• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلڈ مون

صادقہ خان

قدیم ماورائی داستانوں میں مرکزی کردار عموما ًما فوق الفطرت ہوا کرتے تھے جن کا حقیقت سے دور تک کوئی واسطہ نہیں ہوتا تھا۔ان ہی میں سے ایک داستان سول (سورج ) اورمانی (چاند)کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سول اور مانی دو بھا ئی تھے جو اکثر اپنی بگھی میں بیٹھ کر آسمان کی سیر کو جایا کر تے تھے ۔کچھ عرصے بعد دیوتاؤں نے دن اور رات کے حصے ان دونوں کو مختص کر دیئے۔یعنی سول دن میں اور مانی رات میں آسمان کی سیرپر جایا کریں گے ۔ اسی کہانی کے دو مزید کردار سکول اورہیٹی نامی دو بھیڑ یے تھے جو آسمان پر سول اور مانی کا پیچھا کیا کرتے تھے ۔ ایک دفعہ وہ مانی کو پکڑ نے میں کا میاب ہو گئے۔در حقیقت اس روز چاند گرہن تھا جسے لا علمی اور دقیا نوسیت کے سبب نیا رنگ دے کر پیش کیا گیا ۔ آگے بیان کیا جاتا ہے کہ لوگوں نے مانی کو سکول کے چنگل سے نکالنے کے لیے بے انتہا چیخ و پکار کی، تاکہ بھیڑ یئے ڈر کر بھا گ جائیں ، مگر شعور و آگہی کے فقدان کے با وجود اس دور کے چند با شعور افراد کو یہ احساس ہوا کہ چاند اور سورج گرہن سے ایک خاص وقفے کے بعد دوبارہ نمودار ہو جاتے ہیں جن کا تعلق لوگوں کی چیخ و پکار سے قطعاً نہیں ہوتا ۔ مزید یہ کہ گرہن اتفاقیہ نہیں ہوتے بلکہ ایک مخصوص طریقہ ٔکار پر خود کو دہراتے رہتے ہیں ۔

قدیم چینی اور آئس لینڈ کی تہذیب میں ایسی کئی کہا نیا ں بیان کی گئی ہیں جب جیوتشی سورج اور چاند گرہن کی درست پیشںگوئی کرنے سے قاصر رہے تو نتیجتاًانہیں تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا ۔دو اگست 1133 کے سورج گرہن کے بعد شاہ ہنری انتقال کر گئے، جس سے ان افواہوں کو تقویت ملی کہ گرہن شہنشاہ ِوقت کی صحت اور مملکتی امورپر براہ ِ را ست اثر انداز ہوتے ہیں۔

پہلی دفعہ 585 قبل مسیح میں ایک مصری فلاسفر تھیلز آف مائلیٹس نے گرہن کی درست پیش گوئی کی تھی ،جس کا تعلق آیونہ کے علاقے سے تھا جو اس دور میں روشن خیال لوگوں کا مرکز کہلاتا تھا ۔ اگرچہ قدیم بابل کے رہنے وا لے بھی گرہن کی درست پیش گوئی کرلیا کرتے تھے ،مگر انھیں یہ علم نہیں تھا کہ گرہن کے رونما ہونے کی اصل وجہ زمین کا سورج کی روشنی روک لینا ہے۔ قدیم زمانے میں افریقا کے ٹوگو اور بینین قبائل میں یہ تصور عام تھا کہ سورج اور چاند دراصل دو دیوتا ہیں جن کے درمیان اکثر و بیشتر خونی جنگیں ہوتی رہتی ہیں، جس کے باعث بعض اوقات چاند کا رنگ سرخی مائل ہو جاتا ہے۔ ( اسٹیفن ہاکنگ کی کتاب 'دی گرینڈ ڈیزائن سے اقتباس )

