برصغیر کے منفرد و معروف شاعر اور جانثار اختر کے فرزند جاوید اختر کی ایک شاہکار نظم ’’نیا حکم نامہ‘‘یادآرہی ہے،جو نذرِ قارئین ہے۔
کسی کا حکم ہے
ساری ہوائیں
ہمیشہ چلنے سے پہلے بتائیں
کہ ان کی سمت کیا ہے؟
ہوائوں کو بتانا یہ بھی ہوگا
چلیں گی جب تو کیا رفتار ہوگی؟
کہ آندھی کی اجازت اب نہیں ہے
ہماری ریت کی سب یہ فصیلیں
یہ کاغذ کے محل جو بن رہے ہیں
حفاظت ان کی کرنا ہے ضروری
اور آندھی ہے پرانی ان کی دشمن
یہ سب ہی جانتے ہیں
کسی کا حکم ہے دریا کی لہریں
ذرا یہ سرکشی کم کرلیں
اپنی حد میں ٹھہریں
ابھرنا اور بکھرنا
اور بکھر کر پھر ابھرنا
غلط ہے ان کا یہ ہنگامہ کرنا
یہ سب ہے صرف وحشت کی علامت
بغاوت کی علامت
بغاوت تو نہیں برداشت ہوگی
یہ وحشت تو نہیں برداشت ہوگی
اگر لہروں کو ہے دریا میں رہنا
تو ان کو ہوگا اب چپ چاپ بہنا
کسی کا حکم ہے اس گلستاںمیں
بس اب اک رنگ کے ہی
پھول ہوں گے
کچھ افسر ہوں گے جو طے کریں گے
گلستاں کس طرح بنتا ہے کل کا
یقیناً پھول بھی یک رنگ ہوں گے
مگر یہ رنگ ہوگا کتنا گہرا، کتنا ہلکا
یہ افسر طے کریں گے کسی کو کوئی یہ کیسے بتائے
گلستاں میں کہیں بھی
پھول یک رنگی نہیں ہوتے
کبھی ہو ہی نہیں سکتے
کہ ہر اک رنگ میںچھپ کر
بہت سے رنگ رہتے ہیں
جنہوں نے باغ یک رنگی بنانا چاہئے تھے
ان کو ذرا دیکھو
کہ جب اک رنگ میں
سو رنگ ظاہر ہوگئے ہیں تو
وہ اب کتنے پریشان رہتے ہیں
کسی کو کوئی یہ کیسے بتائے
ہوائیں اور لہریں کب کسی کا حکم سنتی ہیں ہوائیں
حاکموں کی مٹھیوں میں
ہتھکڑیوں میں، قید خانوں میں
نہیں رکتیں یہ لہریں روکی جاتی ہیں
تو دریا جتنا بھی ہو پُرسکوں
بے تاب ہوتا ہے
اور اس بے تابی کا اگلا قدم
سیلاب ہوتا ہے
کسی کو یہ کوئی کیسے بتائے