• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مستقل ایئر کنڈیشنر کا استعمال صحت کیلئے کتنا سود مند؟

مستقل ایئر کنڈیشنر کا استعمال صحت کیلئے کتنا سود مند؟

گرمی گرمی ہائے رے گرمی۔۔۔جب گرمی کا زور ہوتو انسان کا بس نہیں چلتا کہ کیسے اس کا توڑ کرے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی نے ترقی کی تو پنکھوں اور روم کولر کے بعد ایئر کنڈیشنر لوگوں کی زندگیوں میں عام ہوتا گیا۔ اب گھر چھوٹے ہوں یا بڑے، آپ کو ہر گھر میں کم از کم ایک اے سی تو لازمی لگا دکھائی دے گا۔اب تو یہ حال ہے کہ دفتر ہویا گھر، گاڑی یا پھر کوئی شاپنگ سینٹرہرجگہ ایئرکنڈیشنرکی سہولت موجود ہے۔ جب ہر جگہ ہی ایئر کنڈیشنر موجود ہوگا تو پھر آپ کو اس کی عادت بھی ضرور پڑجاتی ہےاور لوڈشیڈنگ کے دوران اس کے بغیر جینا محال ہوجاتا ہے۔ ہمارے جسم ایئرکنڈیشنر کے عادی ہوگئے ہیں اور اب ذرا سی گرمی بھی ہمارے لیے ناقابلِ برداشت ہوجاتی ہے۔اگر کوئی چلچلاتی دھوپ میں سے کسی ایسی جگہ پہنچ جائے جہاں ایئرکنڈیشنر چل رہاہو تواسے فوراً ہی سکون اور راحت کا احساس ہوتا ہے۔

ایئرکنڈیشنر کے صحت پر اثرات

گرمیوں میں ایئرکنڈیشنر کی ضرورت سے کسی طورانکار نہیں کیا جاسکتا مگر جیسے ہرچیز میں اعتدال کی ضرورت ہوتی ہے بالکل اسی طرح ایئرکنڈیشنر کے استعمال میں بھی اعتدال کی ضرورت ہے۔عام طور پر لوگ ایئر کنڈیشنر کوانتہائی کم درجہ حرارت پر رکھتے ہیں جو ان کی صحت کے لیے قطعاً مفید نہیں۔ مصنوعی ٹھنڈک میں مسلسل رہنے اور پھر باہر گرمی میں جانے سے آپ کی صحت پر اچھے اثرات مرتب نہیں ہوتے کیونکہ تیزگرمی سے اچانک ٹھنڈے ماحول میں جانے سے بہت سے طبی مسائل جنم لیتے ہیں جن کا فوری پتہ نہیں چلتا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ مسائل سامنے آتے رہتے ہیں۔ ایئرکنڈیشنر کےمستقل استعمال سے صحت کو لاحق کچھ مسائل پرروشنی ڈالتے ہیں۔

سانس لینے میں دشواری

اگر ایئرکنڈیشنر مستقل چلایا جارہا ہومگر اس کے فلٹرصاف نہ کیے جائیں توان میں کئی قسم کے جراثیم پروان چڑھنے لگتے ہیں اور پھر یہی جراثیم ایئرکنڈیشنر چلنے کے ساتھ لوگوں تک پہنچ جاتے ہیں جس سے انھیں سانس کی تکلیف کے ساتھ نمونیا بھی ہوسکتا ہے۔اس کے علاوہ ایک خاص قسم کے جرثومے، لیگیونیلانیموفیلا کی وجہ سے بھی سانس لینے کے عمل کو متاثر کرنے والی ایک اور بیماری، لیگیونیئر بھی ہوسکتی ہے۔یہ خصوصاً ان افراد کو ہوسکتی ہے جو اپنے دن کا بیشتر وقت ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں گزارتے ہیںاور انھیں ہروقت گھٹن کی شکایت رہتی ہے جبکہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسے افراد جب ٹھنڈے کمرے سے باہر جاتے ہیں تو انھیں گھبراہٹ سی ہونے لگتی ہے۔ یہ تمام علامات اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ مستقل ایئرکنڈیشنر میں بیٹھنے سے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔یہ علامات فوری طور پر نہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ظاہر ہوتی ہیں۔

احتیاط:سانس کی بیماریوں سے بچنے کے لیے ایئرکنڈیشنرکے فلٹرز کو ہر ہفتے باقاعدگی سے صاف کرنا چاہیے۔اس کے علاوہ ان فلٹرز کو ہر سال تبدیل کرلینا ایک بہتر عمل ہے جبکہ اس کے ساتھ کمرے میں موجود قالین اور پردوں کی باقاعدگی سے صفائی بھی اہمیت رکھتی ہے۔

