پاکستان میں رہائش پذیر افراد کے بیرونی ملکوں میں رکھے ہوئے خفیہ کھاتوں کے از خود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ نے 12؍جون 2018ء کو ایک عدالتی حکم جاری کیا ہے۔ اس حکم میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی قائم کردہ 12رکنی کمیٹی نے عدالت عظمیٰ کو بتلایا ہے کہ اس کے 26؍مارچ 2018ء کے عدالتی حکم کے بعد وفاقی حکومت نے بیرونی ملکوں میں رکھے ہوئے اثاثوں کو ظاہر کرنے اور واپس لانے کے لئے 8؍اپریل 2018ء کو آرڈیننس کا اجراکیا تھا۔ ہم اس ضمن میں یہ عرض کریں گے کہ حکومت ، ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک سمیت کسی ادارے نے ملک کے اندر موجود ناجائز اثاثوں یعنی ’’ملکی پاناماز‘ کو ٹیکس ایمنسٹی دینے سے متعلق سپریم کورٹ میں کوئی بات کی ہی نہیں تھی اور نہ ہی عدالت عظمیٰ میں یہ معاملہ زیر غور آیا تھا۔ صاف ظاہر ہے کہ سپریم کورٹ کا 12؍ جون کا حکم صرف ناجائز بیرونی اثاثوں کے بارے میں ہے۔
ہم گزشتہ 20؍برسوں سے ان ہی کالموں میں کہتے رہےہیں کہ ٹیکس حکام سے خفیہ رکھے ہوئے متعدد اثاثوں کی تفصیلات ریکارڈ میں موجود ہیں اور ملک کے اندر موجود ہونے کی وجہ سے یہ اثاثے مکمل طور پر حکومت کی دسترس میں ہیں چنانچہ حکومت جب چاہے ان ناجائز اثاثوں پر ہاتھ ڈال سکتی ہے۔ ہم برس ہا برس سے ان ہی کالموں میں یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ اگر انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے ان ناجائز اثاثوں (غیرمنقولہ جائیدادوں ، گاڑیوں ، بینکوں و مالیاتی اداروں کے ڈپازٹس ، قومی بچت اسکیموں ، حکومتی تمسکات اور حصص ) کی نشاندہی کی جائے تو مروجہ قوانین کے تحت چند ماہ میں تقریباً دو ہزار ارب روپے کی اضافی وصولی ممکن ہے۔ اگر ایسا کیا جاتا تو بجلی، گیس اور پیٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں زبردست کمی کرنےسے صنعتی پیداوار کی لاگت میں کمی ہوتی اور برآمدات میں اضافہ ہوتا۔ واضح رہے کہ2017-18 میں پاکستانی برآمدات ہدف سے تقریباً 12؍ ارب ڈالر کم رہی ہیں جبکہ اسی مدت میں اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اب تک تقریباً5.8ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے۔ اگر ناجائز ملکی اثاثوں پر مروجہ قانون کے تحت ٹیکس وصول کیا جاتا تو موجودہ بحران پیدا ہی نہ ہوتا اور نہ ہی 2018ء میں حکومت کو آئی ایم ایف سے نیا قرضہ لینے کی ضرورت پڑتی۔
قوم سابق وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور موجودہ نگراں حکومت سے یہ پوچھنے کا حق رکھتی ہے کہ قومی مفادات کے تحفظ کے لئے یہ راستہ اپنانے کے بجائے وہ صرف 5فیصد ٹیکسوں کی ادائیگی پر ٹیکس چوری کرنے والوں اور قومی دولت لوٹنے والوں کو ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے قانونی تحفظ فراہم کرنے پر آخر کیوں مصر ہیں؟ یہ امر مسلمہ ہے کہ ملکی اثاثوں پر ایمنسٹی ملنے کے باوجود وطن عزیز میں نیا کالا دھن پیدا ہوتا رہے گا اور ٹیکس چوری کرنے والے اور قومی دولت لوٹنے والے بدستور مزے میں رہیں گے۔ ایف بی آر کے چیئرمین نے 23؍جون کو کہا کہ جو لوگ ناجائز اثاثوں کو ظاہر کرکے 5فیصد ٹیکس ادا نہیں کریں گے ان سے 30؍جون 2018ء کے بعد 70فیصد تک ٹیکس لیا جائے گا کیونکہ حکومت کے پاس غیرمنقولہ جائیدادوں وغیرہ کی تمام تفصیلات موجود ہیں۔ انہوں نے یہ نہیں بتلایا کہ اب تک ایسا کیوں نہیں کیاگیا۔
نگراں حکومت کی یہ ذمہ داری تھی کہ خاموشی اختیار کرنے کے بجائے 12؍جون 2018سے پہلے مندرجہ بالا حقائق سپریم کورٹ کے سامنے پیش کرتی اور استدعا کرتی کہ ناجائز ملکی اثاثوں کو دی جانے والی ایمنسٹی اسکیم کو مسترد کردیا جائے تاکہ وہ ان اثاثوں پر مروجہ قوانین کے تحت کارروائی کرکے حکومتی واجبات وصول کرنے کا عمل شروع کرسکیں۔ یہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم بلاشبہ آئین کی شق 227 سے متصادم ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کو بھی اس اسکیم کے ضمن میں ازخود نوٹس لینا چاہئے تھا کیونکہ یہ اسکیم قطعی غیراسلامی ہے۔
