سرمایہ داری نظام پرچلنے اور اس کو فروغ دینے والی دنیا کی سب سے بڑی طاقت ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے سب سے بڑے عہدے پر فائز صدر بارک حسین اوباما دوسری بار اس منصب کے لئے منتخب ہو گئے ہیں۔ حیرت انگیر بات یہ ہے کہ نظام زر کے طاقتور ترین افراد اور ادارے قطعاً ان کی پہلی یا دوسری بار صدر منتخب ہونے کے حق میں نہیں تھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کوئی سوشلسٹ یا انقلابی پروگرام رکھنے والے شخص ہیں بلکہ وہ اس نظام کے پروردہ ایک ایسے امریکی ہیں جن کے باپ کینیا کے ایک گرد آلود گاﺅں سے ہجرت کر کے امریکہ کی اجنبی سر زمین پر قسمت آزمائی کرنے آئے تھے، قسمت نے ان کی یاوری تو نہیں کی لیکن ان کا ہونہار بیٹا اپنے اٹل ارادوں اور خوابوں کی بدولت ملک کا دو مرتبہ صدر منتخب ہونے والا پہلا سیاہ فام شخص بن گیا یقینا حسین اوباما اپنی قبرمیں آسودہ ہو گا کہ جس بہتر مستقبل کی تلاش میں وہ کولمبس کی دریافت کردہ دنیا میں پہنچا تھا ، اسے وہ نہیں تو اس کا فرزند پا گیا۔ بارک اوباما نے اپنے رواں عرصہ صدارت میں جو کچھ کیا وہ شاید امریکی عوام کی نظر میں وقعت رکھتا ہے، جس کے باعث انہوں نے تمام تر قیاس آرائیوں، تجزیوں اور کئے گئے عوامی جائزوں کے برعکس انہیں بھاری اکثریت سے جتوایا لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دنیا کے لئے ان کے اقتدار کے دن کوئی زیادہ خوشگوار نہیں رہے۔ ان کے پیشرو جارج بش جونیئر نے جنگ و جدل کی جو آگ بھڑکائی تھی وہ بدستور بھڑکتی رہی۔ اس جنگ سے یقینا امریکی بھی متاثر ہوئے اور ان کے ساتھ جنگ میں شریک ان کے اتحادی بھی، لیکن اس سے متاثر ہونے والے وہ لوگ زیادہ متاثر ہوئے جو ان ممالک میں رہتے ہیں، جہاں یہ جنگ لڑی جا رہی ہے۔ خود امریکی عوام بھی اس جنگ کے نقصانات سے آگاہ ہیں۔ اس لئے صدر اوباما ان سے مسلسل یہ وعدہ کرتے چلے آرہے ہیں کہ وہ اس جنگ کو آخر کار اختتام کی طرف لے جائیں گے۔ صدر اوباما نے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد واضح طور پرکہا ہے کہ اب جنگ سے پاک دہائی کا آغاز ہوگا۔ امریکی آئین کے تحت کوئی بھی شخص دو بار سے زیادہ امریکہ کا صدر نہیں بن سکتا اور وہاں یہ روایت بھی رہی ہے کہ جب بھی کوئی امریکی صدر دوسری بار منتخب ہوا ہے، اس نے ایسے ایجنڈے پرعمل پیرا ہونے کی کوشش کی ہے جس کی تکمیل سے وہ تاریخ کے صفحات پر اپنا نام نقش کرنا چاہتے تھے۔ اس لئے نظر آرہا ہے کہ صدر بارک اوباما ورثے میں ملنے والی جنگ اور دیگر مناقشات کو حل کرنے کی بھرپور سعی کریں گے۔ اس سے قبل ان کی ہی جماعت سے تعلق رکھنے والے صدر بل کلنٹن نے دوسری بار منتخب ہونے کے بعد دوسرے تنازعات کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں فلسطین اور برصغیر میں کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن بدقسمتی سے وہ یہ دونوں دیرینہ مسائل حل کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ ہم اس ناکامی کی وجوہات پر بات کرنے کی بجائے صدر اوباما کو درپیش چیلنجز کا جائزہ لیں گے اور زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ ان میں سے بعض مسائل پر فوری توجہ دینا چاہیں گے۔ تاریخ میں امر ہونے کے لئے وہ جو کارہائے نمایاں انجام دینے کے ارادے رکھتے ہیں اس کے لئے وہ یقینا اپنی ٹیم میں واضح تبدیلیاں کریں گے۔ ان کی ٹیم کے اہم رکن سیکرٹری خارجہ ہلیری کلنٹن پہلے ہی مستعفی ہونے کا عندیہ دے چکی ہیں۔ اگرچہ ان کے اس فیصلے کی بڑی وجہ چار سال بعد اگلے صدارتی امیدوار کے طور پر اپنے آپ کو تیار کرنا ہے لیکن اگر وہ مستعفی ہوئیں تو نئے سیکرٹری خارجہ کیلئے سینیٹر جان کیری موزوں امیدوار سمجھے جا رہے ہیں اور وہ ان مقاصد کے لئے صدر اوباما کے لئے بہت اہم ہیں۔ وہ امریکی انتظامیہ اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان وہ کشیدگی ختم کرانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں جو حالیہ برسوں میں پیدا ہوئی تھی اور جس کی وجہ سے افغان جنگ کے بارے میں فیصلے متاثر ہو رہے ہیں۔ صدر اوباما اور ان کے یورپی اتحادی 2014ءتک افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنا چاہتے ہیں بلکہ امریکہ اس سے ایک سال پہلے ہی یہ کام کرنا چاہتا ہے کیونکہ امریکی عوام اس جنگ کو لاحاصل سمجھتے ہیں، اس پر عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ لگ رہا ہے۔ امریکی معیشت اس دباﺅ سے نہیں نکل رہی جبکہ یورپ بھی اس کا شکار ہے۔ معاشی اصلاحات کے خلاف گزشتہ کچھ عرصے سے یورپ میں ہونے والے مظاہرے بھی اسی بے چینی کا شاخسانہ ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی اب صرف مذاکرات کی میز پر ہی افغان جنگ کی دلدل سے نکل سکتے ہیں۔ امریکہ کی طرف سے پاکستان کے ساتھ سرد مہری کے رویّے سے پیدا ہونے والے ڈیڈ لاک کو توڑنے کیلئے حالیہ مہینوں میں کافی تیز سفارتی سرگرمیاں ہوئی ہیں۔ چند ہفتوں سے ان میں ٹھہراﺅ محض امریکی صدارتی مہم کی وجہ سے آیا تھا۔ اب دوبارہ پا کستان سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور دیگر اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت کا عمل شروع ہونے جا رہا ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ طالبان کے تمام گروپوں سے ٹوٹے ہوئے روابط دوبارہ بحال ہوں گے اور افغان مسئلے کا کوئی پُرامن حل نکل آئے گا تاہم اس عمل میں کچھ وقت بھی لگے گا، اس کی کامیابی کا دارومدار یقینی طور پر خطے کے ملکوں کو اس میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ جنگ شروع کرنے والی طاقتوں کی نیت پر ہے۔ اگر اس حوالے سے اوباما تاریخی شخصیت بننا چاہیں گے تو انہیں امریکی حکمرانوں کی سابقہ پالیسیوں سے انحراف کرنا ہوگا۔
جنگ سے پاک دہائی کا خواب صرف اس صورت میں شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے جب صدر اوباما فوجی طاقت کے بل بوتے پر دنیا بھر میں امریکی تسلط کا خواب پریشان ترک کریں گے۔ ”عرب بہار“ سے اب تک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو خزاں رسیدگی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ انہیں اس بارے میں تمام تر حکمت عملی کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔ ”عرب بہار“ کیلئے جن جنگجوﺅں کو لیبیا کے کرنل قذافی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے استعمال کیا گیا انہوں نے اس سے بھی زیادہ سفاکانہ طریقے سے امریکی سفیر اور دیگر عملے کو آگ لگا کر بھسم کر دیا۔ مصر میں بھی ایک لولی لنگڑی جمہوریت قائم ہوئی جو مصری عوام کے مسائل حل نہیں کر پائے گی بلکہ خطے میں اس ملک کی جو حیثیت تھی وہ بھی ختم ہوگئی ہے کیونکہ وہاں اقتدار کی رسہ کشی اور سیاسی عدم استحکام کا دور دورہ ہے ۔ شام میں حکومت اور باغیوں میں لڑائی جاری ہے جس سے وہاں کے عام نہتے شہری ہلاک ہو رہے ہیں۔ باغی جنگجوﺅں کو مالی وسائل اور اسلحہ فراہم کرنے والے اور ان کی سیاسی، سفارتی اور عسکری حمایت کرنے والے کون ہیں، یہ ایک کھلا راز ہے۔ یہی کچھ کہیں بھی کیا جا سکتا ہے لیکن تاریخی طور پر پہلے بھی ان دہرے معیارات کی وجہ سے جنگیں ہوئی ہیں اور لاکھوں لوگ لقمہ اجل بنے ہیں۔ ایک فریق بزعم خود اپنے حقوق اور آزادی کی جنگ لڑ رہا ہوتا ہے اور دوسرا فریق اس خوش گمانی میں اپنا دفاع کرتا ہے کہ وہ بھی اپنی مادر وطن کی حفاظت کر رہا ہے۔ کون آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے اور کون دہشت گردی کرتا ہے اس کا فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ خونریزی ہوتی ہے، لوگ مرتے ہیں اور جیتنے والا سرفراز ہوتا ہے۔ آگ و خون کے اس طوفان کو روکنے کیلئے سب کو ایک قدم پیچھے ہٹنا ہوگا۔ جب اوباما جشن فتح منا رہے تھے تو برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون ایک خلیجی ریاست میں شام کے باغی جنگجوﺅں کے ساتھ براہ راست بات چیت کا آغاز کرنے کا اعلان کر رہے تھے، انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ ان سے کس موضوع پر بات کریں گے۔ ادھر دوسری طرف کریملن سے روسی پارلیمنٹ ڈوما کی کمیٹی برائے خارجہ امور کے چیئرمین مسٹر پشکوف سی این این کے ایک پروگرام میں کہہ رہے تھے کہ ”ایک خاص فرقے (انہوں نے اس کا نام بھی لیا )کے اسلامی انتہا پسندوں کو مسلح کرکے بشار الاسد کی قانونی حکومت کی فوج سے لڑایا جا رہا ہے، یہ وہاں کے عوام کی جنگ نہیں جو جنگجو لڑ رہے ہیں۔ اس لئے ہم ایسی کسی بات چیت یا اس کے نتیجے میں ہونے والے فیصلے کے پابند نہیں ہوں گے اور نہ ہی مہذب دنیا اس کی اجازت دے گی کہ ایک ملک کی حکومت کو اس طریقے سے گرانے کے لئے معصوم لوگوں کا خون بہایا جائے“ شام کے حوالے سے سلامتی کونسل کی قراردادوں کو چین اور روس ویٹو کرتے آرہے ہیں اور مستقبل میں بھی اس امر کا کوئی امکان نہیں کہ وہ اپنی پالیسی میں کوئی تبدیلی لائیں کیونکہ شام میں باغیوں کی کامیابی کے بعد خطے میں طاقت کا توازن بدل جائے گا۔ اس کے بعد چین اور روس مشرق وسطیٰ میں باغیوں اور دیگر مغربی ممالک کے اتحادی حکمرانوں کے مرہون منت ہوں گے۔ فلسطینی اتھارٹی اور لبنان میں بھی ان کا اثر ونفوذ ختم ہو جائے گا۔ ایران کے گرد بھی گھیرا تنگ ہو جائے گا، جس کی اسرائیل اور امریکہ میں اس کی حامی لابی بڑی دیر سے منتظر ہے۔غیر جانبدار ممالک خصوصاً اسلامی دنیا میں اگر صدر اوباما اپنے ملک کا امیج بہتر بنانا چاہتے ہیں تو انہیں صیہونی عزائم سے خبردار رہنا ہوگا۔ امریکہ میں صیہونی انتہائی طاقتور ہیں، جس کا اندازہ ابھی ماضی قریب کی اس مثال سے لگایا جا سکتا ہے کہ صدر اوباما کو انکار کے باوجود اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کرنا پڑی تھی۔ نیو کونز اور صیہونی لابی نے دونوں مرتبہ صدارتی انتخابات میں اوباما کے مخالف امیدوار کی حمایت کی۔ انہیں اس کا ادراک کرتے ہوئے بین الاقوامی رائے عامہ کا احترام کرنا ہوگا۔ روس، چین اور دوسرے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ باہمی مذاکرات اور اتفاق رائے سے موجودہ جنگوں کو ختم کرتے ہوئے آئندہ کے لئے ایک ایسے عالمی معاشرے کی تخلیق ممکن بنا کر وہ تاریخ میں اپنے آپ کو نہ صرف زندہ رکھ سکیں گے بلکہ ان کا یہ خواب بھی پورا ہوگا کہ ”والدین اپنے بچوں کو کہانیوں کی کتابیں سنایا کریں“ جی ہاں یہ بھی صدر اوباما نے دوسری بار جیتنے کے بعد اپنے خطاب میں کہا تھا۔