؎تعریف اُس خدا کی… جس نے جہاں بنایا…کیسی زمیں بنائی… کیا آسماں بنایا (خدا کی تعریف)، رب کا شُکرادا کر بھائی …جس نے ہماری گائے بنائی(ہماری گائے)،وہ دیکھو اُٹھی کالی کالی گھٹا…ہے چاروں طرف چھانے والی گھٹا(برسات)،مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ… بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینہ(گرمی کا موسم)،سناؤں تمہیں بات اِک رات کی … کہ وہ رات اندھیری تھی برسات کی (بچّہ اور جگنو)،گھنگھور گھٹا تُلی کھڑی تھی …پر بوند ابھی نہیں پڑی تھی (بارش کا پہلا قطرہ)۔ یہ مشہور ترین اشعار اور اُن کے ساتھ درج کیے گئے عنوانات اُردو کے نام وَر شاعر، مولوی محمد اسمٰعیل میرٹھی کے ہیں۔ وہی اسمٰعیل میرٹھی کہ جن کی ایک وجۂ شُہرت بچّوں کے اوّلین شاعر کی حیثیت سے بھی ہے۔ آج سے چند پیڑھی اوپر غیر منقسم ہندوستان میں تعلیم پانے والا شاید ہی کوئی طالبِ علم ایسا ہو گا کہ جسے اسمٰعیل میرٹھی کی نظمیں یاد نہ ہوں۔ طلبہ ہی پر کیا موقوف، گھریلو خواتین اور مائیں بھی بچّوں کو یہ نظمیں لوریوں کی صُورت سُنایا کرتی تھیں اور یوں اسمٰعیل میرٹھی اور بچّوں کی نظمیں گویا لازم و ملزوم بن چُکی تھے۔ تاہم، ایسا ہرگز نہیں کہ مولوی اسمٰعیل میرٹھی نے بچّوں کی نظموں کے علاوہ اور کچھ نہ کہا۔ انہوں نے مقبول ترین صنفِ سُخن، غزل میں بھی خوب طبع آزمائی کی۔؎ آخر یہ حُسن چُھپ نہ سکے گا نقاب میں…شرماؤگے تمہی ،نہ کرو ضد،حجاب میں…رُسوا ہوئے بغیر نہ نازِبُتاں اُٹھا…جب ہو گئے سُبک، تو یہ بارِگراں اُٹھا۔ اسی کے ساتھ ہی اسمٰعیل میرٹھی نے مثنوی، قصیدہ، رُباعی اور قطعہ نگاری کو بھی اظہار کا موضوع بنایا، تاہم اُن کی شُہرت کا اصل میدان بچّوں کی شاعری ہی رہا۔
اسمٰعیل میرٹھی کے والد کا نام شیخ پیر بخش تھا، جنہوں نے میرٹھ میں مستقل سکونت اختیار کر لی تھی۔ اسی نسبت سے یہ میرٹھی کہلوانے لگے۔ خانوادے کے اکثر افراد علم و فضل اور سپہ گری میں طاق ہونے کے باعث اپنے گرد و پیش میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔ سو، اسی نسبت سے سلاطینِ مغل کے درباروں تک رسائی رکھتے تھے اور اعلیٰ مناصب پر فائز تھے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اسمٰعیل میرٹھی کے جدّ اعلیٰ، مولانا داؤد کے لیے شہنشاہِ اکبر نے دو فرمان جاری کیے تھے، جن کے مطابق 560بیگھے زمین قصبہ لاوڑ، پرگنہ میرٹھ میں اور 400بیگھے زمین موضع شمس پور، پٹہ لاوڑ میں عطا کی گئی تھی۔ اسمٰعیل میرٹھی کے برادرِ بزرگ ،شیخ غلام نبی اُن سے 22برس بڑے تھے۔ اُن کے بعد ایک بہن تھیں، جو 16برس بڑی تھیں۔ پھر ایک بھائی اور تھے، جن کا نام، عبد الحکیم جوش تھا۔ یہ بھی اسمٰعیل میرٹھی سے14برس بڑے تھے۔ اسمٰعیل میرٹھی کے والد نے 78برس، جب کہ والدہ نے تقریباً ایک سو برس کی عُمر پائی۔ اسمٰعیل میرٹھی 12نومبر 1844ءکو میرٹھ کے محلّہ مشائخاں میں پیدا ہوئے۔ اس محلّے کی ایک وجۂ تسمیہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ مخدوم شیخ شہاب الدّین علی اصغر چشتی اصفہانی کا مزار یہیں واقع ہے۔ ابتدائی تربیت سماج کے چلن کے عین مطابق، والد کی زیرِ نگرانی گھر ہی پر حاصل کی۔
