کسی بھی عظیم شخصیت کے بارےمیں یہ کہنا کہ وہ ایک متنازع شخصیت تھے ایک احمقانہ سا بیان معلوم ہوتا ہے، مگر ایسے بیان تقریباً تمام بڑی شخصیات کے بارے میں دیئے جاتے رہے ہیں۔ رسول بخش پلیجو نہ صرف سندھ بلکہ پورے پاکستان کی ایک عظیم شخصیت تھے اور ان کی عظمت ان کی متنازع شخصیت میں پوشیدہ تھی۔ متنازع اس لئے کہ وہ تقریباً پوری زندگی ہی اس ملک کے بالا دست طبقوں کے ساتھ سندھیوں کے حقوق کے لیے لڑتے رہے۔
رسول بخش پلیجو بائیں بازو کے ا یک مارکسی دانش ور تھے ، انہوں نے تحریروں کا ایک بڑا ذخیرہ چھوڑا ہے ،جن میں سے اکثر کو جامی چانڈیو نے بڑے اہتمام سے شائع بھی کیا ۔ ایک دانش ور اور مصنف ہونےکے علاوہ پلیجو صاحب انسانی حقوق کے علم بردار اور عوامی تحریک کے رہنما بھی تھے۔ عوامی تحریک جس کا پہلا نام ’’سندھی عوامی تحریک‘‘ تھا ،تقریباً نصف صدی قبل1970میں قائم کی گئی تھی۔ اس تحریک کا نصب العین کمیونزم اور مارکسزم ہی رہا۔رسول بخش پلیجو کا سوشلزم ایک قوم پرست سوشلزم تھا ، وہ ترقی پسند اور سکیولر سیاست کو ہی درست سیاست سمجھتے تھے۔اس کے علاوہ ان کا ایک اور محور سندھ سے جاگیردارانہ یا فیوڈل سیاست کا خاتمہ بھی تھا، جس کے لیے،وہ مسلسل جدوجہد کرتے رہے۔ اس لئے نہ وہ کبھی پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور نہ ہی کبھی نواز لیگ کے ساتھ لڑ سکے،ساتھ ہی جمہوریت سے پلیجو صاحب کی وابستگی آخر تک رہی ۔
رسول بخش پلیجو1930میں ضلع ٹھٹھہ کے گائوں’’ منگر خان پلیجو‘‘ میں پیدا ہوئے ، اپنی ابتدائی تعلیم گائوں میں ہی حاصل کی ،ثانوی تعلیم کے لیےکراچی آگئے، جہاں انہوں نے سندھ مدرستہ الاسلام میں داخلہ لیابعد ازاں انہوں نے کراچی کے سندھ لا ءکالج سے قانون کی سند حاصل کی۔پلیجو صاحب کی شخصیت کی ایک خاصیت یہ بھی تھی کہ تقریباً تمام بڑے دانش وروں کی طرح انہیں بھی زبانوں سے بے حد لگائو تھا ، وہ کسی بھی زبان کی طرف کوئی معاندانہ رویہ نہیں رکھتے تھے ،انتہائی کم عمری میں ہی انہوں نے سندھی اور اُردو کے علاوہ بلوچی، پنجابی، اورسرائیکی زبانوںپر عبور حاصل کر لیا تھا۔ وہ عربی اور فارسی میں نہ صرف گفت و شنید کر لیتے تھے بلکہ وہ ان زبانوں کے علم و ادب سے بھی بہ خوبی آگاہ تھے۔ شعر و شاعری سے ان کے شغف کا یہ عالم تھا ،کہ وہ اپنی مادری زبان سندھی کے شعرا کے کلام کے علاوہ دیگر زبانوں کی شاعری بھی بڑی روانی سے سنایا کرتے تھے۔مثلاً اردو کے تقریباً تمام بڑے شعرا کا کلام انہیں بڑی حد تک یاد تھا۔ میرو غالب سے لے کر جوش اقبال اور فیض تک کے انہیں سیکڑوں اشعار ،غزلیں اور نظمیں یاد تھے، جن لوگوں نے ان کے ساتھ جیلوں میں وقت گزارا وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ جب پلیجو صاحب ترنگ میں آتے تھے ،تو پوری ، پوری شام شعر و شاعری سے زنداں کے ماحول کو خوش گوار بنائے رکھتے تھےگوکہ اس طرح کے ضمیر کے قیدی جیل میں بڑی بری حالت میں رکھے جاتے تھے ،لیکن پلیجو صاحب نے جیل کی زندگی کو بھی خوب برتا۔
بہ حیثیت ایک وکیل رسول بخش پلیجو قانون کی پیچیدگیوں کو خوب جانتے تھے اور سپریم کورٹ کے وکیل بھی بنے۔ اپنی سیاسی سرگرمیوں کی پاداش میں انہوں نے اپنی زندگی کے گیارہ سال جیل میں گزارے۔خاص طور پر 1980کے عشرے کے دوران جنرل ضیاء الحق کےدور میں رسول بخش پلیجو بڑا عرصہ جیل میں رہے۔
