ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں گو کہ اب محض کم وبیش دو ہفتے رہ گئے ہیں لیکن اس کے باوجود بعض حلقے انتخابات کے وقت مقررہ پر انعقاد کے حوالے سے متذبذب اور خدشات کا شکار دکھائی دیتے ہیں تاہم اس موقع پر پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی۔ ایس۔پی۔ آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے میڈیا بریفنگ میں اس تناظر میں کیے گئے متعدد سوالوں کا جواب دیتے ہوئے اس بات پر مہرتصدیق ثبت کردی ہے کہ ملک میں ہونے والے عام انتخابات وقت مقررہ 25 جولائی 2018 کو ہی ہوں گے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے پاک فوج سے جو تعاون مانگا تھا وہ بھرپور طریقے سے اپنی قومی ذمہ داری کے طور پر ادا کیا جائے گا۔وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پرہی کیا موقوف اس وقت پورے ملک میں ہی بے چینی اور بے یقینی کی فضاء ہے اور اس فضا ءمیں ہی لوگ 25 جولائی کو ملک میں عام انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں قیاس آرائیاں اور خدشات عروج پر ہیں اور افواہیں ہیں کہ تھمنے کو ہی نہیں آتیں ان سچی افواہوں کی حقیقت سے ملک کی سیاسی اشرافیہ بھی اور انتظامی اشرافیہ بھی دونوں ہی بدحال ہیں اور اس صورتحال میں یہ ہفتہ کیسا رہے گانہیں بلکہ 25 جولائی تک ہر دن اہم ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو کوئی غلط نہیں ہوگا کہ ہر دن ہر پہر اہم ہے ۔ طے شدہ شیڈول کے مطابق کل بروز جمعہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی مریم نواز لندن سے وطن واپس پہنچ رہے ہیں انہوں نے اپنی شریک حیات اور ایک بیٹی نے اپنی ماں کو موت اور زندگی کے دوراہے پر چھوڑ کر وطن واپس آنے کا فیصلہ کس کرب میں کیا یقیناً اس کا اندازہ ایک شوہر اور بیٹی کو ہی ہوسکتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اُن کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن ہی نہ ہو۔ ملک میں ہونے والے عام انتخابات اب محض چند دنوں کی مسافت پر ہیں اور پارٹی کی قیادت دونوں باپ بیٹی کررہے ہیں اُن کی ملک میں عدم موجودگی سے ایک طرف تو کارکنوں کا مورال نچلی سطح پر آرہا تھا تو دوسری طرف الیکشن میں حصہ لینے والے مسلم لیگی رہنماؤں کے بارے میں یہ اطلاعات بھی سامنے آرہی ہیں کہ اُن کی ساری توجہ انتخابات میں اپنی فتح پر فوکس ہوچکی ہے کئی رہنماؤں کے بارے میں تو یہ شنید بھی ہے کہ اُنہیں جماعت سے مقدم اپنی جیت ہے ۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز نے وطن واپس آنے کا فیصلہ کرکے اپنی جماعت اور اپنے سیاسی مستقبل کے حق میں ایک انتہائی اہم اور بڑا فیصلہ کیا ہے لیکن اس فیصلے کی اُنہیں کتنی بڑی قیمت ادا کرنا پڑے گی یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ اگر عدالتوں نے اُن کی سزاؤں کو برقرار رکھا اور اُنہیں کسی قسم کا ریلیف نہ ملا تو دس سال کا عرصہ سیاست میں بڑا طویل ہوتا ہے جبکہ مریم نواز کی پارلیمانی سیاست میں جس کا آغاز ہونے سے پیشتر ہی اختتام ہوگیا اُنہیں بھی کسی پارلیمانی ایوان میں جانے کے لیے کئی سال انتظار کرنا پڑے گا۔ بعض مسلم لیگی رہنما یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ میاں نواز شریف کی وطن واپسی کے موقع پر لاہور ائیرپورٹ پراُن کے استقبال کے لیے لوگوں کی اتنی بڑی تعداد ہوگی کہ لوگ 1986 میں جلاوطنی کے بعد بےنظیر بھٹو کے استقبال کے مناظر ، لوگوں کی تعداد اور جوش وخروش کے منظر بھول جائیں گے لیکن کل کیا ہوگا۔ یہ کل ہی پتہ چل جائے گا کہ اتنا ضرور ہے کہ وطن واپسی کے حوالے سے مریم نواز کی تجویز تھی کہ لندن سے براہ راست اسلام آباد جانے کی بجائے پہلے لاہور لینڈ کیا جائے اور پھر وہاں سے بذریعہ سڑک ہزاروں ، لاکھوں کے جلوس میں اسلام آباد روانہ ہوا جائے۔ اُنہیں یہ یقین تھا کہ جب لوگوں کی اتنی بڑی تعداد لاہور سے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوگی تو شاید ’’گوجرانوالہ‘‘ پہنچنے تک مذاکرات کا عمل شروع ہوجائے۔ یقیناً ان کے ذہن میں ماضی میں عدلیہ کی تحریک کا حوالہ ہوگا۔ لیکن صورتحال چونکہ اس مرتبہ مختلف ہے اس لیے اُن کی اس تجویز پر عمل نہیں ہوا۔ تاہم ایک ذریعے کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ تجویز صرف مریم نواز کی نہیں بلکہ پاکستان سے گئے ہوئے لندن میں موجود ایک دو دیگر رہنماؤں کی تھی مریم نواز نے اس سے اتفاق کیا تھا اور اسی لیے لندن سے اسلام آباد آنے کا پروگرام تبدیل کرکے لاہور اُترنے کا فیصلہ کیا گیا۔یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اپنے غیر سیاسی مخالفین کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ تم صرف تین سال کے لیے آتے ہو جبکہ ہم نے ساری زندگی سیاست کرنی ہے اگر ہمارے معاملات میں مداخلت بند نہ کی تو تمہاری اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی اور پھر انہوں نے اپنے ایک ٹی۔وی انٹرویو میں ایک سوال کے جواب میں یہ بھی کہا تھا کہ حالات بدلتے دیر نہیں لگتی ایسا نہ ہو کہ جس طرح ماضی میں سیف الرحمان میرے پیروں پر گرا تھا اس حکومت (مسلم لیگ (ن) کے لوگ بھی میرے پیروں پر گریں، جس پر اُن سے پوچھاگیا کہ آپ چیئرمین نیب (چوہدری قمرالزمان) کو دھمکی دے رہے ہیں تو آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ نیب کے چیئرمین کی کیا حیثیت ہے کہ وہ میرے خلاف کوئی کیس بنائے میں اس حکومت مسلم لیگ(ن) کے وزیروں کی بات کررہا ہوں۔ آصف علی زرداری نے بالکل ٹھیک کہا تھا کہ حالات بدلتے دیر نہیں لگتی اور اب حالات یہ ہیں کہ ایف آئی اے نے پہلے ایک نجی بینک کے سربراہ اور آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی حسین لوائی کو منی لانڈرنگ کیس میں بیان ریکارڈ کرانے کے لیے طلب کیا جہاں اُنہیں باقاعدہ گرفتار کرلیا گیا،اُن کے خلاف جعلی اور گمنامی اکاؤنٹس کی تحقیقات ہورہی ہیں ۔ واقفان حال نے حسین لوائی کی گرفتاری کو فوری بعد ہی آصف علی زرداری کے خلاف کارروائی کی ابتدا قرار دے دیا تھا اور اب لگتا ہے کہ ’’باپ بیٹی‘‘ کے بعد ’’بہن بھائی‘‘ کی عدالتوں میں آمدورفت شروع ہونے والی ہے۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف، مریم نواز، آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالے جاچکے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ان رہنماؤں کے درمیان مزید قدرے مشترکہ میں اضافہ ہوجائے اور اس میں قدرے مشترک کی بنیاد پر بعض خوش فہم یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ ظلم، زیادتیوں، ناانصافیوں اور ملک میں حقیقی جمہوریت لانے کے لیے یہ رہنما ایک ہی ٹرک پر سوار نہ ہوجائیں۔ انتخابی مہم کے دوران گو کہ پاک فوج کی تعیناتی اور ملک میں امن وامان کے قیام کے لئے ہر سطح پر غیر معمولی انتظامات اور اقدامات کیے جارہے ہیں لیکن اس کے باوجود اس دوران ممکنہ طور پر بعض اہم سیاسی رہنماؤں کو دہشت گردی کے خطرات کا سامنا کرنے کی اطلاعات بھی موجود ہیں۔