بیرونی ممالک میں رکھے ہوئے ناجائز اثاثوں کے ضمن میں نگراں حکومت کو بھی اچھی طرح معلوم تھا کہ متعدد قانونی و غیرقانونی طریقوں سے ملک سے بڑے پیمانے پر سرمائے کے فرار کا عمل جاری ہے۔ ا س امر میں بھی شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ اس معاملے پر سپریم کورٹ کے یکم فروری 2018ء کے از خود نوٹس سے اب تک ملک سے سرمائے کے فرار ہونے والی رقوم کا حجم اس سے کہیں زیادہ ہے جو ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے پاکستان واپس آئیں گی۔ ان حقائق کی موجودگی میں نگراں حکومت کو 12؍جون 2018ء سے پہلے سپریم کورٹ سے گزارش کرنا چاہئے تھی کہ کسی بھی قسم کی ٹیکس ایمنسٹی سے پہلے کچھ قوانین میں مزید تبدیلیاں اور کچھ موثر انتظامی اقدامات اٹھانا ضروری ہیں جوکہ صرف اگلی منتخب حکومت ہی کرسکتی ہے خصوصاً انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق (4)111 کی منسوخی اور غیر منقولہ جائیدادوں کے ڈی سی ریٹ کو مارکیٹ کے نرخ کے برابر لانا۔ شق (4)111 سے قومی خزانے کو تین ہزارارب روپے سالانہ کا نقصان ہورہا ہے۔ نگراں حکومت کی سپریم کورٹ سے یہ استدعا ہونی چاہئےتھی کہ اول، بیرونی اثاثوں کو دی جانے والی ایمنسٹی اسکیم کو معطل کردیا جائے۔
کیونکہ یہ خسارے کا سودا ہے اور دوم، انتخابات سے پہلے سپریم کورٹ ایک تفصیلی فیصلہ جاری کرے جس میں ان تمام قوانین اورضابطوں کی وضاحت کردی جائے جو اگلی حکومت کو اقتدار میں آنے کےبعد لازماً اٹھانا ہوں گے۔ اس کے بعد بیرونی ملکوں میں رکھے ہوئے ناجائز اثاثوں کے لئے نئی شرائط پرایمنسٹی اسکیم کے اجراپر غور کیا جاسکتا ہے۔ نگراں حکومت اور ایف بی آر نے دونوں ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرلی ہیں مگر ہم تو یہی کہیں گے۔
وہ جو کہتے ہیں کہ حالات بدل جائیں گے
عنقریب ان کے خیالات بدل جائیں گے
مشتاق احمد یوسفی صاحب ۔ کچھ یادیں
محترم مشتاق احمد یوسفی سے ہماری رفاقت 50برسوں پر محیط ہے۔ وہ شعبہ بینکاری میں ہمارے استاد کا درجہ رکھتے تھے۔ بینکاری کے شعبے پر ہمارا پہلا مقالہ 1973میں انگریزی زبان میں شائع ہونے والے ایک ممتاز جریدے کی زینت بنا تھا۔ یوسفی صاحب نے ٹیلیفون کرکے حوصلہ افزائی کی۔ یوسف صاحب سے دوران ملاقات گفت و شنید اردو میں اور پیشہ ور انہ معاملات پر خط و کتابت انگریزی میں ہوتی تھی۔ اب سے 22؍ برس قبل روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں ہمارے متعدد کالم پڑھنے کے بعد ایک روز یوسفی صاحب نے ہم سے دریافت کیا کہ آپ کی تحریروں کا اردو میں ترجمہ کون کرتا ہے۔ ہم نے پوچھا کہ کیا ان میں اردو صحیح نہیں ہوتی۔ فرمایا اردو تو اچھی ہوتی ہےمگر ایسا ترجمہ صرف وہ شخص ہی کرسکتا ہے جو معیشت دان ہونے کے ساتھ اردو زبان میں لکھنے کا فن بھی جانتا ہو۔ ہم نے بتلایا کہ اردو میں کالم ہم خود ہی لکھتےہیں تو انہوں نے مسرت کا اظہار کیا۔
اب سے 7برس قبل ہم نے اپنی کتاب ’’پاکستان اور امریکہ:دہشت گردی ، سیاست اور معیشت‘‘ کامسودہ ان کی خدمت میں تاثرات لکھنے کے لئے پیش کیا تو ضعیف العمری کے باوجود طویل رفاقت کی بنا پر وہ بخوشی راضی ہوگئے۔ کتاب کے بارے میں یوسفی صاحب کے مندرجہ ذیل تاثرات میں الفاظ کے موتی بکھرے نظر آتے ہیں۔
’’زیر نظر کتاب میں ایک تجربہ کار بینکر اور ممتاز ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے معاشی و سلامتی امور و مسائل پر جس جرآت ، تسلسل اور دلنشیں انداز میں تجزیہ و تبصرہ کیا ہے وہ لائق ستائش ہے۔ ادق اور پیچیدہ موضوعات پر سلیس اور عام فہم اسلوب و زبان میں خامہ فرسائی کی وہ قابل رشک مہارت و ملکہ رکھتے ہیں۔ مقطع میں سخن گسترانہ بات آجائے تو وہ اس کے اظہار و اعلان میں مصلحت اندیشانہ تامل و گریز سے کام نہیں لیتے۔ امید ہے کہ یہ معلومات افزااور خیا ل انگیز کتاب دلچسپی سے پڑھی جائے گی۔
مشتاق احمد یوسفی
یوسفی صاحب ہمارے درمیان نہیں رہے مگر عہد یوسفی ختم نہیں ہوگا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)