تحریک بحالی جمہوریت کا پاکستان کی سیاست میں بڑا کردار رہا ہے، اس تحریک نے 1981سے1988تک ملک میں جمہوریت کی بحالی کی جدوجدہد کی، گو کہ اس میں سب سے بڑی جماعت پیپلز پارٹی تھی، لیکن اس میں بائیں بازو کے رہنمائوں مثلاً رسول بخش پلیجو، فاضل راہو، جام ساقی ، اور خان عبدالولی خان وغیرہ نے اہم کردار ادا کیا تھا۔یاد رہے کہ وہ دور عوام پر سخت ترین جبر کا دور تھا۔ملک میں جمہوری قوت نہیں پنپ رہی تھی۔
پیپلز پارٹی کے علاوہ سندھ میں یہ بائیں بازو کے رہنما مثلاً رسول بخش پلیجو ،فاضل راہو، اور جام ساقی ہی تھے ،جنہوں نے جمہوریت کا علم بلند رکھا اور جیلوں کی صعوبتیں برداشت کیں ،مگر افسوس یہ تحریک بحالی جمہوریت سندھ کے ریگزاروں سے آگے نہ بڑھ سکی اور پاکستان کے دیگر صوبے تو کجا سندھ کے شہروں مثلاً کراچی اور حیدر آباد کے لوگ بھی اس سے لاتعلق رہے۔
ایم کیو ایم کے خلاف رسول بخش پلیجو کے واضح اور دو ٹوک موقف سے بعض لوگوں نے یہ مطلب نکالا کہ پلیجو صاحب مہاجروں یا اردو زبان کے خلاف ہیں حالاں کہ ان جیسا سیکولر اور متعدد زبانوں پر عبور رکھنے والا شخص کسی سیاسی جماعت یا نظریئے کے خلاف تو ہو سکتا تھا، لیکن یہ کہنا کہ بحیثیت مجموعی وہ کسی قوم یا قومیت کے خلاف تھے درست نہیں،البتہ یہ ضرور ہے کہ وہ قوم یا قومیت کے بارے میں خود اپنی ایک تعریف رکھتے تھے اوروہ چاہتے تھے کہ لوگ خود کو سندھی سمجھیں اور کہیں اور اس کے لئے سندھی زبان سیکھیں ۔
عوامی تحریک اور تحریک بحالی جمہوریت کے علاوہ رسول بخش پلیجو نے جن تحریکوں میں حصہ لیا ان میں عوامی نیشنل پارٹی، سندھ متحدہ محاذ، سندھ قومی اتحاد، بزم صوفیائے سندھ پونم (PONM) شامل ہے۔ جس میں سندھ ترقی پسند پارٹی، عوامی پارٹی اور سرائیکی موومنٹ وغیرہ شامل تھے۔ پونم میں پلیجو صاحب نے عطاء اللہ مینگل ،محمود خان اچکزئی ،ڈاکٹر قادر مگسی اور سید جلال محمود شاہ وغیرہ کے ساتھ مل کر کام کیا۔
ان کے علاوہ رسول بخش پلیجو سندھی ادبی سنگت میں بھی سرگرمی سے حصہ لیتے رہے۔ سندھی ادبی سنگت نے نواز الدین سرکی وغیرہ کی قیادت میں سندھ کی ادبی تاریخ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
پلیجو صاحب نے جنرل ایوب خان کے دور میں ون یونٹ کے خلاف تحریک میں بھی بھرپور حصہ لیا ۔ یاد رہے کہ ون یونٹ 1955میں تشکیل دیا گیا تھا جس کے تحت مغربی پاکستان کے تمام صوبوں کو تحلیل کر کے ایک مغربی پاکستان کا صوبہ بنا دیا گیا تھا۔ جس کا دارالحکومت لاہور کو رکھا گیا تھا۔پاکستان کی تاریخ میں ون یونٹ نے انتہائی منفی کردار ادا کیا کیوں اس سے یہاں کی تمام قومیتوں کو کچلنے کا کام لیا گیا اور مقامی زبانوں اور ثقافتوں کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ جنرل ایوب خان کے دور میں چھوٹی قوموں کے خلاف ریاستی جبر عروج پر پہنچا اور جس کے نتیجے میں بالاخر (مشرقی پاکستان) الگ ہو کر بنگلہ دیش بنا بلکہ دیگر قوموں میں بھی احساس محرومی بڑھتا گیا۔
