بنی گالا سے وزیراعظم ہائوس کا فاصلہ 12کلو میٹر ہے۔ بظاہر یہ فاصلہ اگر آپ گاڑی میں جائیں تو 10 سے 12 منٹ کا ہے لیکن وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھنے کیلئے کٹھن اور دشوار گزار مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور ان کی جماعت کیلئے 2018 کے عام انتخابات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں عمران خان سمیت پوری پارٹی کو یقین ہے کہ وہ انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوں گے۔ کپتان کی باڈی لینگوئج بتارہی ہے کہ وہ یہ 12 کلو میٹر کا فاصلہ پلک جھپکتے ہی طے کرلیں گے۔ عمران خان کو انکی پارٹی کے اہم عہدیداران اور دوسری بہت ساری قوتیں جو ایک طویل عرصہ سے انتخابات پر اثر انداز ہوتی آرہی ہیں انکو بھی لگتا ہے کہ عمران خان یہ فاصلہ باآسانی طے کرسکتے ہیں مگر اس اہم موڑ پر صحیح فیصلے کرنا ہوں گے۔ کپتان کو قوی یقین ہے کہ اگست میں وہ وزیراعظم پاکستان ہوں گے لیکن کیسے ہوں گے یہ شاید انہیں بھی علم نہیں۔ سیاست کی بساط پر تمام سیاسی جماعتیں اور غیر سیاسی قوتیں اپنی چالیں چل رہے ہیں، حکومت بنانے کیلئے 342کے ایوان میں 172ممبر قومی اسمبلی چاہئیں۔ اب ذرا جائزہ لیتے ہیں کہ عمران خان یہ 12 کلو میٹر کا فاصلہ کیسے طے کریں گے۔ بلاشبہ تحریک انصاف خیبرپختونخوا کی ایک بار پھر سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھرے گی لیکن وہاں کے سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ شاید اس مرتبہ تحریک انصاف پہلے کی نسبت 8سے 10نشستیں کم حاصل کرے گی جبکہ ایم ایم اے سمیت دیگر سیاسی جماعتیں یہ نشستیں کپتان سے چھیننے میں کامیاب ہوں گی۔ سندھ میں تحریک انصاف کو مشکلات کا سامنا ہے اندرون سندھ سے اگر تحریک انصاف نے کوئی نشست حاصل کرلی تو یہ کسی معجزے سے کم نہیںہوگا۔ کراچی کی غیر یقینی صورتحال میں کچھ بھی کہنا انتہائی مشکل ہے بہرحال کراچی سے بھی تحریک انصاف توقع کے مطابق شاید نشستیں حاصل نہ کرسکے اور 2سے 3 نشستیں ہی تحریک انصاف کے حصے میں آئیں۔ بلوچستان کی صورتحال انتہائی مختلف ہے اگرچہ تحریک انصاف وہاں سے نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے لیکن نئی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی عمران خان کو وزیراعظم ہائوس تک پہنچانے کیلئے ایندھن ضرور فراہم کرسکتی ہے۔ اب بات کرلیتے ہیں آخری اور سب سے بڑے معرکے کی۔ اس معرکے کی کامیابی ہی وزیراعظم ہائوس تک پہنچنے کی کنجی ہے ۔ پنجاب میں بلاشبہ تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ یہ پہلا موقع ہوگا کہ مسلم لیگ (ن) اپنے پارٹی قائد کے نئے موقف اور نئے بیانیہ کے ساتھ میدان میں اترے گی جبکہ تحریک انصاف کو بہت سی قوتوں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ پنجاب کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ ہمیشہ اس کا ساتھ دیتا ہے جس کا ساتھ کچھ مخصوص قوتیں دے رہی ہوں مگر یہ پہلا موقع ہے کہ پنجاب کی صورتحال انتہائی غیر واضح ہے اس صورتحال میں حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن)، وزیراعظم ہائوس سے 12کلو میٹر دور سیاسی جماعت کے قائد عمران خان اور نہ کچھ قوتیں یہ حتمی طور پر نہیں کہہ سکتیں کہ معرکہ پنجاب کون سر کرے گا اگرچہ فضا یہ قائم ہوچکی ہے کہ تحریک انصاف آئندہ عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرے گی اور عمران خان متوقع وزیراعظم ہوں گے۔ کپتان کو کہا گیا تھا کہ الیکشن کچھ ماہ کیلئے اگر موخر ہوجائیں تو ان کیلئے بہترہوگا کیونکہ جنہوں نے شطرنج کی یہ بساط بچھائی تھی ان کا پلان اے مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوسکا جو یہ تھا کہ نواز شریف کے نااہل ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) کا وجود قائم رہنا مشکل ہوگا اور اس کا شیرازہ بکھر جائے گا لیکن حیران کن حد تک مسلم لیگ (ن) میں سے آدھے لوگ بھی پارٹی کو چھوڑ کر نہیں گئے جن کی توقع کی جارہی تھی اسلئے پلان بی یہ تھا کہ انتخابات کو کچھ دیر کیلئے موخر کیا جائے اور نواز شریف کو احتساب عدالت سے ہونیوالی سزا تک کا انتظار کیا جائے ۔ کپتان یہ رسک اٹھانے کیلئے تیار نہیں تھے عمران خان اور ان کی ٹیم کا خیال تھا کہ نوا ز شریف کو سزا ملنے کی صورت میں ہمدردی کا ووٹ مل سکتا ہے لہٰذا انتخابات بروقت ہی ہوں تو بہتر ہوگا۔ میرے تحریک انصاف کے سینئر اور اہم کارکنوںسے رابطے رہتے ہیں بلاشبہ انہیں یقین تو ہے کہ ان کی جماعت آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے جارہی ہے لیکن پنجاب میں وہ کیسے کامیابی حاصل کریں گے اس کا جواب انکے پاس بھی نہیں ہے۔ پنجاب کی صورتحال کے بارے میں تبصرہ کرنا آسان نہیں رہا اگر پی ٹی آئی نے حکومت بنانی ہے اور عمران خان نے 12 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا ہے تو ان کو پنجاب سے 70 کے قریب قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کرنا ضروری ہوگا ورنہ ان کو پیپلز پارٹی کا سہارا لینا پڑے گا۔تحریک انصاف پنجاب سے کم از کم 70نشستیں نکالنے کے بعد خیبرپختونخوا اور سندھ کی نشستیں ملا کر 100کا ہندسہ پار کرسکتی ہے جسکے بعدتحریک انصاف کچھ آزاد اور چھوٹی جماعتوں کو ملا کر حکومت بنا نے کی پوزیشن میں آسکتی ہے اور اگر عمران خان نے اس سے کم تعداد میں نشستیں حاصل کیں تو پھر ساری سیاسی گیم زرداری صاحب کے ہاتھ میں چلی جائے گی لیکن ابھی تک کے سروے اور تجزیوں کے مطابق پنجاب سے مسلم لیگ (ن) ہی سنگل لارجسٹ پارٹی بن کر ابھرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے اگر واقعی ایسا ہوتا ہے تو آئندہ کا سیاسی منظر نامہ بالکل حیران کن ہوگا پھر ویسی ہی صورتحال ہو جائے گی جیسی سینیٹ کے انتخابات کے وقت ہوئی تھی اور ویسا ہی کوئی فارمولا بنایا جائے گا۔ بہرحال تحریک انصاف کو یہ قوی یقین ہے کہ وہ پنجاب سے 80سے زائد نشستوں پر
کامیابی حاصل کرلے گی اور آسانی سے حکومت بنالے گی۔ شہباز شریف کو انکی ٹیم کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ پنجاب کے عوام کا موڈ بدلا سا نظر آرہا ہے بہرحال 2018کے انتخابات انتہائی دلچسپ ہونے جارہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کپتان 12کلو میٹر کا فاصلہ کیسے طے کرتے ہیں اگرچہ اس مقصد کیلئے انکو اچھا ڈرائیور، بہترین گاڑی اور مطلوبہ ایندھن فراہم کردیاگیا ہے۔