• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محبتوں اور چاہتوں کا سب سے بڑا محور ماں ہوتی ہے۔ بیگم کلثوم نواز کی طویل علالت کسی ایک خاندان کا نہیں بلکہ ایک قومی المیہ ہے۔ تقریباً ایک سال قبل انہیں کینسر کا مرض لاحق ہوا تھا جس کے باعث وہ لندن کے ایک اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ بیگم کلثوم نوازکی پاکستان کی جمہوریت اور اس کی بقا کیلئے کی جانے والی کوششوں کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتااس کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن سب سے زیادہ اہم وجہ یہ ہے کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور آمریت میں وہ اس انداز سے جمہوری عمل کو جاری و ساری رکھنے کے حوالہ سے سینہ سپر ہوئیں کہ بالآخر پرویز مشرف کو مذاکرات کے راستہ پر آنے کیلئے مجبور ہونا پڑا۔ یہ وہ وقت تھا جب چودھری نثار علی خان اور چودھری شجاعت حسین سمیت بہت سے دیگر سیاستدان نواز شریف کا ساتھ چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرچکے تھے بلکہ چودھری برادران نے تو اپنا سب کچھ پرویز مشرف کو ہی سمجھ لیا تھااور چودھری نثار علی خان خاموش گوشہ نشینی اختیار کرچکے تھے اس موقع پر جب اپنے بھی پرائے ہوچکے تھے بیگم کلثوم نواز نے اپنا سیاسی کردار احسن انداز میں نبھایا انہوں نے سیاسی جدوجہد کے نتیجہ میں نہ صرف قومی سیاست کے عمل کو جاری و ساری رکھا بلکہ آمریت کی بے لگام ڈور کو بھی کھینچے رکھا۔ بیگم کلثوم نواز نے مارشل لا کے سخت دور میں اپنا کردار بڑی بہادری سے ادا کیا مارشل لا کے دور میں وہ باہر نکلیں اورپورے ملک کا دورہ کیا اس دورے کے آخر میں بیگم صاحبہ کی ایک تصویر سامنے آئی جو بعد میں مزاحمت کی ایک علامت بنی۔ بیگم کلثوم نواز جب گھر سے نکلیں تھیں تو انہیں روکنے کیلئے ان کی گاڑی کو آگے سے اٹھا دیا گیا تھا مگر کلثوم نواز اور گاڑی میں موجود دیگر افراد کئی گھنٹے تک اس میں بیٹھے رہے ۔ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی جلاوطنی کے دوران بیگم کلثوم نواز کی سیاسی جدوجہد میں صرف جاوید ہاشمی واحد لیگی رہنما تھے جو پارٹی اور اپنے قائدین کے دفاع میں بیگم کلثوم نواز کے شانہ بشانہ کھڑے تھے جس کے باعث جاوید ہاشمی کو بیگم کلثوم نوازآج بھی بے حد اہمیت دیتی ہیں۔ جاوید ہاشمی اور تہمینہ دولتانہ ان شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے ناقابل اعتبار ماحول میں بھی اپنی پارٹی سے وفاداری کو تبدیل نہیں کیااور اپنے پارٹی کے موقف پر ڈٹے رہے۔ بیگم کلثوم نواز کا ان کی صاحبزادی مریم نواز کے ساتھ موازانہ کرنا درست نہیں لیکن مریم نواز کو اپنی والدہ کا عکس اور جاں نشین ضرور کہا جاسکتا ہے کیونکہ مریم نواز کی سیاسی تربیت میں بڑا کردار ان کی والدہ بیگم کلثوم نواز کا ہے جو مصالحت کی سیاست پر یقین رکھتی ہیں۔ مریم نواز کی سیاسی تربیت والد کی نسبت والدہ کے ہاتھوں زیادہ ہوئی جنہیں چودھری نثار علی خان اور عمران خان سمیت بہت سے سیاسی رہنمائوں نے متنازع بنادیا۔ بیگم کلثوم نواز بلا شک و شبہ عوام کے دلوں میں اپنا ایک مقام رکھتی ہیں اسی لیے این اے 120جو اب این اے 125 میں تبدیل ہوچکا ہے، سے ضمنی انتخابات میں ان گنت رکاوٹوں کے باوجود تحریک انصاف کی امیدوار یاسمین راشد کے مقابلہ میں کامیاب ہوئیں اس کامیابی کے پیچھے بیگم کلثوم نواز کی صاحبزادی مریم نواز کا اہم کردار تھا لیکن این اے 120 سے کامیابی کی بڑی وجہ کلثوم نواز کا وہ ووٹ بینک تھا جو انہیں سیاسی و سماجی حلقوں میںاپنی ذاتی حیثیت میں مقبول رکھتا تھا۔میاں محمد نواز شریف کی کامیابی کے پس پردہ بیگم کلثوم نواز کی بے شمار کوششوں اور کاوشوں کا ہاتھ ہے شریف خاندان کبھی بھی کلثوم نواز کی جدوجہد اور قربانیوں کو پس پشت نہیں ڈال سکتا جس کا احساس دیگر تمام جماعتوںاور ان کے قائدین کو بھی ہے۔بیگم کلثوم نواز شریف خاندان میں ایک بائینڈنگ فورس کی حیثیت رکھتی ہیںانہوں نے اپنے شوہر سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو جس قدر بھی سیاسی مشورے دیئے وہ ناقابل تردید ہیں انہوں نے ہمیشہ اپنے شوہر کو درگزر سے کام لینے اور معاف کرنے کی پالیسی اپنائے رکھنے کا مشورہ دیا۔ بیگم کلثوم نواز اپنے مرض کے باعث آج ایسی حالت میں ہیں کہ ان کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن جمہوریت کے فروغ کیلئے ان کی کوششوں اور کاوشوں کو فراموش کرنا ناممکن ہے۔
بیگم کلثوم نواز کی علالت اور ناقابل تشویش حالت کی وجہ سے نہ صرف ان کے اہل خانہ بلکہ پاکستان کے عوام بھی افسردہ نظر آتے ہیں۔ پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما اور ملک کی نامور شخصیات بیگم کلثوم نواز کی صحت یابی کیلئے دعا گو ہیں حتیٰ کہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ نے بھی بیگم کلثوم نواز کی صحت یابی کیلئے نیک خواہشات کا اظہارکیا۔ قومی سیاست کے موجودہ حالات کو بہت زیادہ برا تو نہیں کہا جاسکتا لیکن ذاتیات پر تنقید کا کلچر کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں۔ بیگم کلثوم نواز کی علالت کو لے کر ابتدا میں منفی پروپیگنڈا ضرور کیا گیا جو بیگم کلثوم نواز کی ذاتی حیثیت کی بنا پر زیادہ طول نہ پکڑ سکا لیکن اب تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اور رہنمائوں کی جانب سے بیگم کلثوم نواز کی صحت یابی کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا جارہا ہے جو قومی سیاست میں ایک اچھا اقدام ہے کیونکہ بیگم کلثوم نوازکے علاوہ کسی بھی سیاسی رہنما کی علالت کو جواز بنا کر منفی پروپیگنڈا کرنا اخلاقی اقدار کے خلاف ہے۔ بیگم کلثوم نواز ایک سیاسی رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ کسی کی ماں اور بیوی بھی ہیں جن کے جذبات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں بیگم کلثوم نواز کی صحت یابی کیلئے نہ صرف دعا گو ہونا چاہیے بلکہ ذاتی نظریات اور مفادات بالائے طاق رکھنا چاہیے کیونکہ ماں، بہن اور بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں اور ان کے دکھ سکھ بھی سانجھے ہوتے ہیں۔ہم سب کو اپنی ماں، بہن اور بیٹیوں کی خوشحال زندگی اور صحت یابی کیلئے دعا گو رہنا چاہیے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین