پطرس بخاری
خدا کے فضل سے ہم سینما کبھی وقت پر نہیں پہنچ سکے۔ اس میں میری سستی کوذرا دخل نہیں‘ یہ سب قصور ہمارے دوست مرزا صاحب کا ہے۔ وہ کہنے کو تو دوست ہیں لیکن خدا شاہد ہے‘ کہ ان کی دوستی سے جو نقصان ہمیں پہنچے‘ کسی دشمن کے بھی قبضہ قدرت سے باہر ہوں گے۔
جب سینما جانے کا ارادہ ہوتا‘ تو ہفتہ بھر پہلے انھیں کہہ دیتا کہ، بھئی مرزا جی! اگلی جمعرات کو سینما چلو گے نا؟ میری مراد یہ ہوتی کہ وہ پہلے سے تیار رہیں اور اپنی تمام مصروفیتیں کچھ اس ڈھب سے ترتیب دے لیں کہ جمعرات کے دن ان کے کام میں کچھ حرج واقع نہ ہو۔ لیکن وہ جواب میں عجیب قدر شناسی فرماتے:
’’ارے بھئی چلیں گے کیوں نہیں؟ کیا ہم انسان نہیں؟ ہمیں تفریح کی ضرورت نہیں ہوتی اور پھر کبھی ہم نے ایسی بے مروتی آج تک برتی ہے کہ تم نے چلنے کو کہا ہو اور ہم نے تمہارا ساتھ نہ دیا ہو۔‘‘
ان کی تقریر سن کر میں کھسیانا سا ہو جاتا۔ کچھ دیر چپ رہتا اور پھر دبی زبان سے کہتا ’’بھئی اب کے ہو سکا تو وقت پر پہنچیں گے۔ ٹھیک ہے نا؟‘‘
میری یہ بات عام طور پر ٹال دی جاتی‘ کیونکہ اس سے ان کا ضمیر کچھ تھوڑا سا بیدار ہو جاتا۔ خیر میں بہت زور نہیں دیتا‘ صرف ان کوبات سمجھانے کے لیے اتنا کہہ دیتا ’’کیوں بھئی! آج کل سینما چھے بجے شروع ہو جاتا ہے نا؟‘‘
’’مرزا صاحب عجیب معصومیت کے انداز میں جٖواب دیتے ’’بھئی یہ ہم کو معلوم نہیں۔‘‘
’’میرا یہ خیال ہے چھے بجے ہی شروع ہوتا ہے۔‘‘
’’اب تمہارے خیال کی کوئی سند نہیں…‘‘
’’نہیں مجھے یقین ہے‘ چھے بجے شروع ہوتا ہے۔‘‘
’’تمھیں یقین ہے تو میرا دماغ کیوں مفت میں چاٹ رہے ہو؟‘‘
اس کے بعد آپ ہی کہیے کہ، کیا بولوں؟
خیر جناب! جمعرات کے دن چار بجے ان کے مکان پہنچتا ہوں‘ اس خیال سے کہ جلدی جلدی انھیں تیار کرا کے وقت پر پہنچ جائیں،مگر دولت خانے پر تو آدم نہ آدم زاد‘ سارے مردانے کمرے گھوم جاتا ہوں‘ ہر کھڑکی سے جھانکتا ہوں‘ ہر شگاف سے آواز دیتا ہوں‘ لیکن کہیں سے رسید نہیں ملتی۔ آخر تنگ آ کر ان کے کمرے میں بیٹھ جاتا اور دس پندرہ منٹ سیٹیاں بجاتا رہتا ہوں۔ دس پندرہ منٹ بلاٹنگ پیپر پر تصویریں بناتا ہوں، پھر سگریٹ سلگاتا اور باہر ڈیوڑھی میں نکل کر اِدھر اُدھر جھانکتا ہوں۔ وہاں بدستور ہُوکا عالم دیکھ کر کمرے میں واپس آتا اور اخبار پڑھنا شروع کر دیتا ہوں۔
ہر کام کے بعد مرزا صاحب کو آواز دے لیتا ہوں‘ اس اُمید پر کہ شاید ساتھ کے کمرے میں یا عین اوپر کے کمرے میں تشریف لے آئے ہوں۔ سو رہے تھے تو ممکن ہے جاگ اٹھے ہوں۔ نہا رہے تھے‘ تو شاید غسل خانے سے باہر نکل چکے ہوں لیکن میری آواز مکان کی وسعتوں سے گونج کر واپس آ جاتی ۔ آخرکار ساڑھے پانچ بجے کے قریب زنانے سے تشریف لاتے ہیں۔ میں اپنا کھولتا خون قابو میں لا کر متانت اور اخلاق بڑی مشکل سے مدنظر رکھ کر پوچھتا ہوں:
’’کیوں حضرت ،آپ اندر ہی تھے؟میری آواز آپ نے نہیں سنی؟‘‘
’’اچھا یہ تم تھے‘ میں سمجھا کوئی اور ہے۔‘‘
آنکھیں بند کر کے سر پیچھے ڈال لیتا اور دانت پیس کر غصے کو پی جاتا ہوں۔ پھر کانپتے ہوئے ہونٹوں سے پوچھتا ہوں ’’تو اچھا آپ چلیں گے یا نہیں؟‘‘