پلیجو صاحب نے جنرل ایوب خان کے دور میں ون یونٹ کے خلاف تحریک میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ یاد رہے کہ ون یونٹ 1955میں تشکیل دیا گیا تھا جس کے تحت مغربی پاکستان کے تمام صوبوں کو تحلیل کر کے ایک مغربی پاکستان کا صوبہ بنا دیا گیا تھا۔ جس کا دارالحکومت لاہور کو رکھا گیا تھا،پاکستان کی تاریخ میں ون یونٹ نے انتہائی منفی کردار ادا کیا کیوں اس سے یہاں کی تمام قومیتوں کو کچلنے کا کام لیا گیا اور مقامی زبانوں اور ثقافتوں کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ جنرل ایوب خان کے دور میں چھوٹی قوموں کے خلاف ریاستی جبر عروج پر پہنچا اور جس کے نتیجے میں بالاخر(مشرقی پاکستان )الگ ہو کر بنگلہ دیش بنا بلکہ دیگر قوموں میں بھی احساس محرومی بڑھتا گیا۔
رسول بخش پلیجو صاحب پر گفت گو اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک سندھ ہاری کمیٹی اور سندھیانی تحریک کا ذکر نہ کیا جائے۔ سندھیانی تحریک کو عوامی تحریک کی تشکیل کے دس سال بعد1980میں قائم کیا گیا اور اس کے ذریعے پلیجو صاحب نے سندھ کی خواتین کو سیاسی شعور دیا اور سیاسی جدوجہد کرنا سکھایا ۔ رسول بخش پلیجونے سندھیانی تحریک بنا کر سندھ کی خواتین کو منظم کیا اور عورتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کا راستہ دکھایا۔ افسوس کہ یہ تحریک بھی سندھ کے دیہی علاقوں سے آگے نہ بڑھ سکی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے ،دیگر بڑی جماعتیں بھی اپنے خواتین کے شعبے کو مستحکم کرتیں، مگر آج ہم دیکھتے ہیں ہر پارٹی کا خواتین ونگ زیادہ تر اعلیٰ طبقے کی خواتین کے قبضے میں ہوتا ہے اور اس میں عام خواتین کی رکن کم ہی نظر آتی ہیں۔ پلیجو صاحب نے کسان خواتین کے ساتھ طالبات اور استانیوں کو بھی منظم کیا جس سے خواتین آگے آئیں۔
رسول بخش پلیجو صاحب نے اپنی زندگی میں چالیس سے زیادہ کتابیں لکھیں اور ہزاروں کی تعداد میں مضامین تحریر کیے۔ ان کی شخصیت بڑی وسیع اور ہمہ گیر تھی اور وہ ادب و سیاست کے علاوہ تاریخ و ثقافت سے بھی گہری دل چسپی رکھتے تھے۔ان کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ وہ ایک خود پسند انسان تھے۔ غالباً یہ رجحان اکثر بڑے دانش وروں میں پایا جاتا ہے، مگر پلیجو صاحب نے اپنے انداز میں منفرد تھے اور اپنے آگے کسی کی چلنے نہیں دیتے تھے،چوں کہ ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا اس لئے کسی کو ان کے سامنے دم مارنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ جہاں کسی نے اختلاف کیا وہیں پلیجو صاحب نے مارکس لینن،مائو اور منڈیلا سے لے کر ٹالسٹائی اور ٹیگور تک سب کےحوالے دیئے اب کس کو اتنی فرصت تھی کہ جا کر ان حوالوں کی تصدیق کرتا اس لئے اکثر لوگ چپ سادھ لیتےتھے۔غالباً یہی وجہ تھی کہ ان کی خود اپنے بیٹے ایاز لطیف پلیجو سے نہیں بنی اور ان کے سیاسی راستے الگ ہو گئے۔
رسول بخش پلیجو خود ایک حسین انسان تھے۔ خوب صورتی اور مردانہ وجاہت کا نمونہ رہے تھے ۔ پلیجو صاحب نے اس دھرتی اور اس ملک کو بہت کچھ دیا ، ان کا عطا کر دہ سماجی و سیاسی شعور ایک پوری نسل کو متاثر کر چکا ہے۔سندھ کے بزرگ سیاست داان اور عوامی تحریک کے بانی رسول بخش پلیجو 7جون 2018 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، ان کی نماز جنازہ جنگ شاہی میں واقع ان کے آبائی علاقے منگارخان پلیجو گر اؤنڈ میں اداکی گئی، سیکڑوں سوگواروں کی موجودگی میں آبائی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا، نماز جنازہ میں سیاسی رہنماؤں ، کارکنوں اور عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی ۔