کبھی کبھی زندگی میں اچانک ایسی اَن ہونی بات ہوجاتی ہے، جس کی کوئی توجیہہ نہیں ہوتی۔ یہ عجیب سا واقعہ تین سال قبل ہمارے ساتھ پیش آیا۔ اس وقت میں پندرہ سال کا تھا۔ ہر سال چودہ اگست کو یوم ِآزادی ہم سب گھر والے نہایت جوش وخروش سے مناتے ہیں اور اس کے لیے اگست کی پہلی تاریخ ہی سے انتظار شروع ہوجاتا ہے۔ گھر کو جھنڈے اور جھنڈیوں سے سجانا، قومی ترانوں میں گھر والوں سے مقابلے بازی وغیرہ ہمارے پسندیدہ مشاغل ہیں۔ جس واقعے کا میں ذکر کررہا ہوں، وہ 14اگست کو یومِ آزادی کے روز پیش آیا۔ قومی دن کے اس موقعے پر صبح ہی سے ہر طرف ایک خوش گوارسی فضا ہوتی ہے، چاروں طرف ترانوں کی گونج، پرچموں کی بہار دل کو امنگوں اور وطن پرستی سے بھردیتی ہے۔ ہم سب اس روز صبح سویرے ہی اٹھ گئے تھے کہ مزارِ قائد پر گارڈز کی تبدیلی کا منظر دیکھنے کا پروگرام، گھر والوں نے رات ہی کو بنالیا تھا۔ ناشتے سے فارغ ہوتے ہی ہم نے مزارِ قائد کا رخ کیا اور’’ پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے مزار ِقائد پہنچ گئے۔ وہاں بے پناہ رش تھا اور ماحول عید کے تہوار جیسا ہی لگ رہا تھا۔ مزار پر گارڈز کی تبدیلی اور فاتحہ خوانی کے بعد ہم سب مزار کے احاطے میں بنے خوب صورت پارک میں بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد والد صاحب نے واپسی کا عندیہ دیا، مگر گرمی کے باوجودہم سب کااتنی جلدی وہاں سے واپس جانے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔ بالآخر ہماری ضد کے آگےمجبورہوکر والد صاحب نے شام تک وہیں ٹھہرنے کا پروگرام بنالیا۔
سارا دن ہم بچّوں نے جی بھر کے سیر کی، گلے پھاڑ پھاڑ کر ترانے گاتے اور’’ پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعروں سے خون گرماتے رہے۔ دوپہر کا کھانا بھی وہیں کھایا، جب شام گہری ہونے لگی، تو والد صاحب نے یہ کہہ کر ہمیں اور خوش کردیا کہ رات کا کھانا ہم باہر کھائیں گے۔ مزارِ قائد سے کچھ فاصلے پر ایک ہوٹل سے کھانا کھانے کے بعد جب گاڑی میں بیٹھے، تو تاحدِ نگاہ ٹریفک ہی ٹریفک نظر آیا۔ بہرحال، گھر تو جانا ہی تھا، شدید ترین ٹریفک جام میں والد صاحب گاڑی سڑک پر لے تو آئے، مگر رش کی وجہ سے وہ چیونٹی کی چال سے آگے بڑھ رہی تھی۔ ابھی چند فرلانگ ہی کا فاصلہ طے کیا تھا کہ ایک دھماکے کے ساتھ ہماری گاڑی رک گئی۔ اس قدر ٹریفک جام میں گاڑی بند ہونا ایک عذاب سے کم نہیں ہوتا۔ سب فوری طور پرنیچے اترے، والد صاحب نے گاڑی چیک کی، کوئی نقص نہ پاکر دوبارہ اسٹارٹ کی، تو چل پڑی اور اسی طرح رینگتی ہوئی شاید ایک فرلانگ ہی چلی ہوگی کہ ایک بار پھر جھٹکا کھاکر رک گئی ۔ اتر کر دیکھا، تو گاڑی کا ایک وہیل جام ہوگیا تھا، اب صورت ِ حال یہ تھی کہ اسے دھکیل کر سڑک کنارے لگانا بھی ممکن نہ رہا تھا۔ یہ صورتِ حال پیچھے آنے والی گاڑیوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہوگئی تھی، ہم نے اشارے سے اپنی گاڑی کی خرابی کا بتایا، تو مت پوچھیے، گاڑیوں میں غصّے سے بھرے لوگ چاروں طرف سے ہارن بجابجا کر صلواتیں سنانے لگے ۔والد صاحب بھی اس افتاد سے پریشان ہوگئے، میری طرف پریشا نی سے دیکھتے ہوئے کہا کہ ’’ میں کسی میکینک کو دیکھتا ہوں، اس وقت تک تم اس صورتِ حال کا مقابلہ کرو۔