پاکستانی فلم اسٹار ارمغان شاہدعرف ِعام شان شاہد کئی برسوں سے پاکستانی سینما پر چھائے ہوئے ہیں۔ 1990ء میں اپنی پہلی فلم ’بلندی‘سے شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے شان اب تک600کے قریب اردو اور پنجابی فلموں میں کام کر چکے ہیں۔
ان کی مشہور فلموں میں بلندی، نکاح، سنگم ، گھونگھٹ،وار اور خدا کے لیے شامل ہیں۔ شان نے فلموں کا آغاز بچپن میں چائلڈ اسٹار کی حیثیت سے چند چھوٹے چھوٹے کردار اداکر کے کیا۔ لیکن بلندی کو ان کی پہلی بڑی فلم سمجھا جاتا ہے جس میں انہوں نے اداکارہ ریما کے ساتھ مرکزی کردار ادا کیا۔ آج کل شان کی وجہ شہرت سلطان راہی کے انداز کی مار دھاڑ والی پنجابی فلمیں ہیں ،اسی لیے انہیں موجودہ دور کا سلطان راہی بھی کہا گیا ہے۔ وہ ماضی کی مشہور ادکارہ اور بیشمار فلموں میں مرکزی کردار ادا کرنے والی نیلو کے بیٹے ہیں۔
شان نے سلطان راہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مولا جٹ جیسی فلمیں کرنے کیلئے گنڈاسا اٹھایا تو شان کے بہت سے مداحوں کو حیرت ہوئی، لیکن آج اگر مولا جٹ کے ری میک میںفواد خان گھوڑے پر بیٹھ کربڑھکیںمارنے کیلئے تیار ہے تو یہ بات ماننا پڑے گی کہ ہماری فلم انڈسٹری اور فلم بینوں کا ایک بہت بڑا طبقہ آج بھی مولا جٹ جیسی فلموں کو پسند کرتاہے ۔ اس بابت جب شان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہاکہ مولا جٹ ہمارا ہیرو ہے۔ ہالی ووڈ اور بالی ووڈ میں بھی ہیرو پچا س گولیاںکھاکرنہیں مرتاتو لوگ قبول کرلیتےہیں اور کوئی اعتراض نہیں ہوتا، لیکن یہ لوگ سلطان راہی پر اعتراض کرتے ہیں۔ مظلوم طبقے کےلیےمولا جٹ بھی کسی سپر مین سے کم نہیں ہے۔
فلم ساز کے ساتھ ساتھ بہت سے ایسے اداکار بھی قابل ِذکر ہیں جن کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور جب بھی پاکستانی سینما کی تاریخ لکھی جائے گی تو ان کا نام ضرور لیا جائے گا اور اداکار شان کا شمار بھی ایسے ہی افراد میں کیا جاتا ہے۔
شان کی جانب سےکرداروں اور فلموں کا انتخاب چاہے کتنا ہی گھِساپٹاکیوں نہ ہو، اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی ایک مضبوط شناخت رکھتے ہیں۔سال 2007ء میں شعیب منصور کی فلم ’خدا کے لئے‘ سے پاکستانی سینما کو گویا دوبارہ زندگی ملی تھی۔ شان اس فلم کے پوسٹر بوائے تھے جو یہ بات ثابت کرنے کے لئے کافی تھا کہ شان لالی وُوڈ کے سُپر اسٹار ہیں۔
فلم ہِٹ رہی اور شان نے اپنی شاندار پرفارمنس پر سب سے تعریفیں بھی سمیٹیں لیکن اس کے بعد ایک خاموشی سی چھا گئی۔ کچھ وقفے کے بعد شان ’ظل شاہ‘ اور پھر ’عشق ِخدا‘ میں دکھائی دئیے۔ اس کے علاوہ ان کی فلم ’وار‘ بھی اسی سال ریلیز ہوئی۔ زیبا بختیار اور ان کے بیٹے اذان خان کی فلم کو بھی انہوں نے جمشید محمود کے ساتھ کو پروڈیوس کیا ہے۔
