• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الیکڑانک ووٹنگ مشین

جدید دور میں پوری دنیامیں ہر کام کے لیے نت نئی اشیا کا استعمال ہو رہا ہے۔ چناں چہ بعض ممالک میں کچھ عر صے سے انتخابی عمل کے لیے بھی جدید ٹیکنالوجی استعما ل کی جارہی ہے۔اس ضمن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو کافی اہمیت حاصل ہے۔یہ مشین مقناطیسی ،بر قی مقناطیسی اور الیکٹرانک آلات کا مجموعہ ہے جوووٹ یا بیلٹ کی و ضا حت کرنے ،ووٹ ڈالنے ،شمار کرنے اور انتخابی نتائج کی رپورٹ تیار کرنےکے لیے استعمال کی جاتی ہے ۔عام طو ر پر یہ مشینیں ای وی ایمز (EVMs) اور ای ووٹنگ کے نام سے جانی جاتی ہے ۔ای ووٹنگ، انتخابی عمل میں رائے دینے کی ایسی قسم ہے جو الیکٹرانی نظام کے ذریعے ا ستعما ل کی جاتی ہے ۔اس نظام میں آپٹیکل اسکیننگ ،ووٹ سسٹم اورپنج کارڈ شامل ہیں ۔اس نظام کی مدد سے آپ گھر بیٹھے ٹیلی فون ،انٹر نیٹ اور پرائیوٹ کمپیوٹرکے ذریعے بھی ووٹ ڈال سکتے ہیں۔الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم سب سے پہلے وسیع پیمانے پر 1964 ء میں امریکا میں صدارتی انتخابات کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ یہ سسٹم امریکا کی 7 ریاستوں میںاستعمال ہوچکا ہے۔ یہ نیا آپٹیکل اسکین ووٹنگ سسٹم کمپیوٹر کوبیلٹ پر ووٹر کا نشان شمار کرنے کی اجازت دیتا ہے اورجیسے ہی کوئی بھی ووٹ کاسٹ کرتا ہے تو برا ہ راست ریکارڈنگ الیکٹرانک مشین (Direct recording electronic machine) فوری طور پر اس کو ووٹ کی فہرست میں شامل کر لیتی ہے ۔ الیکشن ختم ہونے کے بعد یہ سسٹم ووٹز کے ڈیٹاکو کمپیوٹر میں محفوظ کر دیتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ سسٹم انفرادی طور پر ڈیٹا کی ترسیل ،بیلٹ پیپرزبھیجنے،مرکزی مقام پر سمتوں سے نمٹنے اور رپورٹنگ کے نتائج کے لیے ایک مقام پر ووٹ ڈالنے کی سہولت بھی فراہم کرتا ہے ۔یہ سسٹم امریکا کے علاوہ انڈیا ، برازیل، ہالینڈ، وینزویلا  اور متحدہ ریاستوں میں بھی بڑے پیمانےمیں بھی استعمال ہوچکا ہے۔ان ممالک کے ساتھ ساتھ الیکٹرنک ووٹنگ سسٹم نے ایسٹونیا اور سوئٹرزلینڈ میں بھی مقبولیت حاصل کی، یہاں پر بھی حکومتی انتخابات اور ریفرنڈمز کے لیے اس سسٹم کا استعمال کیا گیا ۔ جب اس سسٹم کے اتنے زیادہ چر چے ہونے لگے تو کینیڈا میں اس کا استعمال حکومتی اور میونسپل دونوں انتخابات میں کیا گیا ۔ اس سسٹم میں ہائبرڈ سسٹم بھی موجود ہیں جن میں الیکٹر انک بیلٹ ڈیوائس، معاون ٹیکنالوجی (assistive technology) اور ٹچ اسکرین شامل ہے۔ یہ میشن ووٹرز کے تصدیق شدہ کاغذ کو آڈٹ کرنے کا کام بھی خود انجام دیتی ہے ۔بنگلہ دیش نے 2019 ء میں ہونے والے قومی انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم متعارف کروانے کا ارادہ کیا ہے۔ جب کہ وہ اپنے 2012 ء کے میونسپل انتخابات میں اس سسٹم کا استعمال کر چکے ہیں۔ بنگلہ دیش کی کچھ سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس سسٹم کے ذریعے صاف و شفاف الیکشن ہوں گے ،کیوں کہ اس میں دھاندلی کرنے کے کوئی چانس نہیں ہے ۔

الیکڑانک ووٹنگ مشین

ایک مکمل ای وی ایم مشین دوکیبلس پر مشتمل ہوتی ہے ،ایک کنٹرول یونٹ اور دوسرا بیلٹنگ یونٹ، یہ یونٹ پولنگ کے لیےاستعمال کیا جاتا ہے ۔یہ بیلٹنگ یونٹ ایک چھوٹےسےباکس کی طر ح ہوتا ہے ۔اس میں ہر امیدواروں اور ان کے انتخابی نشان کو ایک بڑے بیلٹ کاغذ کی طرح درج کردیا جاتا ہے اور ہر امید اوار کے نام کے آگے ایک لال رنگ کی ایل ای ڈی اور ایک نیلے رنگ کا بٹن فراہم کیا جاتا ہے ۔ووٹرز اپنے پسندیدہ امیداوار کے نام کے خلا ف نیلے رنگ کا بٹن دبا کے اپنا ووٹ کا سٹ کرتا ہے ۔کنٹرول یونٹ کا کام امیدواروں کے خلاف ووٹوں کا سر اغ لگا نا ہوتا ہے ،بعدازاں انتخابی نتیجہ اخذکیا جا تا ہے ۔ آخری ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد کنٹرول یونٹ میں پولنگ آفیسر کوئی بھی قر یبی بٹن دبائے گا ،جس کے بعد ای وی ایم مشین کسی بھی ووٹ کو تسلیم نہیں کرتی۔ووٹنگ کا مرحلہ ختم ہونے کے بعد بیلٹنگ یونٹ کو کنٹرول یونٹ سے الگ کر کے علیحدہ رکھ دیا جاتا ہے اور پھر بیلٹنگ یونٹ کے ذریعے ووٹس کی گنتی کی جاتی ہے ۔گنتی کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد نتیجہ پیش کرنے والے بٹن کو دبا کر کا نتیجہ پیش کیا جا تا ہے ۔ ویسے تو یہ سسٹم ہر طر ح سے محفوظ ہے ،مگر ہر سسٹم کے کوئی نہ کوئی منفی اور مثبت پہلو ضرور ہوتے ہیں ۔