‘‘ان کے جانے کے بعد میں پیچھے والی گاڑیوں کو اشارے کرتا رہا کہ’’ ہماری گاڑی خراب ہوگئی ہے، آپ لوگ راستہ بدل لیں۔‘‘کچھ دیر بعد اکتاکر گاڑی میں بیٹھا ہی تھا کہ ایک آدمی میری طرف آیا، میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا ، اس نے مجھے سلام کیا اور کہنے لگا ’’ مجھے آپ کے والد نے بھیجا ہے، میں موٹر میکینک ہوں۔‘‘ میں فوراً گاڑی سے اتر گیا، تو وہ شخص، اپنا ٹول بکس نکال کر انہماک سے موٹر کے اس جام پہیّے کو درست کرنے لگا۔ مجھے والد صاحب دکھائی نہیں دیے، تو میں نے اس سے پوچھا کہ ’’والد آپ کے ساتھ کیوں نہیں آئے؟‘‘ تو اس نے میری بات کا سرہلا کر جواب دیا، جیسے کہہ رہا ہوکہ پتا نہیں، منہ سے کچھ نہیں بولا اور خاموشی سے کام کرتا رہا، اس نے تقریباً دس منٹ میں اپنا کام مکمل کرکے خوش خبری سنائی کہ ’’پہیّہ ٹھیک ہوگیا، اب گاڑی چل پڑے گی۔‘‘
ہم خوش ہوگئے، لیکن گاڑی کی چابی والد صاحب کے پاس تھی۔ میں نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا، تو وہ سمجھ گیا کہ ٹیسٹ کیے بغیرکیسے پتا چلے گا کہ گاڑی ٹھیک ہوگئی ہے۔ اس نے بڑی شفقت سے کہا ’’بے فکر رہو، گاڑی چل پڑے گی۔‘‘ میں نے جب اس کام کے پیسے پوچھے، تو اس نے جواب دیا ’’تمہارے والد صاحب مجھے پیسے دے چکے ہیں، فکر مت کرو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے میرا شانہ محبت سے تھپتھپایا اور ٹریفک کے ازدحام میں تیزی سے قدم بڑھاتا نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔ اس کے جانے کے تقریباً پندرہ بیس منٹ بعد والد صاحب پریشان صورت لیے آئے اور کہنے لگے ’’میں دور دور تک دیکھ آیا، کوئی میکینک نہیں ملا۔ تم لوگ ٹیکسی میں چلے جائو، میں یہیں گاڑی کے پاس رک کر کوئی سبیل نکالتا ہوں۔‘‘ میں نے حیران ہوکر کہا ’’ابو! آپ مذاق کررہے ہیں؟ آپ نے جو میکینک بھیجا تھا، اس نے گاڑی ٹھیک کردی ہے، اب یہ کہیں نہیں رکے گی۔‘‘ میری بات سن کر والد صاحب پریشان ہوگئے کہ کہیں کوئی فراڈی ان کا نام لے کر وہیل کیپ وغیرہ نکال کرتو نہیں لے گیا۔ جھک کر پہیّہ دیکھا، سب ٹھیک ٹھاک دکھائی دیا۔ کہنے لگے ’’مجھے دور تک کوئی ورکشاپ ہی نہیں ملی، تو میکینک کہاں سے بھیجتا۔ بہرحال، یہ بتائو، اس نے تم سے کتنے پیسے ٹھگے؟‘‘ جب میں نے انہیں بتایا کہ اس نے ایک پائی بھی نہیں لی، بلکہ کہہ رہا تھا کہ آپ نے اسے ایڈوانس میں پیسے دے دیئے ہیں، تو والد صاحب کو حیرت کا جھٹکا لگا۔ انہوں نے حیرت اور پریشانی کی ملی جلی کیفیت میں میری طرف دیکھا اور گاڑی اسٹارٹ کی، تو وہ نارمل انداز سے چل پڑی۔ اب ہم سب کی حیرت دوچند ہوگئی تھی کہ وہ کون بندئہ خدا تھا، جس نے اس مشکل وقت میں اس طرح اچانک آکر نہ صرف ہماری مدد کی، بلکہ معاوضے کے طور پر ایک روپیا تک نہیں لیا۔ میرے لیے یہ بات بھی انتہائی حیرت انگیز تھی کہ اس نے مجھ سے گاڑی کی خرابی کا بھی نہیں پوچھا تھا، بلکہ فوراً اسی پہیّے کو ٹھیک کرنے زمین پر بیٹھ گیا تھا، جو جام تھا، جیسے اسے پہلے سے اس نقص کا علم ہو۔ دیکھنے میں سادہ اور مزدور آدمی لگتا تھا، مگر اسے اپنا معاوضہ تو لینا چاہیے تھا۔ یہ معمّا ہم گھر والے آج تک حل نہیں کرسکے۔
( سیّد اسامہ علی، کراچی)