’’کہاں… ‘‘
’’ارے بندہ خدا‘ آج سینما نہیں جانا؟‘‘
’’ہاں ہاں‘ سینما سینما۔‘‘یہ کہہ کر وہ کرسی پر بیٹھ جاتے اور کہتے ہیں ’’میں بھی سوچ رہا تھا کہ کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے ایسی جو مجھے یاد نہیں آتی‘ اچھا ہوا تم نے یاد دلا دیا، ورنہ مجھے رات بھر الجھن ہی رہتی۔‘‘
’’تو پھر اب چلیں؟‘‘
’’ہاں وہ تو چلیں گے ہی‘ میں سوچ رہا تھا کہ آج ذرا کپڑے بدل لیتے‘ خدا جانے دھوبی کمبخت کپڑے بھی لایا ہے یا نہیں‘ یار، اِن دھوبیوں کا تو کوئی انتظام کرو۔ اگر قتل انسانی ایک سنگین جرم نہ ہوتا تو ایسے موقع پر مجھ سے ضرور سرزد ہو جاتا۔ لیکن کیا کروں‘ اپنی جوانی پر رحم کھاتا ہوں‘ بے بس ہوں‘ صرف یہ ہی کہہ سکتا ہوں۔‘‘
’’بھئی مرزا‘ اللہ مجھ پر رحم کرو‘ میں سینما چلنے کو آیا ہوں‘ دھوبیوں کا انتظارکرنے نہیں۔ یار بڑے بدتمیز معلوم ہوتے ہو‘ پونے چھے بج چکے اور تم جوں کے توں بیٹھے ہو۔‘‘
مرزا صاحب عجیب مربیانہ تبسم کے ساتھ کرسی سے اٹھتے ہیں،گویا یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ اچھا بھئی‘ تمہاری طفلانہ خواہش آخر پوری کر ہی دیں۔ چناںچہ پھر یہ کہہ کر تشریف لے جاتے ہیں کہ اچھا کپڑے پہن آئوں۔
مرزا صاحب کے کپڑے پہننے کا عمل اس قدر طویل ہے کہ اگر میرا اختیار چلے تو قانون کی رو سے انھیں کپڑے اتارنے ہی نہ دوں۔ آدھ گھنٹے بعد وہ کپڑے پہنے تشریف لاتے ہیں۔ ایک پان منہ میں اور دوسرا ہاتھ میں بھی‘ میں اٹھ کھڑا ہوتا ہوں۔ دروازے تک پہنچ کر مڑ کے دیکھتا ہوں تو مرزا صاحب غائب‘ پھر اندر جاتا ہوں‘ مرزا صاحب کسی کونے میں کھڑے کچھ کرید کر رہے ہیں۔
’’ارے بھائی چلو…‘‘
’’چل تو رہا ہوں یار‘ آخر اتنی بھی کیا آفت ہے؟‘‘
’’اور یہ تم کیا کر رہے ہو؟‘‘
’’پان کے لیے تمباکو لے رہا تھا۔‘‘
تمام راستے مرزا صاحب چہل قدمی فرماتے رہے۔ میں ہر دو تین لمحے کے بعد اپنے آپ کو ان سے چار پانچ قدم آگے پاتا، کچھ دیر ٹھہر جاتا تو پھر چلنا شروع کر دیتا، پھر آگے نکل جاتا،پھر ٹھہر جاتا، غرض چلتا دوگنی رفتار سے ہوں اور پہنچتا ان کے ساتھ۔
ٹکٹ لے کر اندر داخل ہوئے تو اندھیر ا گھپ‘ بہتیرا آنکھیں جھپکاتا‘ کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ ادھر سے کوئی آواز لگاتا ’’دروازہ بند کر دو جی۔‘‘ یااللہ اب جائوں کہاں… رستہ‘ کرسی‘ دیوار‘ آدمی کچھ بھی تو نظر نہیں آتا۔ ایک قدم اور آگے بڑھاتا تو سر ان بالٹیوں سے جا ٹکراتا جو آگ بجھانے کے لیے دیوار پر لٹکتی رہتی ہیں،تھوڑی دیر بعد تاریکی میں کچھ دھندلے سے نقش دکھائی دینے لگتے،جہاں ذرا تاریک سا دھبا دکھائی دے جائے‘ وہاں سمجھتا خالی کرسی ہو گی۔ خمیدہ کمر ہو کر اس کا رخ کرتا۔ اس کے پائوں کو پھاند‘ اس کے گھٹنوں سے ٹکرا‘ خواتین سے دامن بچا آخرکار کسی کی گود میں جا بیٹھتا تو وہاں سے نکال دیا جاتا۔
لوگوں کے دھکوں کی مدد سے آخر ایک کرسی تک جا پہنچا۔مرزا صاحب سے کہتا ’’میں نہ بکتا تھا کہ جلدی چلو‘ خوامخواہ ہم کو رسوا کر دیا نا!
