے افسروں کو جمع کر کے کہا "ہم نازی جنگ ہار چُکےہیں، فرانس ہمارے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ یہ سچ ہے اور شاید اگلے 50 برسوں تک ہم کو دوبارہ فرانس میں داخلے کی اجازت بھی نہ ملے، اس لیے میرا حکم ہے کہ پیرس کے عجائب گھروں ، نوادرات سے بھرے نمائش گھروں اور ثقافت سے مالا مال ہنر کدوں سے جو کچھ سمیٹ سکتے ہو سمیٹ لو، جب فرانسیسی اس شہر کا اقتدار سنبھالیں تو انہیں جلے ہوئے پیرس کے علاہ کچھ نہ ملے"۔

جنرل کا حکم تھا، سب افسر عجائب گھروں پر ٹوٹ پڑے اور اربوں ڈالرز کے نوادرات اُٹھا لائے، اُن میں ڈوئچی کی مونا لیزا بھی تھی ، وین گوہ کی تصویریں ، وینس ڈی ملو کا مرمریں مجسمہ، غرض کہ کچھ نہ چھوڑا ۔ جب عجائب گھر خالی ہو گئے تو جنرل نے سب نوادرات ایک ٹرین پر رکھے اور ٹرین کو جرمنی لے جانے کا حکم دیا۔

ٹریں روانہ تو ہوئی لیکن شہر سے باہر نکلتے ہی اس کا انجن خراب ہو گیا۔ انجئنیر آئے انجن ٹھیک کیا ، ٹرین پھر روانہ ہوئی لیکن 10 کلومیٹر طے کرنے کے بعد اس کے پہیے جام ہو گئے۔ انجئنیر آئے مسئلہ ٹھیک کیا اور ٹرین پھر روانہ ہو گئی لیکن چند کلومیٹر بعد بوائلر پھٹ گیا، انجئنیر آئے بوائلر مرمت ہوا اور ٹرین پھر چل پڑی ، ابھی تھوڑی دورہی گئی تھی کہ پریشیر بنانے والے پسٹن جواب دے گئے۔انجئنیر آئے پسٹن مرمت ہوئے اور پھر ٹرین روانہ ہوئی ۔ٹرین خراب ہوتی رہی اور جرمن انجئنیر اسے ٹھیک کرتے رہے یہاں تک کہ فرانس کا اقتدار فرانسیسیوں نے سنبھال لیا اور ٹرین ابھی فرانس کی حدود میں ہی تھی۔

ٹرین کے ڈرائیور کو پیغام ملا کہ " موسیو بہت شکریہ، پر اب ٹرین جرمنی نہیں واپس پیرس آئے گی" ۔ ڈرائیور نے مکاہوا میں لہرایا اور واپس پیرس روانہ ہو گیا ، جب وہ پیرس پہینچا تو فرانس کی ساری لیڈرشپ اس کے استقبال کے لیے کھڑی تھی ، ڈرائیور پر گُل پاشی کی گئی پھر اس کےہاتھ میں مائیک دے دیا گیا ، ڈرائیور بولا " جرمن گدھوں نے نوادرات تو ٹرین میں بھر دیئے لیکن یہ بھول گئے کہ ڈرائیور فرانسیسی ہے اور اگر ڈرائیور نہ چاہے تو گاڑی کبھی منزل پر نہیں پہنچ سکتی"۔ ایک عرصے بعد ہالی وڈ نے اس ڈرائیور پر "دی ٹرین" فلم بنائی تھی۔

اگر اپنے ملک کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بھی "دی ٹرین" کی سٹوری سے کم نہیں ، کبھی انجن فیل ہو جاتاہےتو کبھی پہیہ جام ، کبھی پسٹن پھٹ جاتا ہے تو کبھی بوائلر ۔ پہلے دن سے اب تک بحران ہی بحران ہے۔ اس ٹرین کا ڈرائیور اصل میں اس کو منزل تک نہیں پہنچنے دے رہا - ہم سب کو مل کر اس ڈرائیور کو ڈھونڈنا هہے، اس کے لیے پشتون، بلوچی ،سندھی ،پنجابی کا رنگ اتار کر پاکستانی بننا ہوگا .

پاکستانی بن جائیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے

اللہ اس ارض پاک کو ہمیشہ آباد و خوشحال رکھے ، آمین ۔

(انتخاب :حمزہ جاوید)      

تازہ ترین