تقریباً2600 سال پہلے تبدیلی کا آغاز اس تصور کے ساتھ ہوا کہ قدرت اصول وضوابط کے مطابق عمل کرتی ہے اورزمین پر ونماہونی والی آفات کا سورج یا چاند گرہن سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ تاریخی حوالوں کے مطابق مصری حساب دان اور ماہر ِ فلکیات ارسٹارچس وہ پہلا شخص تھا، جس نے چاندگرہن کے دوران زمین کے بننے والے سائے سے اس کے سائز کا مشاہدہ کیا تھا اور حاصل شدہ ڈیٹا سے اس نے یہ نتائج اخذ کیےکہ سورج ،زمین سے سائز میں بہت بڑا ہے اور ہمارے نظام شمسی کا مرکز زمین نہیں بلکہ اور دوسرے سیارے سورج کے گرد گرد ش کرتے ہیں۔

بلڈ مون

انسان کے مہم جو فطرت اور غیر معمولی تجسس ہر دور میں آسمانوں میں رونما ہونے والی انوکھی تبدیلیوں پر غور و فکر کرنے پر اُکساتے رہے ہیں، جن میں چاند اور سورج گرہن قابل ِ ذکر ہیں ۔ یوں تحقیق و جستجو کا سفر جاری رہا اور ایڈ منڈ ہیلی کے دریافت کیے گئے طریقۂ کار کے کئی صد یو ں بعد ارسٹارچس نے گرہن کے دوران زمین کا سورج ا و رچاند سے متعلقہ فاصلہ ناپنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد ہی چاند گرہن کی سائنسی توجہہ پیش کی گئی کہ ایک مکمل گرہن اس وقت رونما ہوتا ہے جب زمین اپنے مدار میں گردش کرتے ہوئے کچھ وقت کے لیے سورج اور چاند کے درمیان حائل ہوجاتی ہے، زمین کا جو سایہ چاند پر پڑتا ہے فلکیاتی اصطلاح میں اسے’’ 'امبرا‘‘ 'کہا جاتا ہے۔ اسی کے باعث گرہن کے دوران بعض اوقات چاند سرخی مائل ، اورنج یا خونی دکھائی دیتا ہے اور مکمل گرہن کے وقت بھی چاند پوری طرح نظروں سے اوجھل نہیں ہوتا ۔ اسے فلکیات کی اصطلاح میں '’’بلڈ مون‘‘ کہا جاتا ہے۔ دراصل چاند گرہن کے دوران جب زمین کے سائے کے مرکز سے گزر رہا ہوتا ہے تو فضا میں موجود ست رنگی روشنی (ا سپکیٹرم) میں سے سبز اور ویولٹ (اودا) رنگ فلٹر ہوجاتے ہیں ۔ جسے طبیعیات میں’’ 'رےلیگ سکیٹرنگ ‘‘کہا جاتا ہے۔ اس ہی کی وجہ سے بعض اوقات سورج غروب ہونے کے وقت آسمان سرخی مائل دکھائی دیتا ہے۔ 31جنوری 2018 کی شب کو جو سرخی مائل چاند دنیا بھر میں مشاہدہ کیا گیا تھا وہ اس حوالے سے منفرد تھا کہ اس روز سپر مون بھی تھا ، جس میں چاند زمین سے قریب ترین مقام 'پیریگی پر ہونے کے باعث معمول کے سائز سے زیادہ بڑا اور روشن دکھائی دیتا ہے اور چوںکہ اس روز چاند گرہن بھی تھا اور مخصوص روشنیاں فلٹر ہوجانے کے باعث وہ سپر مون سرخی مائل دکھائی دیا تھا۔ اس طرح کا عمل ہر 150 سال بعد مشاہدہ کیا جاتا ہے۔

