پاکستانی فلمی صنعت میں ’’ہارر‘‘ موضوعات پر بہت کم طبع آزمائی کی گئی ہے،حالاں کہ ہر دور کے فلم بینوں کی یہ خواہش اور ڈیمانڈ رہی ہے کہ ڈرائونے موضوعات کی خاص فلمیں بھی بنائی جائیں، لیکن فلم میکرز کی اکثریت کیا بلکہ 99 فی صد سے بھی زیادہ فلم میکرز نے کبھی ڈرائونی فلم بنانے کا تصور تک نہیں کیا۔ پڑوسی ملک بھی ’’ہارر‘‘ فلموں کی تخلیق میں تسلسل سے کام کررہا ہے۔70 کی دہائی میں ایک بہت نمایاں کاسٹ کے ساتھ وہاں ’’جانی دشمن‘‘ نامی دل چسپ میوزیکل ’’ہارر‘‘ فلم بنائی گئی، جس میں بہترین سوشل رومینٹک کہانی میں خوف و دہشت سے بھرا ٹریک بڑی عمدگی کے ساتھ فلم کا حصہ بنایا گیا۔ یہی نہیں بھارت میں گزشتہ 4,3دھائیوں میں تسلسل کے ساتھ ہارر‘‘ موضوعات پر کام کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان میں ’’ہارر‘‘ سبجیکٹس پر گزشتہ 70 برسوں میں بمشکل تمام 12,10 فلمیں بنائی گئی ہیں۔ ان میں مکمل ہارر 4 یا 5 ہی ہوں گی۔ پاکستان میں سب سے پہلے ہدایت کار ظہور نے ایک فکشن ہارر سبجیکٹ 1964ء میں ’’دیوانہ‘‘ کے ٹائیٹل پر بناکر پیش کیا۔ کم وسائل کے باوجود یہ ایک نہایت دل چسپ مضبوط اور معیاری فلم ثابت ہوئی، جسے ظہور راجا نے بڑی محنت سے شوٹ کیا۔ یہ ایک پروفیسر کی کہانی تھی، جو ایک شیشے کی باکس مشین کی مدد سے خود کو غیر مرئی وجود میں تبدیل کر کے ہر اس حسین لڑکی کو قتل کردیتا ہے کہ جس کے رخسار پر تل ہو۔ 1967ء میں خواجہ سرفراز نے ’’زندہ لاش‘‘ کے عنوان سے ایک بھرپور ہارر ڈریکولا فلم تخلیق کی۔ اسکرپٹ، ڈائریکشن کردار نگاری اور فوٹو گرافی کے ضمن میں یہ فلم بہت آئوٹ اسٹینڈنگ ہارر کی حامل تھی۔ ’’ریحان‘‘ نے پروفیسر تابانی المعروف ’’زندہ لاش‘‘ کے رول کو کمال فن کے ساتھ نبھا کر امر کردیا تھا۔ بلاشبہ ڈائریکٹر خواجہ سرفراز نے فلم کے ایک ایک فریم کو کسی ہالی وڈ ہارر فلم کے انداز میں کیمرے میں محفوظ کیا۔ ’’ہارر‘‘ فلم میں سب سے ہم کہانی کیمرہ بیان کرتا ہے اور ’’زندہ لاش‘‘ کا کیمرہ تین عدد مشاق فوٹو گرافرز کی دسترس میں زندہ لاش کے ایک ایک منظر چابکدستی اور مہارت سے بیان کرنے میں پوری طرح کام یاب رہا، کیوں کہ اس کے پشت پر نبی احمد، رضا میر اور ارشاد احمد جیسے نام موجود تھے۔ ان ڈور مناظر میں لائٹنگ کا معیار بھی شان دار تھا۔ پاکستانی ہارر فلمز میں ’’زندہ لاش‘‘ کی حیثیت و اہمیت ایک لینڈ مارک کی سی ہے۔ 1970ء میں ایس اے عزیز نے ’’ڈاکٹر شیطان‘‘ کےلیے ہارر کہانی کا انتخاب کیا، لیکن یہ فلم کمزور ٹریٹمنٹ کے سبب عوام کو قطعاً اپنی جانب متوجہ نہ کرسکی۔ پھر ایک طویل وقفے کے بعد 1994ء میں سعید رضوی نے ’’سرکٹا انسان‘‘ کے ٹائیٹل پر ایک ہارر فلم تخلیق کی ،جس کا مرکزی خیال مکمل طور پر ہارر ہونے کے باوجود میوزک، نغمات، رومانس یعنی، تمام تفریحی اجزاء خوب صورتی اور مہارت سے فلم میں سمو دیے گئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ فلم کو ہر خاص و عام نے توجہ اور دل چسپی سے دیکھا اور اس فلم نے باکس آفس پر پاکستانی تاریخ کی سب سے زیادہ کام یاب ’’ہارر‘‘ فلم کا اعزاز حاصل کیا۔
2007ء میں ٹی وی انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی ایک ٹیم نے ’’ذبحہ خانہ‘‘ کے عنوان سے ایک مکمل ’’ہارر‘‘ مووی تیار کی۔ اس فلم میں پے در پے ’’ہارر‘‘ مناظر کی بھرمار تھی۔ ’’ذبحہ خانہ‘‘ ایک بھرپور ہارر فلم تھی، لیکن اس کا کیمرہ ورک اور میکنگ بڑی حد تک ٹیلی فلم کے انداز کی حامل تھی۔ اس فلم کو عمران خان ڈائریکٹ کیا تھا۔ 2013ء میں اظفر جعفری نے ’’سیاہ‘‘ کے ٹائٹل سے ایک سائیکو ہارر‘‘‘ فلم تخلق کی، دل چسپی اور میکنگ کے اعتبار سے یہ ایک معقول فلم تھی، لیکن اس کا مزاج بھی ٹیلی فلموں جیسا ہی تھا۔ حریم فاروق نے ایک ایسی نفسیاتی لڑکی کا رول پلے کیا تھا کہ جو خوف ناک تصورات کو اپنے ذہن میں پالتی ہے اور پھر اپنے اردگرد عملاً ان کی تمثیل بھی دیکھتی اور محسوس کرتی ہے، حالاں کہ حقیقتاً ان باتوں کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ سیاہ باکس آفس پر اچھے نتائج نہ ہوسکی۔ 2016ء میں ہدایت کار خالد حسن خان نے سائیکو ہارر فلم ’’ہوٹل‘‘ کے ٹائٹل پر تخلیق کی۔ باوجود اس کے کہ فلم میں مرکزی ہیروئین ’’میرا‘‘ تھیں، لیکن اس فلم کو بھی باکس آفس پر بدترین ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ 2016ء میں ہدایت کار عمران مبین نے ’’عکس بند‘‘ کے عنوان سے ایک فل ہارر فلم بنائی، لیکن عوام نے اسے بھی مسترد کردیا۔ اس سلسلے کی آخری فلم ہدایت کار سید عاطف علی کی ’’پری‘‘ہے جو نمائش کے لیے پیش کی گئی ہے اور بلاشبہ اسکرپٹ، کردار نگاری، ڈائریکشن اور فوٹو گرافی کے اعتبار سے ایک متاثر کن اور معیاری تخلیق ہے گو کہ ڈائریکٹر نے فلم میں میوزک اسکور بھی 5,4گیتوں اور بہترین پس منظر موسیقی سے سجایا ہے، لیکن تمام گیتوں کو محض پس پردہ آواز کی صورت پیش کر کے وہی ٹی وی ڈرامہ مینٹلیٹی کو فالو کیا ہے۔ فلم میں پری کے کردار پر مزید محنت کی ضرورت تھی۔ قوی خان، سلیم معراج نے بہترین کردار نگاری پیش کی ہے۔ فلم کا پہلا ہاف کچھ سلو تھا، لیکن دوسرا ہاف بے حد دلچسپ مضبوط اور فاسٹ تھا۔ بہر طور یہ ایک قابل دید اور قابل تعریف ہارر فلم ہے۔ جس میں ہارر مناظر پڑی محنت اور مہارت سے پیش کیے گئے۔ عاطف علی کا لائق تحسین اقدام یہ ہے کہ فلم کو خواجہ سرفراز سے منسوب کیا ہے۔ ہمارے ملک میں بننے والی مشکل تمام درجن بھر ’’ہارر‘‘ فلموں میں اپنے فرسٹ لائن میں قابل ذکر اور بھرپور کام یابی پری اور سرکٹ انسان نے حاصل کی۔ جب کہ تیکنکی اعتبار سے ’’زندہ لاش‘‘ کی ایک غیر معمولی فلم گردانا گیا۔ تاہم دیگر بیشتر ہارر فلموں کی باکس آفس ناکامی اس بات کا اشارہ کرتی ہے کہ ’’ہارر فلم‘‘ کو خشک انداز میں پیش کرنے کے بجائے۔ دیگر تفریحی مسالوں مثلاً میوزک، رومانس، مزاج وغیرہ کی آمیزش کے ساتھ پیش کرنا ہوگا۔ تاکہ ہر خاص و عوام اس قبیل کی فلموں کی جانب متوجہ ہوسکیں۔