شازیہ انور
7سال قبل یعنی 2009ءمیں قومی اسمبلی میں گھریلو تشدد کے خاتمے سے متعلق بل منظور کیا گیا تھا ،بعض مذہبی جماعتوں کے اعتراضات کی وجہ سے آج تک اس پر قانون سازی نہیں ہوسکی۔
عورت کو اسلام نے بہت بلند درجے پر فائز کیا ہے۔ ایک آوارہ ‘ بدقماش یا پھر دہشت گرد کی ماں بھی ایک عورت ہے اور ایک سائنس دان‘ ملک کے سربراہ ‘ مولوی یا کسی دوسرے شریف انسان کی ماں بھی ایک عورت ہی ہے ۔ عورت جب ماںبنتی ہے تو اس کے ذہن کے کسی بھی گوشے میں اس کی خراب تربیت کی بابت کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی۔ہر ماں اپنے بچے کو دنیا کا بہترین اور کامیاب ترین انسان دیکھنا چاہتی ہے ‘ وہ اُسےاپنی ”بساط “کے مطابق تعلیم و تربیت دینے کی کوشش کرتی ہے لیکن بچہ اپنے ماحول سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔
جب ایک بچہ دوران پرورش بات بے بات اپنی ماں کو اپنے با پ سے زدوکوب اور بے عزت ہوتے دیکھتا ہے تو اس کے نزدیک باپ انتہائی غلط ہوجاتا ہے اور ایسی مثالیں بھی دیکھنے میں آتی ہیں کہ بچے اپنے باپ کے دشمن بن جاتے ہیں، اگرایسا نہیں ہوتا تو بچے کا معصوم ذہن اپنی ماں کو غلط قبول کرلیتا ہے ‘ یہ بھی بچے ہی کےلئے غلط ہوتا ہے ۔ وہ اپنی ماں کی ہر بات کا اُلٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے ،کیوں کہ اس کے سامنے اس کی ماں کو غلط قرار دیا جاتا ہے۔
یہ بات بہت معمولی لیکن نہایت حساس ہے، جسے ہمارے گھر وںکے مرد سمجھنے کےلئے تیار ہی نہیں ۔ بیوی کے لیےہتک آمیز الفاظ کے استعمال میں انہیں کوئی عار ہی محسوس نہیں ہوتا، انہیں اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ جانے انجانے میں وہ اپنی اولاد کے ذہنوں میں کیا فتور پیدا کررہے ہیں۔
ہماری عورتوں کے خمیر میں مردوں کی غلامی ہے ‘ ہماری ماؤں اور ان کی ماؤں نے پیدا ہونے کے بعد اپنی بیٹیوں کو باپ‘ بھائیوں اور پھر شوہر کے آگے زبان بند رکھنے کی جونصیحت کی ہے اس کی بازگشت ہماری آنے والی نسلوں تک بھی پہنچ رہی ہے۔
سوا دو کروڑ کی آبادی والے اس وطن عزیز میں کتنے مرد ہیں جو عورتوں کی زیادتی کا شکار ہیں؟
کتنی عورتیں ہیں ،جنہوں نے مردوں کے چہروں کو تیزاب سے جھلسا دیا ؟
ایسی کتنی مثالیں ہیں، جہاں عورتوں نے مرد کی معمولی سی بات پر طیش میں آکر علیحدگی اختیار کرلی ہو؟لیکن ایسی کتنی خبریں نظر سے گزرتی ہیں جس میں عورت نے جذباتی ہوکر مرد کو زندگی کی قید سے آزاد کردیا ہو۔
اایسا اس لیے نہیں ہے کہ، عورت میں ایسا کرنے کی طاقت نہیں ہے، بلکہ ایسا اس لیے ہے کہ ہمارا معاشرہ ایک مخصوص روایت کا پروردہ ہے، جہاں عورتیں اپنے شوہروں‘ بیٹوں‘ بھائیوں اور باپ کو کھانا کھلانے کے بعد کھانا کھانے میں خوشی محسوس کرتی ہیں۔
یہ وہ معاشرہ ہے، جہاں عورتیں ساری عمر، مردوں کی غلامی میںزندگی گزارنے کے باوجود اپنے بچوں کے مستقبل کے پیش نظر اُف نہیں کرتیں۔ آج بھی 52 فیصد خواتین گھریلو تشدد کے واقعات کی رپورٹ نہیں کرتیں لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ عورتوں کو بے لگام چھوڑ دیا جائے، جہاں خواتین غلط ہیں وہاں ان کے خلاف بندشیں لگائی جائیں اور اسلامی شعار کے مطابق ان سے سلوک کیا جائے لیکن معاشرے میں خواتین کی عزت و مقام کےلئے بنائے جانے والے قوانین کا مضحکہ اُڑانا اور ان کی مخالفت کرنا صریحاً غلط ہے ۔
عورتوں کی قانون سازی کے حوالے سے بے شمار دیرینہ مطالبات ہیں ،جن کا پورا ہونا نہایت ضروری ہے مثال کے طورپرگھریلوتشدد‘چھوٹی عمرکی شادیاں‘ جائیداد اور وراثت کی منتقلی اورمقامی حکومتوں میں عورتوں کی موثر شمولیت ۔یہ وہ مطالبات ہیں جن پر عمل درآمد حکومتی ترجیحات میں شامل ہونے چاہئیے لیکن افسوس یہاں تو عورتوں کی تعلیم اور صحت جیسے بنیادی حقوق بھی خاطر خواہ توجہ نہ حاصل کرسکے۔عورتوں کادیرینہ مطالبہ رہاہے کہ جنسی تشدد‘ یاغیرت کے نام پرقتل ہونے والی عورتوں کوانصاف کی فراہمی، ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن قوانین ہونے کے باوجود پولیس‘عدلیہ ان قوانین کوانصاف فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
خواتین کو نمبروں میں تقسیم نہ کریں ‘ جس طرح اپنی بہن اور بیٹی کی عزت کو مقدم رکھتے ہیں اسی طرح سے ہر عورت کی عزت کا احترام کریں ۔یقین کریں کہ خواتین نہ آزادی چاہتی ہیں اور نہ ہی آوارگی ‘ وہ چاہتی ہیں تو صرف اور صرف عزت ۔ اپنے گھر سے ‘ اپنے لوگوں سے اور ہر اس جگہ جہاں وہ جاتی ہیں۔