دنیا بھر سے فلکیات کے شیدائی افرا دکے لیے جولائی کا مہینہ ایک اور نادر منظر لیے وارد ہونے والا ہے۔ 27 جولائی 2018 کو ایک دفعہ پھر زمین ، سورج اور چاند کے درمیان کچھ وقت کے لیےحائل ہونے والی ہے، جسے اس صدی کا طویل ترین مکمل چاند گرہن قرار دیا جا رہا ہے، جس کا دورانیہ ایک گھنٹہ 43 منٹ ہوگا ۔ ماہرین کے مطابق ایک مکمل گرہن کو ابتدا سے اختتام تک پہنچنے میں تقریباً 4 گھنٹے لگتے ہیں ۔ 27 جولائی کو چوں کہ زمین ، سورج کے گرد اپنے مدار میں دور ترین مقام پر ہو گی ،اس وجہ سے اس کا سایہ امبرا ' بھی بڑا ہوگا۔ سائنس کی معمولی معلومات رکھنے والا شخص بھی اس امر سے واقف ہے کہ جب سورج ہمارے عین سر پر ہو تو سایہ چھوٹا بنتا ہے لیکن شام میں سائے نسبتاً لمبے ہو جاتے ہیں، اسی طرح چاند پر پڑنے والے زمین کے سائے امبرا کو بھی سمجھا جا سکتا ہے جو چاند گرہن کا سبب بنتا ہے ۔ 27جولائی کو ہونے والے چاند گرہن کے طویل ترین ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس روز چاند گرہن اور لونر اپوگی ایک ساتھ واقع ہوں گے ۔ چاند جب ماہانہ گردش کے دوران اپنے مدار میں زمین سے دور ترین مقام پر ہو تو اسے فلکیات کی اصطلاح میں’’ لونر اپوگی‘‘ کہا جاتا ہے۔لہٰذا یہ تمام عوامل اکھٹے ہوکر لگ بھگ دو گھنٹے پر مشتمل مکمل چاند گرہن کا باعث بنیں گے، جب کہ جزوی چاند گرہن چار گھنٹے سے زائد کے دورانیے کا ہوگا ۔

بلڈ مون

عموما ًجس جزوی یا مکمل چاند گرہن کا مشاہدہ ہم کرتے ہیں اس میں چاند زمین سے قریب ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ بڑا دکھائی دیتا ہے اور زمین کے گرد مدار میں اس کی گردش بھی تیز ہوتی ہے، لیکن 27 جو لائی 2018 کو رونما ہونے والا بلڈ مون چوں کہ چاند اپوگی کے مقام پر ہوگا۔ اس لیے چاند قدرے چھوٹا ، سست رفتار ہوگا اور یوں گرہن کو مکمل ہونے میں معمول سے زیادہ وقت لگے گا۔ اس طرح کے مکمل گرہن کو اپوگی فُل مون یا مائیکرو مون بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے پہلے 16 جولائی 2000 کو بھی ایسا ہی اپوگی فُل مون ہوا تھا ،جس کا دورانیہ ایک گھنٹہ 46 منٹ اور 4 سیکنڈ تھا ،جب کہ اب تک کا طویل ترین مکمل چاند گرہن ایک گھنٹہ 47 منٹ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

27 جولائی 2018کے بلڈ مون کو یورپ، افریقا ، ایشیاء، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں با آسانی دیکھا جاسکے گا۔اگرچہ جنوبی امریکا اور نیوزی لینڈ میں بلڈ مون کا مشاہدہ تو نہیں کیا جاسکے گا، کیونکہ جنوبی امریکا میں صرف آخری فیز اور نیوزی لینڈ کے بیشتر علاقوں میں گرہن کے ابتدائی فیز کو دیکھا جاسکے گا۔ جب کہ شمالی امریکا، پیسیفک اوشین،اور انٹار کٹیکا میں رہائش پزیر فلکیات کے ماہرین اس صدی کے طویل ترین سرخی مائل چاند گرہن کو دیکھنے سے محروم رہیں گے۔ یہ بلڈ مون جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک سمیت پاکستان میں بھی دیکھا جا سکے گا ،جس کا آغاز مقامی وقت کے مطابق رات 8 بج کر 14 منٹ پر اور اختتام علی الصبح 4 بج کر 28 منٹ پر ہوگا ۔ یوں پاکستان میں اس گرہن کا کل دورانیہ 6 گھنٹے 14 منٹ ہوگا ،جو اپنی نوعیت کے حوالے سے منفرد ہوگا۔ پاکستان بھر کی فلکیاتی سوسائٹیز جن میں لاہور ایسٹرا نا میکل سوسائٹی اور کراچی ایسٹرانامرز سوسائٹی قابل ِ ذکر ہیں ، ہمیشہ کی طرح پبلک کے لیےاس گرہن کا دوربین سے مشاہدہ کرنے کا خصوصی انتظام کریں گی، جب کہ اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ کی فلکیاتی سوسائٹیز اس منفرد اور تاریخی گرہن کی تصاویر لینے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین