• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سندھ میں ’’سام‘‘ کی رسم

مجید میمن

سندھ میں ’’سام‘‘ کی رسم صدیوں سے رائج ہے۔ اس رسم کے تحت کسی بھی شخص چاہے وہ مخالف یا دشمن ہی کیوں نہ ہو،کی گزارش پر اس کے خاندان کو پنا ہ دی جاتی ہے اور مرتے دم تک اس فرد یا خاندان کی حفاظت کی جاتی ہے۔’’ سام ‘‘یعنی پناہ دینا وسیع القلبی اور جرأت مندی کا کام ہوتا ہے۔ اس میں بہت سارے خطرات مول لینے پڑتے ہیں۔پناہ دو طرح سے دی جاتی ہے، ایک یہ کہ کسی لٹے پٹے فرد، خاندان یا کسی دوسری جگہ سے نقل مکانی کرکے آنے والے کو پناہ دی جائےیا کسی کشت و خون اور لڑائی جھگڑے کے دوران کسی خاندان کو پناہ دی جائے۔ سندھ میں اس دوسری طرز کی پناہ کو ’’سام‘‘ دینا کہتے ہیں۔ یہاںپر یہ تصورکیا جاتا ہےکہ سام ہمیشہ بہادر آدمی ہی دے سکتا ہے۔ اگر کوئی کسی شخص کے گھر پناہ لے، اور اسے مخالف جماعت کےلوگ پناہ لینے والےفرد یا افراد کولینے آتے ہیں ،تو وہ انہیں یہی کہتا ہے کہ ’’انہوں نے میرے گھر میں سام لی ہے، اس لیے میں ان لوگوں کو آپ کے حوالے نہیں کرسکتا۔‘‘

سندھ میں ’’سام‘‘ کی رسم

سام ہمیشہ کسی برادری کا بڑا آدمی، وڈیرا، جاگیردار یا کسی قبیلے کا سردار دیتا ہے۔ سام اس صورت میں دی جاتی ہے ،جب کوئی ایسا فرد جو کسی شخص کے ظلم و ستم کا شکار ہونے کے بعد علاقے کے سردار کے پاس جائے اور اس سے تحفظ مانگے کہ اسے کسی شخص کے ظلم و ستم کا شکار ہونے سے نجات دلائی جائے۔ علاقے کا سردار ظلم و ستم کا شکار ہونے والے مرد یا عورت کی فریاد سننے کے بعد اسے اس وقت تک اپنی حویلی یا اوطاق میں رکھتا ہے جب تک کہ کوئی فیصلہ نہیں ہوجاتا۔ کسی شخص کو سام رکھنے کے بعد سردار یا وڈیرا کوشش کرتا ہے کہ مقدمے کا فیصلہ جلد ہوجائے، تاکہ اس کی حویلی میں سام کے لیے آنے والے کو بلا تاخیر انصاف فراہم کیا جائے۔اس مرد یا عورت کو اس کے عزیزوں کے حوالے نہ کرنے کا کوئی قانونی جواز نہیں ہوتا، لیکن قبائلی یا جاگیردارانہ معاشروں کے اپنے بنائے گئے قوانین کے تحت وہ ایسا کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اس کے بعد اس مسئلے کو دو طریقوں سے حل کیا جاسکتا ہے۔ ایک یہ کہ اس کا فیصلہ ہونے کے بعد وہ مرد یا عورت کو اس کے رشتے داروں کے حوالے کردے یا پھر پناہ لینے والوںکے رشتے دار سام دینے والے سے لڑائی کے ذریعے معاملہ طے کریں۔یہی وجہ ہے کہ قبائلی دور میں سام دینے پر کئی قبائل میں خونریز لڑائیاں ہوتی تھیں۔ سام دینے والا شخص سام دینے کے بعد اس مرد ،عورت یا خاندان کو اپنی عزت اور غیرت سے مشروط کرلیتا تھا، اس لیے وہ اپنی عزت کی خاطر لڑتے لڑتے مرجاتا تھا ،لیکن سام میں لیے گئے لوگوں کو ان کی رضامندی کے بغیر واپس نہیں کرتا تھا۔

سندھ کی تاریخ میں سام کی رسم قدیم زمانے سے چلی آرہی ہے۔ صدیوں قبل اس رسم کی بنا پر کئی جنگیں بھی ہوئی ہیں۔ بلوبڈانی اور جنگو کی مشہور لڑائی اس سلسلے کی ہی کڑی ہے۔ کہا جاتاہے کہ شاہانی قبیلے کی چند خواتین بلو بڈانی کے مظالم کا شکار ہونے کے بعد جنگو کے پاس گئیں اور کہا،’’جنگو خان ہم تیری سام ہیں۔ ہمیں تحفظ دے اور ہمیں بلو بڈانی کے ظلم سے نجات دلا۔‘‘ کہا جاتا ہے کہ جنگو خان نے ان عورتوں کی خاطر بلو بڈانی سے لڑائی کی، جس میں بہت سے افراد مارے گئے۔ یہ لڑائی دادو ضلع کے پہاڑوں پر لڑی گئی تھی۔ گوٹھ مراد جمالی میں جنگو خان کا مقبرہ آج بھی موجود ہے۔

