پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار یہ انوکھی صورتحال پیدا ہوتی دکھائی دے رہی ہے کہ پولنگ کے دن گزشتہ انتخابات جیت کر حکومت بنانے اور موجودہ نگراں حکومت کو اقتدار منتقل کرنے والی سیاسی جماعت کا سربراہ جیل میں اپنی بیٹی کے ساتھ سزا کاٹ رہا ہوگا! اگرچہ ملک کے سیاسی و عوامی حلقوں میں اکثریت کو اندازہ تھا کہ اِس مقدمے میں سزا سنائی جاسکتی ہے لیکن میاں نوازشریف کے ماضی کے تناظر میں عمومی طور پر اُن سے یہ توقعہ نہیں کی جارہی تھی کہ وہ اِس فیصلے کے بعد وطن لوٹنے کی ہمت کرسکتے ہیں۔ لیکن اب اگر اِن کے لوٹنے کی خبر صحیح ہے تو بلاشبہ یہ رواں سال کی سب سے بڑی سیاسی خبر ہے اور ساتھ ہی ساتھ ملک کی سیاسی تاریخ میں ایک نیا موڑ بھی ہے۔
نواز و مریم کی واپسی کی صورت میں ریاستی مشینری کا ایک غیر معمولی حصہ انتخابات سے متعلق منصوبوں پر عمل درآمد یقینی بنانے پرکسی طور صرف نہیں ہوسکے گا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ تمام سیکورٹی اور خفیہ ادارے، بیوروکریسی، پولیس اور سول انتظامیہ کو اِن کی آمد اور پھر اِن دونوں کی قید کے دوران انتخابی مہمات اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات سے نمٹنے کیلئے مستقل مصروف رہنا پڑے گا۔
ملک میں انتخابات کی روایتی نزاکتوں، سیاسی حساسیت اور پولنگ اسٹیشنز کی غیر معمولی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی درخواست پر پہلے ہی ساڑھے تین لاکھ سے زائدفوجی اہلکاروں کی تعیناتی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایسی صورتحال میں باپ اور بیٹی کی یہ واپسی انتخابی ماحول کی حساسیت میں غیر معمولی اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔
مختلف سیاسی جماعتوں کے لئے نوازو مریم کی آمد کو باعث تشویش سمجھاجا نا فطری ہے۔خاص طور پر اِن کے انتخابی حریفوں کے لئے یہ پیش رفت یقینی طور پر ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اگرچہ اِس نئی صورتحال کے انتخابی نتائج پر ممکنہ اثرات کے حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن ایسی صورت میں ووٹرز اور ملک کے بااثرذہنوں کا بٹ جانا، ہر نواز مخالف امیدوار و جماعت کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے، کیوں کہ یہ دنیا کا وہ خطہ ہے جہاں سیاسی کامیابی کے لئے ووٹرز کی مستقل حمایت کے ساتھ ساتھ بااثر ذہنوں اور شخصیات کی توجہ اور شفقت کا دستیاب ہونا بھی ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔
انتظامیہ کے لئے نوازومریم کی واپسی، یہاں پہنچنے پر اِن کی گرفتاری، گرفتاری پر نون لیگ یا دیگر عناصر کی جانب سے ممکنہ ردعمل، جیل میں دونوں کی منتقلی اور سیکورٹی انتظامات جیسے معاملات سے نمٹنے کے لئے بھاری سے بھاری نفری کی تعیناتی بھی کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ البتہ انتخابی و ممکنہ احتجاجی مہمات کے دوران تمام اَہم اداروں کے سربراہان اور بااثر افسران و ماہرین کی اکثریت کے پاس ان کی آمد و قید سے متعلق معاملات کے سوا کسی اور ایجنڈے یا شخصیت پر توجہ دینا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ لہٰذا یہ حالات خود نون لیگ کے سوا ملک کے ہر ادارے، ہر سیاست داں اور ہر سیاسی جماعت کے لئے مستقل زحمت کا باعث بن سکتے ہیں۔
