• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خوب صورت اور زرخیز ’’گوٹھ غلام رسول آرائیں‘‘

خوب صورت اور زرخیز ’’گوٹھ غلام رسول آرائیں‘‘

پاکستان کے دوسرے صوبوں کی طرح سندھ بھی اپنی مخصوص ثقافت، رہن سہن کے انداز اور جغرافیائی حالات کے اعتبار سے منفرد خصوصیات اور انداز کا حامل ہے۔ گوٹھ غلام رسول آرائیں کا شمار سندھ کے تاریخی اور روحانی مراکز میں ہوتا ہے۔ یہاں میاں احمد شاہ کی خانقاہ ہے۔ گوٹھ غلام رسول آرائیںٹنڈوالہ یار اسٹیشن سے تقریباً ڈھائی کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ ٹنڈو الہ یار اسٹیشن سے گوٹھ غلام رسول آرائیں تک پہنچنے کے لیے اسٹیشن پر تانگے ملتے ہیں، ہر تانگے والے کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ مسافر اسی کے تانگے میںسفر کریں۔ 

اگر آپ صبح سویرے اسٹیشن پر پہنچ جائیں تو سفر کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔ کچھ سفر طے کرنے کے بعد راستے میں ایک بڑی نہر آتی ہے، جس کے اطراف بڑے بڑے درخت اور ہریالی نظر آئے گی، اگر کوئی مصوّر اس جگہ سے گزر ے تو یقیناً اس منظر کو کینوس میں محفوظ کرلے گا۔ نہر کے پل سے تانگہ اپنا سفر طے کرتا ہوا گوٹھ غلام رسول آرئیں کی طرف رواں دواں ہوتاہے۔ ٹنڈو الہ یار سے کچھ فاصلے کے بعد کھیتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، پتلی سی سڑک کے دونوں طرف وسیع و عریض علاقے میں سبزہ ہی سبزہ پھیلا نظر آتا ہے۔ آموں کے درختوں کے جھنڈ ، سندھ کے علاقوں کی منفرد پہچان ہیں۔ دور کھیتوں کے اطراف آموں کے درختوں کا سلسلہ نظر آتا ہےاور اس کے پیچھے جھانکتی سورج کی کرنیں اور پھیلی ہوئی ہلکی سی دھند خوب صورت منظر پیش کرتی ہے۔

پگڈنڈیوں پر غریب کسان اپنے کھیتوں کی جانب رواں دواں ہوتے ہیں، تاکہ ہمارے پیٹ بھرنے کے لیے اناج اُگائیں، جب کہ وہ خود بوسیدہ لباس اور پھٹے پرانے جوتے پہنے ، روکھی سوکھی کھا رہے ہوتے ہیں۔ اب یہ منظر دیکھیے کہ غلام رسول کے باسی بیدار ہو چکے ہیں، پتلی سی پکی سڑک پر کبھی ٹریکٹر ، کبھی بیل گاڑی ، کبھی تیز رفتار سوزوکی مسافروں کو لیے اپنی منزل کی طرف گامزن ہے ، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ زندگی کی تیز رفتاری کا اثر اب دیہی زندگی پربھی پڑ رہا ہے۔ سر سبز کھیت سڑک کے دونوں جانب دور تک پھیلے نظر آرہے ہیں کہیں کہیں سر سبز کھیتوں کے درمیان وسیع و عریض مٹی کے گھر بنے ہیں، کہیں پگڈنڈیاں اور کہیںکھیتوں تک پانی پہنچانے کے لیے چھوٹی چھوٹی نہری نالیوں کے ذراآگے سڑک کے ایک سمت ٹیوب ویل لگا ہے۔ یہاں کی خاص پیداوار گندم، کپاس، چاول، جوار، گنّا، آموں کے باغات اور دوسری سبزیاں ہیں۔ سرسوں کا ساگ تو یہاں کے لوگ پکاتے بھی بہت مزیدار ہیں، اس کے علاوہ سرسوں کے کھیت دور سے ایسے نظر آتے ہیںجیسےسبزپتوں اور پیلے پھولوں کا قالین بچھا ہو، گنّےکے رس سے یہاں گڑ تیار کیا جاتا ہے۔

خوب صورت اور زرخیز ’’گوٹھ غلام رسول آرائیں‘‘

کھیتوں کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد کچے مکانات پر مشتمل آبادی کا سلسہ شروع ہو جاتا ہے، یہاں گرمیوں میں شدید گرمی اور سردیوں میں سخت سردی پڑتی ہے۔اس کی وجہ سے سرخ اینٹوں یا کچی مٹی کے مکانات بنائے جاتے ہیں، پرانے تمام مکانات کچی مٹی کے بنے ہوئے ہیں، پرانی طرز کےبنے ہوئے کشادہ مکانات بڑے بڑے بر آمدے اور وسیع و عریض صحن پر مشتمل ہوتے ہیں۔ مٹی سے بنے ہوئے گھروں کی چھتیں لکڑی سے بنی ہوئی ہیں ، جس کے اوپر مٹی کی موٹی سی تہ ہوتی ہے، چھت کی مضبوطی کے لیے لکڑی کی بَلّی ہوتی ہے جس کے اوپر نہایت خوب صورت نقش و نگار بنے ہوتے ہیں، جووہاں کے قدیم باسیوں کی محنت اور ثقافت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 

مٹی کی ان دیواروں کی چوڑائی ڈیڑھ فٹ سے کم نہیں ہوتی۔ یہاں کی خواتین بہت محنتی ہیں، کرتے کی کڑھائی، سوئٹر اور رلی بنانا جیسے محنت طلب اور دیدہ ریزی کے کام بہت نفاست اور خوب صورتی سے کرتی ہیں۔ عام طور پر خواتین شلوار قمیص پہنتی ہیںسندھی ٹوپی اورپٹّکا یہاں کے مردوںکا پہناواہے ۔ گوٹھ غلام رسول آرائیں، اب ترقی کر چکا ہے، یہاں پر لڑکے اور لڑکیوں کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت گوٹھ والوں نے اسکول تعمیر کروایا ہے، جس کے لیے فرنیچر بھی گاؤں والوں نے دیا ہےاور یہاں بجلی بھی موجود ہے۔ حال ہی میں ایک سرکاری اسپتال منظور ہوا ہے۔ 

سندھ کے تمام شہروں کی طرح یہاں بھی روز مرہ کی ضروریات کی تقریباً ہر چیز مل جاتی ہے، یہاں پر منگنی اور شادی بیاہ کی تقریبات عموماً رات دس بجے ہوتی ہیں۔ غرض کہ گوٹھ غلام رسول آرائیں ایک خوب صورت اور زرخیز گاؤں ہے جو سندھ کی تہذیب، لوک ورثے اور روایات کی عکاسی کے ساتھ ساتھ اپنی تمام تر دل کشی کا منہ بولتا ثبوت ہےاور یہاں گاؤں والوں کا اتفاق تو ناقابل فراموش ہے، یہاں جس طرح لوگ شِیر و شکر ہوکر رہتے ہیں اگر پورے ملک میں اتحاد و محبت کا یہ دور دورہ ہو جائے تو کیا ہی بات ہے۔

تازہ ترین