اب یہ شان کا اپنا فیصلہ تھا کہ بولی ووڈکی کئی پیشکشوں کےباوجود انھیں وہاں کام نہیں کرنا تھا۔ اس کے برعکس فواد، ماہر ہ اور علی ظفر نے وہاں کام کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس بابت شان ماضی میں یہ کہہ چکے ہیں کہ’جس کو جو طریقہ بہتر لگتا ہے اسے اپنا لینا چاہیے۔ ان تینوں کو کہیں کہ اپنی پاکستانی فلمیں انڈیا جا کر سینما گھروں میں لگائیں، اگر ایسا نہیں ہو پاتا تو ردعمل میں یہ تینوں غصہ اور ناراضگی دکھا سکتے ہیں اور نہیں بھی دکھا سکتے۔ اگر میں ان کی جگہ ہوں تو میں تو بہت غصہ کروں کہ آپ کی فلموں میں ہم کام کر رہے ہیں، اتنی تصویریں ہماری آپ کے ساتھ اخبار اور میگزین میں چھپتی ہیں، آپ کی اتنی تقاریب میں ہم شرکت کرتے ہیں، آپ جو کہتے ہیں، وہ ہم کرتے ہیں۔ میری فلم کو ذرا بھارت میں بھی ریلیز کر دیں۔ لیکن وہ نہیں لگائیں گے۔اگربھارت نے پاکستانی فلموں کی نمائش بند کی ہوئی ہے تو ہمارے یہ تینوں آرٹسٹ فواد، ماہرہ اور علی ظفر جو وہاں جاتے ہیں، اگر ان کو اس سب کا احساس نہیں ہے تو مجھے ان سے کوئی شکوہ نہیں، یہ ان کا اپنا ذاتی فیصلہ ہے۔ لیکن اگر میں ان کی جگہ پر ہوں گا تو مجھے یہ بات بہت چبھے گی کہ اگر مجھ سے اتنی دوستی ہے تو میری فلم بھارت میں کیوں نہیں لگاتے‘۔
شان کا خیال ہے کہ اگر دونوں ملکوں کی حکومتیں چاہیں تو جیسے کرکٹ کے مقابلے ہوتے ہیں اور دونوں ملکوں کے جھنڈے برابری کی سطح پر لہراتے ہیں بلکل اسی طرح یہ برابری کا اطلاق ہر چیز میں ہونا چاہیے،جن میں فلم انڈسٹری بھی شامل ہے۔ اگر کوئی پاکستانی اداکار بھارت جاتا ہے تو اس کو بھی سرکاری مہمان کا درجہ دینا چاہیے اور بھرپورسیکیورٹی ملنی چاہیے۔بھارتی اداکار جب پاکستان آتے ہیں تو ان کو سرکاری مہمان بنایا جاتا ہےجیسے کچھ عرصےقبل شتروگہن سنہا کو پروٹوکول دیا گیا تھا۔ اسی طرح جب پاکستان میں بھارتی فلمیں لگ رہی ہیں اور کوئی روک ٹوک نہیں ہے تو ہمیں بھی بھارت میں اتنی ہی مارکیٹ ملنی چاہیے جتنی پاکستان نے ان کو دی ہوئی ہے۔
بھارتی فلموں میں کام کرنے کے بارے میں شان کا کہناتھا کہ ’میرا خیال ہے کہ پاکستان میں ابھی بہت کام کرنا باقی ہے ۔ اگر میں اپنے بینک اکاؤنٹ کی طرف دیکھوں تو مجھے بھارت جا کر کام کرنا چاہیے۔پاکستان میں لوگوں کے رویے دیکھتا ہوں تو دل کرتا ہے چلا جاؤں لیکن ایک ذمہ داری ہے، ایک عہد ہے جو خود سے کیا ہوا ہے، اس مٹی سے کیا ہوا ہے، اس ملک سے کیا ہوا ہے۔شان کو پرائیڈ آف پرفارمنس ، چار نیشنل فلم ایوارڈز ، پندرہ نگار ایوارڈز ، پاکستان میڈیا ایوارڈز اور ان گنت دیگر ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے۔