اس سسٹم میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس میں بیلٹ پیپر کی طرح کوئی کاغذی نشان نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اس کے سوفٹ ویئر میں کسی بھی قسم کی خرابی کرکے ووٹ چوری کیے جاسکتے ہیں ۔کوئی ایسا فرد جس کو ای وی ایم مشین تک رسائی حاصل ہوں وہ سسٹم میں موجود میموری کارڈ نکال کر نیا میموری کارڈ ڈال سکتا ہے ،جس کے بعدموجودہ تمام ووٹس ضائع ہوجائیں گے ۔اگر سسٹم میں کوئی بھی وائرس آجائے تو بھی ڈیٹا ضائع ہوجائے گا۔ ان ہی خرابیوں کی بناء پر ابھی تک آئرلینڈ ،اٹلی ،جرمنی ، نیدرلینڈ اورفن لینڈ نےاپنے حکومتی انتخابات میں ابھی تک اس سسٹم کا استعمال نہیں کیا ہے ،تاہم یہ سسٹم بہت فوائد کا حامل بھی ہے،اس کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس میں بہت ہی کم وقت لگتا ہے ،ووٹوں کی گنتی بھی گھنٹوں کی بجائے منٹوں میں ہوجاتی ہے ،ووٹوںکی آڈیٹنگ بھی بآسانی ہو جاتی ہےاور نتائج بھی جلد از جلد پیش کر دیں جاتے ہیں۔اس سسٹم کی بدولت انسانی غلطی ہونے کی گنجائش بہت کم ہو تی ہے۔

ان تمام خصوصیات کے با وجود یہ سسٹم اب تک پاکستان میں استعمال نہیں کیا گیا ہے ۔حالاں کہ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکٹر انک ووٹنگ مشین (ای وی ایم ) اور بائیو میٹر ک کی تصدیق کے لیے مشینیں خریدنے کے لیےمعاہدے پر دستخط کیے تھے ۔ ای سی پی کے سیکر ٹری بابر یعقوب فتح محمد کا اس معاہدے کے حوالے سے کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ پاکستان میں آئندہ انتخابات میں ای وی ایم مشین کا استعمال کریں۔اس معاہدے کے دوران پارلیمنٹ کمیٹی ،متعلقہ وزارتوں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں سمیت تما م شراکت داروں کو بورڈ میں شامل کیا گیا تھا ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سسٹم کے حوالے سے ووٹرز ،قانون ساز ،ذرائع ابلاغ اورسول سوسائٹی تنظیموں کو آگاہی فراہم کی جائے گی ۔ڈائر یکٹر جنرل ایڈمن ریٹائر ڈ بر یگیڈ عباس علی اور ایم ایس اسمارٹمیٹک انٹر نیشنل ہولڈنگ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نے متعلقہ اداروں کی جانب سے 150 ای وی ایم مشینیں کی خریداری کے معاہدے کی منظوری بھی دی تھی ۔ای سی پی سیکرٹری کے مطابق یہ ایک پائلٹ پر وجیکٹ تھا اور الیکشن کمیشن اس سسٹم کو استعمال کرتے ہوئےنتا ئج میں فرق دیکھنا چاہتی ہے ۔سب کو اُمید ہے کہ الیکٹر انک ووٹنگ سسٹم کے تحت انتخابات میں کسی قسم کی دھاندلی نہیں کی جاسکتی ۔

یادرہے کہ اس سسٹم کےشفاف اور قابل اعتماد ہونے کے باوجود جرمنی کی سپریم کورٹ نے اس سسٹم کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انتخابات میں استعمال کرنے سے انکارکر دیا تھا ۔علاوہ ازیں چھ یورپی ممالک نے بھی ووٹنگ کے لیے اس سسٹم کے بجائے روایتی طر یقوں کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ اگر چہ بھارت نے اپنے تین انتخابات 2004 ،2009 اور 2014 میں الیکٹر انک ووٹنگ سسٹم کا استعمال کیا ہے ۔علاوہ ازیں یہ سسٹم 11 ممالک میں بھی استعمال ہو رہا ہے۔ تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی ) نے گز شتہ سال ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ 2018 ءکے جنرل انتخابات میں الیکٹرا نک ووٹنگ کی مشینیں (ای وی ایمز ) کا استعمال ہونا بہت مشکل ہے،کیوں کہ یہ کام بہت زیادہ وقت طلب ہے ۔ ای سی پی کے سیکر یٹری کے مطابق وقت کی کمی اور تکنیکی مسائل کی وجہ سے 2018 ء کے انتخابات میں اس کا استعمال ہونا کسی صورت بھی ممکن نہیں ہے ۔لہٰذا ہم اس دفعہ بھی اپنے روایتی طریقے پر عمل کرتے ہوئے انتخابی کام کریں گے۔

تازہ ترین