جو دِل پہ حکم راں تھا، وہ سلطاں چلا گیا
آیا تھا چند یوم کو مہماں چلا گیا
انساں کی دیکھ دیکھ کے انساں سے نفرتیں
لے کے جہاں سے دیدئہ حیراں چلا گیا
تخلیق کر رہا تھا، جو مسکان روز و شب
انسانیت کے دُکھ کا وہ درماں چلا گیا
اُردو ادب کی جان تھا، جانِ سخن تھا وہ
اِس دہر کو بنا کے خیاباں چلا گیا
اوروں کے درد جھیل کے جیتا رہا مدام
ایمان ساتھ لے کے مسلماں چلا گیا
’’مشتاق یوسفی‘‘ تھا، زمانے میں جس کا نام
وہ اپنے ساتھ لے کے گلستاں چلا گیا
پژمردہ دِل میں جان جو ڈالے تو اے ندیمؔ
کیسے نہ ہم کہیں کہ وہ ذی شاں چلا گیا
(ریاض ندیم نیازی ،سبّی)