قوی امکان ہے کہ قید کے دوران اپنے سیاسی ساتھیوں، کارکنوں، حمایتیوں، عزیزوں اور رشتے داروں سے رابطوں کی مستقل نگرانی، جیل سے عدالت تک آنے جانے کے سفر کے انتظامات اور سیکورٹی جیسے معاملات انتخابات تک نگراں انتظامیہ اور اداروں کے لئے شدید اور مستقل درد سر کا سبب بنے رہیں گے۔ ایسے میں نون لیگ کے حریفوں کی اپنی انتخابی مہمات میں درکار سیکورٹی اور دیگر سہولتوں میں ناقابل یقین حد تک کمی واقع ہوسکتی ہے۔
دوسری جانب میاں نوازشریف کے جیل سے جاری ہونے والے اعلانات و بیانات پر اِن کے حمایتیوں، نیوز اور سوشل میڈیا، مخالفین اور عوام کے ساتھ ساتھ متعلقہ اداروں کی جانب سے ردعمل کے امکانات عام حالات کے مقابلے میں کہیں زیادہ قوی ہوسکتے ہیں خاص طور پر پولنگ کا دن آنے تک ٹی وی پر نیوز بلیٹن، ٹاک شوز، اخباری کالم اور مضامین، سوشل میڈیا اور عام محفلوں میں نون لیگ، نوازو مریم کی سزا اور قید اور اس پر دنیا بھر کے ردعمل پر مبنی موضوعات نمایاں طور پر زیر بحث رہیں گے۔ ایسے میں نون لیگ پر کسی بھی قسم کی پابندی یا کسی پارٹی رہنما کے خلاف انتظامیہ کا نرم یا گرم روّیہ نون لیگ کو دوبار فیصلہ کن حد تک فعال بنانے میں بنیادی کردار ادا کرسکتا ہے۔
یہ بھی اب کم وبیش واضح ہے کہ 25جولائی تک نون لیگ کے ہر جلسے اور ریلی میں انتخابی مہم اور احتجاج کا ملا جلا رنگ دکھائی دیتا رہے گا:بڑھتی ہوئی اِن سرگرمیوں کو چھوٹے بڑے کریک ڈائون کے ذریعے کنٹرول کرنے کے امکانات بعید از قیاس نہیں! ایسی صورتحال میں خدا نخواستہ ایک جانب شرپسندوں کو قانون ہاتھ میں لینے کی کھلی چھٹی حاصل ہوگئی تو دوسری جانب نون لیگ کو عوام کے نچلے اکثریتی طبقے کی قربت اور ہمدردیاں حاصل ہوسکتی ہیں: یعنی وہی طبقہ جو گزشتہ چند ماہ سے کسی مثبت سیاسی تبدیلی کی علامت کے طور پر (ضیاءالحق کے کندھوں پر سوار ہو کر سیاست میں قدم رکھنے والے) نوازشریف کی بلاواسطہ سیاسی پرورش کررہا ہے۔ یعنی حالیہ پیش رفت کے تناظرمیں اب نون لیگ کے خلاف کچھ بھی ہوتا رہے یہ جماعت اور شریف خاندان سیاسی طور پر مضبوط ہوتے نظر آرہے ہیں۔
خاص بات یہ ہے کہ یہ پیش رفت نون لیگ کے تمام انتخابی حریفوں میں جیپ کے انتخابی نشان والے آزاد امیدواروں کیلئے سب سے بڑا خطرہ بنتی دکھائی دے رہی ہے۔ جیپ کا نشان حاصل کرنے والوں میں زیادہ تر نون لیگ سے کنارہ کشی اختیار کرنے والے آزاد امیدوار شامل ہیں۔ نواز و مریم کی آمد اِن جیپ برداروں کے لئے شدید نفسیاتی انتشار کا سبب بنی رہ سکتی ہے کیوں کہ شاید ان کو کسی جانب سے انتخابی کامیابی کا بھرپور یقین دلایا گیا تھا۔
پاکستان میں سیاستدانوں کے خلاف مقدمہ سازی اور سزائوں کے فیصلے کوئی نئی بات نہیں! لیکن ملک کی سیاسی تاریخ میں کبھی کوئی سیاست دان برسر اقتدار حکومت سے سودے بازی کئے بغیر وطن آکر اپنے خلاف مقدمات یا سزا ئوں کا سامنا کرنے کی جرات نہیں کرسکا ہے ۔ آج اگر البتہ کسی کو یہ روایت توڑ کر ملک کے موجودہ سیاسی منظر نامے کو بدل ڈالنے کا موقع حاصل ہے تو وہ یقیناً میاں نوازشریف اور اِنکی صاحبزادی مریم نواز ہی ہیں۔ اَب اگر اِن میں سے کسی ایک نے بھی اپنی واپسی کے فیصلے میں کوئی بڑی ردوبدل کرنے کی کوشش کی یا اِنکے کارکنان نے اِنکے استقبال اور حمایت میں ثابت قدمی کا مظاہرہ نہیں کیا تو شاید مستقبل میں شہر لاہور کے باہر نون لیگ اور شریفوں کے نام کا استعمال صرف سرگوشیوں تک محدود ہوکر رہ جائے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)