پروفیسر خالد اقبال جیلانی
رمضان المبارک کے اس آخری عشرے میں ہم بہ حیثیت امت جشن نزول قرآن منا رہے ہیں، یہ تیاریاں، یہ خوشیاں ،یہ جشن آخر کس لیے ؟ اس لیے کہ اب سے تقریباً ڈیڑھ ہزار سال پہلے رمضان کے آخری عشرے کی ایک رات جسے ہم ’’شب قدر‘‘ یعنی قدرو منزلت ،عظمت و برکت ،رحمت و مغفرت والی ’’رات‘‘ کہتے ہیں، اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول، رحمت عالم حضرت محمد ﷺ پر اپنی آخری کتاب ہدایت قرآن کریم کو نازل کیا اور اس کے بعد زمین پر انسانوں کے لیے الہامی ہدایت ورہنمائی کا باب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا ۔ذرا سوچیے !جشن نزول قرآن مناتے ہوئے ہم نے کبھی اس بات پر بھی غور کیا کہ تاریخ عالم کا یہ عظیم الشان ،دنیا کو سب سے زیادہ متاثر کرنے اور انسانیت پر انمٹ نقوش مرتب کرنے والا واقعہ آخر کیوں وقوع پذیر ہوا ؟ آخر یہ کتاب ہدایت،رہتی دنیا تک باقی رہنے والا یہ قانون خداوندی تاریخ انسانی اور دنیا کے سب سے عظیم و برتر انسان پر کس لیے نازل ہوا تھا ؟خالق کائنات کا قرآن کو نازل کرنے کا مقصد بہت ارفع و اعلیٰ ہے۔اسی مقصد کے لیے کائنات تخلیق کی گئی،اسی مقصد کی خاطر انسان کو پیدا کیا گیا اور اسے اشرف المخلوقات کی خلعت پہنا کر خلافت الٰہی کی دستار فضیلت سے سرفراز و مشرف کیا گیا،اسی مقصد کے حصول کے لیے انبیائے کرامؑ کو دنیا میں بھیجا گیا اور اسی مقصد کی تکمیل کے لیے فخر انسانیت، امام الانبیاءﷺ کو آخری نبی اور رسول بنا کر مبعوث کیا گیا۔ اگر ہم نزول قرآن سے قبل کی دنیا کا جائزہ لیں تو نقشہ کچھ یوں ابھرتا ہے اور تصویر کچھ ایسی نظر آتی ہے کہ نزول قرآن کے وقت دنیا میں ہر طرف گمراہی،ظلم، جہالت ، شرک و بت پرستی، وحشت وبربریت کی تاریکی کا گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ انسان اس ظلمت اور تاریکی میں بھٹک رہا تھا کہ اسے اس تاریکی میں ’’ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا ‘‘ کے مصداق اس ظلمت و جہالت سے نجات کی کوئی راہ نظر نہ آتی تھی۔ ہدایت و فلاح کی کوئی تدبیر سجھائی نہ دیتی تھی۔ اس ماحول میں رمضان کے مبارک مہینے کی ایک رات میں ( رات کا وقت اس لیے کہ ساری دنیا جہالت کی تاریکیوں میں لپٹی ہوئی تھی) طلوع سحر کی منتظر یہ رات تاریخ عالم میں عدیم النظیر اور فقید المثال تھی۔یہ حد فاصل تھی، دنیائے قدیم اور جہان نو میں۔اس رات ضمیر کائنات نے ایک نئی کروٹ لی جس سے زندگی جو اپنے مقام سے بے خبر چلی آ رہی تھی، خود نگر وخود شناس ہو گئی۔ تمام نظام ہائے کہن جو غیر فطری بنیادوں پر استوار تھے،باطل قرار پا گئے اور دنیا کو ایک نیا آئین حیات عطا ہوا۔جس میں تکمیل شرف انسانیت کی تمام راہیں واضح طور پر سامنے آ گئیں۔انسان کو حق و باطل کی تمیز کے صحیح پیمانے عطا ہوئے،اس لیے اس رات کو ’’ لیلۃ القدر ‘‘یعنی قدرومنزلت کی رات کہہ کر پکارا گیا۔ جس میں حق و باطل نکھر کر الگ الگ ہو گئے۔ ظلمت چھٹ گئی،نورپھیل گیا اور انسانیت کو قرآن کی شکل میں قیامت تک کی زندگی کے لیے دستور حیات ہاتھ آگیا۔یہ تھا وہ ماحول جس میں قرآن کا نزول ہوا،یہ ماحول خود بتا رہا ہے کہ قرآن کے نازل کرنے کا مقصد کیا تھا۔ یہ ماحول فطرت سے اس بات کا تقاضا کر رہا تھا کہ انسانیت جاں بلب ہے، کم زور و مظلوم انسانوں کو اپنے ہی جیسے انسانوں نے اپنا غلام اور محکوم بنایا ہوا ہے۔انسانیت چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ کوئی ہے جو انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلائے۔انسانوں کے خالق و مالک نے انسانیت کی یہ پکار اور فریاد سن لی اور ایک ایسا قانون و آئین اور دستور حیات نازل کر دیا کہ جو انسانیت کو ظلم، جہالت، بت پرستی غلامی اور انسانی محکومی کی ظلمت اور اندھیروں سے نکال کر نور اور آزادی کی روشنی میں لے آیا اور یہ اعلان عام کر دیا کہ اس قرآن کے نازل ہونے کے بعد کسی انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے ہی جیسے انسانوں کو اپنا غلام بنائے۔نزول قرآن کے بعد خالق و مالک نے یہ واشگاف اعلان اور اٹل فیصلہ فرما دیا:’’جو لوگ اپنی زندگیوں کے معاملات کے فیصلے اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق نہیں کرتے وہی لوگ تو کافر ہیں‘‘ (سورۃ المائدہ) پھر صرف اتنا ہی نہیں کہ غیر خداوندی قانون کے مطابق فیصلے کرنے والے لوگ کافر ہیں بلکہ ’’یہی لوگ ظالم بھی ہیں ‘‘۔ ایسے ہی لوگ درحقیقت ’’فاسق بھی ہیں‘‘ (سورۃ المائدہ)
معلوم ہوا کہ جو لوگ کتاب خداوندی کے مطابق اپنے معاملات زندگی نہیں نمٹاتے ،اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کے قضیوں کو قرآن کے مطابق حل نہیں کرتے انہی کو کافر ،فاسق اور ظالم کہا جاتا ہے۔ جو کفر کی ظلمتوں میں بھٹکتے رہتے ہیں، جو غیر خداوندی قانون کے فیصلوں کے باعث فسق اور ظلم کی تاریکیوں سے باہرنہیں آ پاتے۔ حالاںکہ یہ قرآن تو بنی نوع انسان کے نجات دہندہ اور محسن انسانیت ﷺ پر نازل ہی اس لیے کیا گیا تھاکہ (اے نبی ﷺ) یہ ایک کتاب ہے جسے ہم نے تمہاری طرف نازل کیا، تاکہ تم بنی نوع انسان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئو ‘‘(سورۂ ابراہیم)
اسی لیے فرمایا گیا:’’ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میںنازل کیا ہے اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے۔شب قدرہزار مہینوں سے بہتر ہے ‘‘ فرشتے اور روح الامین حضرت جبرائیلؑ اس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں۔ وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک۔‘‘یعنی اللہ نے قرآن کو اس وقت جب کہ ساری دنیا آسمانی ہدایت اور نور سے محروم ہو کر تیرہ و تاریک ہو چکی تھی ،نئی اقدار اور نئے پیمانے دے کر نازل کیا جس رات کو اس کے نزول کا آغاز ہوا وہ رات ایک جہان نو کے نمودار ہونے کی رات تھی۔ یہ قدرو منزلت اور نئے پیمانوں کی رات جس میں اس کتاب کا نزول ہوا کس قدر باعظمت تھی۔سچی بات یہ ہے کہ دنیا نے اس رات کی عظمت کو پہچانا ہی نہیں۔ اس لیے وہ ابھی تک تاریکیوں کے جہنم میں ڈوبی ہوئی ہے اور ہزار ہاتھ پائوں مارنے کے باوجود زندگی کے صحیح راستے پر گامزن نہیں ہو سکی۔جس دن یہ حقیقت اس کی سمجھ میں آ گئی کہ کائنات کی شب دیجور کی تاریکی اس مہر عالم تاب کی ضوفشانیوں سے ہی دور ہو سکتی ہے۔جو اس لیلۃ القدر کی صبح نمودار ہوا تھا۔ منزل انسانیت کی سیدھی راہ( صراطِ مستقیم) کے سامنے آ جائے گی۔