’’گدھا کہیں کا!‘‘اس شگفتہ بیانی سے معلوم ہوتا کہ ساتھ کی کرسی پر جو بزرگ بیٹھے ہیں اور جن کو میں مخاطب کر رہا ہوں‘ وہ مرزا صاحب نہیں کوئی اور بزرگ ہیں۔
اب تماشے کی طرف متوجہ ہوتا اور سمجھنے کی کوشش کرتا کہ فلم کون سی ہے؟ اب اس کی کہانی کیا ہے؟ اور کہاں تک پہنچ چکی؟ سمجھ میں صرف اس قدر آتا کہ، ایک عورت ہے جو کسی مسئلے سے نمٹنا چاہتی ہے۔ اتنے میں آگےکرسی پر بیٹھے حضرت ایک وسیع اور فراخ انگڑائی لیتے۔ اس دوران کم از کم تین سو فٹ فلم گزر جاتی۔ جب انگڑائی لپیٹ لیتے تو سر کھجانا شروع کرتے۔ اس عمل کے بعد ہاتھ کو سر سے نہیں ہٹاتے بلکہ بازو ویسے ہی خمیدہ رکھتے۔ میں مجبوراً سر نیچا کر کے چائے دانی کے دستے کے بیچ میں سے اپنی نظر کے لیے رستہ نکال لیتا۔
بیٹھنے کے انداز سے ایسا معلوم ہوتا جیسے ٹکٹ خریدے بغیر اندر گھس آیا اور چوروں کی طرح بیٹھا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد انھیں کرسی کی پشت پر کوئی مچھر یا پالتو پسو معلوم ہوتا، چناںچہ وہ دائیں طرف سے اونچے ہو کر بائیں طرف کو جھک جاتے۔ میں مصیبت کا مارا بھی دوسری طرف جھک جاتا۔ ایک دو لمحے بعد ہی وہ مچھر دوسری طرف ہجرت کر جاتا۔ چناںچہ ہم دونوںبھی پینترا بدل لیتے۔ غرض یہ دل لگی یوں ہی جاری رہتی۔ وہ دائیںتو میں بائیں‘ میں بائیں تو وہ دائیں۔ ان کو کیامعلوم کہ اندھیرے میں کیا کھیلا جا رہا ہے۔ دل تو یہی چاہتا کہ اگلے درجے کا ٹکٹ لے کر ان کے آگے جا بیٹھوں اور کہوں ’’لے بیٹا، دیکھو تو اب تو کیسے فلم دیکھتا ہے۔‘‘
پیچھے سے مرزا صاحب کی آواز آتی ’’یار تم سے نچلا نہیں بیٹھا جاتا‘اب جو ہمیں ساتھ لائے ہو تو فلم دیکھنے دو۔‘‘
میں غصے میں آ کر آنکھیں بند کرتا اور قتل عمداً ‘ خودکشی‘ زہر خورانی کے معاملات پر غور کرنے لگتا۔ دل میں کہتا‘ ایسی کی تیسی اس فلم کی‘ سو سو قسمیں کھاتا کہ پھر کبھی نہ آئوں گا۔ اور اگر آیا بھی تو اس کمبخت مرزا سے ذکر نہیں کروں گا۔ پانچ چھے گھنٹے پہلے آ جائوںگا۔ اوپر کے درجے میں سب سے اگلی قطار میں بیٹھوں گا۔ تمام وقت اپنی نشست پر اُچھلتا رہوں گا۔ بہت بڑے طرے والی پگڑی پہن کر آئوں گا۔ اپنے اوورکوٹ کو دو چھڑیوں پر لٹکا دوں گا، بہرحال مرزا کے پاس نہ پھٹکوں گا۔
لیکن اس کم بخت دل کو کیا کروں‘ اگلے ہفتے پھر کسی اچھی فلم کا اشتہار دیکھ پاتا تو سب سے پہلے مرزا کے پاس جاتا اور گفتگو پھر وہیں سے شروع ہو جاتی۔ ’’کیوں بھئی مرزا اگلی جمعرات کوسینما چلو گے نا؟‘‘