سر اور جسم میں درد

ایئرکنڈیشنر میں مستقل بیٹھنے والے افراد کو تھکاوٹ محسوس ہونے لگتی ہے، ان کے سر اور جسم کے دیگر حصوں میں درد کی شکایت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے لیکن وہ جیسے ہی ٹھنڈے ماحول سے باہر نکلتے ہیں تویہ علامات فوری ختم ہوتی نظرآتی ہیں۔ ان علامات کو ’سک بلڈنگ سنڈروم‘ کہاجاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق، ایسے افراد جومستقل ایئر کنڈیشنر کی ٹھنڈک میں رہتے ہیں، ان میں جلدی تھکاوٹ، سردرد اور جسم میں مستقل درد رہنے کی شکایات زیادہ پائی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں کم وقت گزارتے ہیں ان کے سر اور جسم میں مستقل درد نہیں رہتا۔

احتیاط:جس کمرے میں بیٹھیں اس کے ایئرکنڈیشنر کا درجہ حرارت بڑھادیں تاکہ زیادہ ٹھنڈک نہ لگے۔اس کے علاوہ ہر گھنٹے یا دو گھنٹے بعد ایئرکنڈیشنر والے کمرے سے نکل کرباہر تازہ ہوامیں جائیں تاکہ آپ کے جسم کا درجہ حرارت بھی معتدل رہے۔اگر کسی کو نزلہ یا زکام ہورہا ہوتواسے چاہیے کہ کمرے میں ماسک پہن کر بیٹھے تاکہ ہوا کے ذریعے لگنے والی اس الرجی کے جراثیم دوسروں تک نہ پہنچیں۔

جلد اور بالوں کا خشک ہونا

اکثر خواتین یہ شکایت کرتی نظرآتی ہیں کہ پہلے توان کی جلد اتنی خشک نہیں تھی لیکن اب وقت گزرنے کے ساتھ یہ مزید خشک ہوتی جارہی ہے۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ بیشتر خواتین مستقل ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں رہتی ہیں جس کی وجہ سےان کی جلد خشک ہونے لگتی ہے۔اس کے علاوہ ایئرکنڈیشنر کی ہوا بالوں کی نمی کو بھی ختم کردیتی ہے، جس کی وجہ سے ان کے بال بے رونق اور خشک نظرآتے ہیں۔

احتیاط:جلد اور بالوں کو نمی پہنچانے کے لیے زیادہ سے زیادہ پانی پیئیں، اس کے ساتھ مختلف کریم اور کنڈیشنر زکے ذریعے بھی بالوں اور جلد کومناسب نمی فراہم کی جاسکتی ہے۔

جسم کا درجہ حرارت

بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ایئر کنڈیشنرکے درجہ حرارت کو 17 سے 22 ڈگری کے درمیان رکھتے ہیں اور جب کمرہ کافی سرد ہوجاتا ہے تو کمبل اوڑھ لیتے ہیں۔ کیا آپ کو پتہ ہے کہ انسانی جسم کادرجہ حرارت 35 ڈگری سیلسیس ہے؟ انسانی جسم 23 تا 39 ڈگری کا درجہ حرارت آسانی سے برداشت کرسکتا ہےجسے ’ہیومن باڈی ٹالرینس‘ یعنی انسانی جسم کی درجہ حرارت برداشت کرنے کی سکت کہا جاتا ہے۔ جب آپ ایئر کنڈیشنرکو17 سے 22 ڈگری کے درمیان چلاتے ہیں تو یہ جسم میں "Hypothermia" کاعمل شروع کردیتا ہے، جو جسم میں خون کی فراہمی اور روانی کو متاثر کرتا ہے۔ جسم کے کئی حصوں کو طلب کے مطابق خون کی فراہمی نہیں ہوپاتی جو آگے چل کےگنٹھیااور دوسری بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔اس کےعلاوہ ایئرکنڈیشنرمیں رہنے سے پسینہ نہیں آتا جس کے باعث جسم سے زہریلے مواد کا اخراج نہیں ہوپاتا اور یہ آگے چل کر جلد کی بیماریوں، کھجلی اور بلڈپریشر جیسی بیماریوں کی وجہ بنتا ہے۔

ایئرکنڈیشنر کا درجہ حرارت کیا ہونا چاہیے؟

ہم یہ بات نہیں کر سکتے کہ ایئر کنڈیشنر بہت نقصان دہ ہے اور اسے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارا مقصد ایئر کنڈیشنر کو مناسب طریقے سے استعمال کرنے کے بارے میں آگاہ کرنا ہے تاکہ آپ کی صحت اس سے متاثرنہ ہو۔موسم گرما میں ایئرکنڈیشنر کا مناسب طریقے سے استعمال نہایت ضروری ہے۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ باہر اورکمرے کے درجہ حرارت میں8 سے 10 ڈگری سے زیادہ فرق نہ ہو۔ کم ڈگری پر ایئرکنڈیشنر چلا کرپھر اس کا درجہ حرارت بڑھانے سے دل کی تسلی کے علاوہ کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔بہتر یہی ہے کہ آپ ایئرکنڈیشنرکو 24 سے 26 ڈگری کے درمیان رکھیں اور ساتھ آہستہ رفتار سے پنکھا چلادیں۔اس عمل سے آپ کے جسم کا درجہ حرارت قابو میں رہے گا اور ساتھ بجلی کی بھی بچت ہوگی۔

تازہ ترین