سام کے حوالے سے سندھ میں ایک واقعے نے بہت شہرت پائی اور اسی واقعے کے باعث یہ رسم ایک شان دار رسم کی حیثیت اختیار کر گئی۔کہا جاتا ہے کہ تقریباً سات صدی قبل سندھ پر سومرا خاندان کے بھونگر نامی شخص کی حکم رانی تھی۔ ان کی وفات کے بعد اس کے دو بیٹوں چنیسر اور دودو سومرو کے درمیان اقتدار کی جنگ چھڑ گئی۔ چنیسر بڑا بیٹا تھا، اس لیے تخت پر اس کا حق بنتا تھا ۔ وزرا اور امرا نے چنیسر کی تخت نشینی پر اس بنا پر اعتراض کیا کہ ان کی ماں سومرا قبیلے کی نہیں تھی، جب کہ دو دو سومرو کی ماں سومرا خاندان کی تھی۔ اس لیے اس کو حکم راں بننا چاہیے۔بالآخر فیصلہ بھونگر کی بڑی بیٹی باگھل بائی کے پاس گیا، جنہوں نے چنیسر کے حق میں فیصلہ دے دیا، مگر جب یہ فیصلہ چنیسر کو سنایا گیا تو انہوں نے کہا،’’میں اپنی ماں سے پوچھ کر آتا ہوں۔‘‘ بس یہ بات وزرا اور امرا کے لیے بہانہ بن گئی کہ چنیسر میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے، اس لیے انہوں نے دو دو سومرو کو بھونگر کا جانشین مقرر کردیا۔ چنیسر کو جب اس صورت حال کا علم ہوا، تو اس نے اپنی حکم رانی کا حق اور انتقام لینے کی خاطر دہلی کے حکمراں علائو الدین خلجی سے مدد طلب کی۔ علائو الدین خلجی نے اپنے سالاروں کو حکم دیا کہ وہ سندھ پر حملہ کرکے چنیسر کو اقتدار دلادیں۔ علائو الدین کی افواج دو دو سومرو کی تخت گاہ ’’روپا‘‘ پہنچی۔علائو الدین نے اپنے ایلچی سالار خان کے ذریعے دو دو سومرو کو پیغام بھجوایا کہ وہ چنیسر کے حق میں دست بردار ہوجائے یا جنگ کے لیے تیار ہوجائے۔ دو دو سومرو اپنی سندھی قوم کی تاریخی امن پسندی کے تحت تخت اپنے بھائی کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہوگیا۔ رضامندی کا پیغام چنیسر کے بیٹے نگر کے ذریعے بھجوایا گیا، لیکن چنیسر انتقام لینا چاہتا تھا۔ اس نے علائو الدین کو اپنی بہن کا رشتہ دینے کا لالچ دیا تاکہ دونوں کے درمیان دوستی کا رشتہ مضبوط ہوجائے۔ علائو الدین نے رشتہ منظور کرلیا۔ نگر اپنے باپ چنیسر کی طرح نہیں تھا ،اس لیے وہ اس بے عزتی کو نظر انداز نہیں کرسکتا تھا۔ نگر نے علائو الدین کو جواب دیا۔ ’’سومرے موت کے درد کے دوران بھی اپنی خواتین کا سودا نہیں کرتے۔‘‘ یہ سن کر علائو الدین جلال میں آگیا اور اپنے سپاہیوںکو اس نوجوان شہزادے کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔نگر نے بڑی بہادری سے مقابلہ ان سپاہیوں کا مقابلہ کیا، لیکن اکیلا شہزادہ آخر کب تک لڑتا، بالآخر وہ مر گیا۔ علائو الدین نے نگر کی لاش روپا بھجوادی۔ نگر شہزادے کی موت کی خبر سن کر دو دو سومرو کی بیٹی اور نگر کی منگیتر کو مل نے اپنے آپ کو جلادیا۔ اس واقعے کے بعد باگھل بائی نے اپنے بھائی دو دو سومرو سے کہا، ’’اگر تم علائو الدین کو میرا رشتہ دے دو تو یہ قتل کا سلسلہ بند ہوسکتا ہے۔‘‘ یہ اتنی بڑی قربانی نہیں ہے، مگر اس سے ہمارے وطن کے لوگوں کی جانیں بچ جائیں گی۔‘‘دو دو سومرو کا جواب تھا، ’’سومرا خاندان کی تاریخ میں یہ کبھی بھی نہیں ہوا ہے کہ اپنی لڑکی کسی غیر کو شادی کے بندھن میں دی جائے اور جو میرے آباؤ اجداد نے کبھی نہیں کیا میں وہ نہیں کروں گا۔‘‘ باگھل بائی نے یہ جواب سن کر اپنا سر اپنے بہادر بھائی کے قدموں میں رکھ دیا۔ اس صورت حال کے پیش نظر دو دو سومرو نے اپنے بہادر ترین امراء کو پیغام بھجوایا اور اپنی ساری عورتوں اور بچوں کو ان کے ساتھ اپنے گوٹھ لے جانے کی درخواست کی کہ وہ انہیں اپنی حفاظت میں رکھے، یوں اس امیر نے عورتوں اور بچوں کو اپنی حفاظت میں لے لیا۔اس واقعے سمیت سام کے حوالے سے تاریخ میں موجود دیگر واقعات بتاتے ہیں کہ سندھ کا یہ رواج ایک خوبصورت روایت ہے، جو آج بھی جاری ہے۔

تازہ ترین