پڑھنے کی عُمر آئی، تو اتالیق مقرّر کیے گئے، جو گھر پر تعلیم دینے آتے رہے۔ فارسی سے شغف اُسی دَور میں ہوا۔10برس کی عُمر کو پہنچتے پہنچتے قرآنِ مجید کی ناظرہ تعلیم کی تحصیل کر لی۔ ان منازل سے گزرنے کے بعد میرٹھ کے ایک عالم و فاضل بزرگ، رحیم بیگ سے فارسی کی اعلیٰ تعلیم کا درس لیا۔ یہ وہی بزرگ تھے، جنہوں نے مرزا غالبؔ کی فارسی تصنیف، ’’قاطع بُرہان‘‘ کی تنقید ’’ساطع بُرہان‘‘ کے عنوان سے لکھی تھی اور دِل چسپ بات یہ تھی کہ رحیم بیگ نے اپنے شاگرد، اسمٰعیل میرٹھی کو بھی اپنی معاونت کے لیے اس طور شریک رکھا کہ شاگرد اپنے استاد کو مختلف لغات سے الفاظ و معنی تلاش کر کے دیتا۔ (گرچہ مشہور محقّق اور غالبؔ پر کام کے حوالے سے معروف و مستند مالک رام نے اپنی کتاب، ’’تلامذۂ غالب‘‘ میں اس کی صحت سے انکار کیا ہے۔) اس سے بھی دل چسپ ترین بات یہ تھی کہ اپنے استاد کی کتاب کے سلسلے میں قلمی معاونت کرنے والے اسمٰعیل میرٹھی نے ’’قاطع بُرہان‘‘ کے مصنّف، مرزا غالبؔ کو شعر و سُخن میں اپنا استاد قرار دیا تھا۔ بہر حال، اس پس منظر کے ساتھ اسمٰعیل میرٹھی کو کم عُمری ہی سے علمی مشاغل سے ذہنی تسکین کا سامان ملنے لگا اور گلستاں و بوستاں، شاہ نامہ اور فارسی کی دیگر معروف کتابیں بھی پوری دِل جمعی کے ساتھ ختم کر لیں۔
یہ سب کچھ جاری ہی تھا کہ میرٹھ سے انگریزوں کے خلاف بغاوت کی پہلی لہراُٹھی، جسے سر سیّد احمد خاں نے ’’غدر‘‘ کا نام دیا۔ یوں ہندوستان میں1857ء میں وہ غدر مچا، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے برّصغیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ عنفوانِ شباب کی منزل میں داخل ہونے والے اسمٰعیل میرٹھی کا اس واقعے سے متاثر ہونا ایک یقینی اَمر تھا۔ شاید یہی سبب تھا کہ اُن کے دل میں یہ خیال آیا کہ اہلِ وطن کی جس طور سے بھی ممکن ہو، کوئی خدمت ضرور کی جانی چاہیے۔ تاہم، انہوں نے اس خیال کو حقیقی صورت گری عطا کرنے کے لیے اپنے پیش روؤں سے قطعاً مختلف میدان اختیار کیا اور یہ میدان تھا، بچّوں کی اصلاح بہ طرزِ شاعری۔ اس بارے میں جدید عہد کے نقّاد،ڈاکٹر وزیر آغا ’’اُردو شاعری کا مزاج‘‘میں کہتے ہیں کہ ’’اسمٰعیل میرٹھی کو شاید جلد ہی اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ پند و نصائح کی یہ روِش بڑوں کی بہ جائے بچّوں کے لیے زیادہ مناسب ہے اور گرچہ اس نے بڑوں کے لیے نصیحت آموز نظمیں لکھنے اور یوں انہیں اُن کی لغزشوں کا احساس دِلانے کی روِش کو جاری رکھا۔ تاہم، اُس نے زیادہ تر بچّوں کے لیے سیدھی سادی سبق آموز نظمیں لکھ کر ہی نام پیدا کیا۔‘‘یوں بِلا تردّد یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اسمٰعیل میرٹھی بچّوں کی شاعری کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔
پرائمری اسکول کی تعلیم مکمّل کرنے کے بعد اسمٰعیل میرٹھی کا میرٹھ ہی میں واقع سیکنڈری اسکول میں داخلہ ہوا، تو سائنس کے موضوعات سے زیادہ لگاؤ پیدا ہوا اور اُس میں بھی استاد منشی ایسری پرشاد کی شخصیت کا خاص دخل تھا، جنہوں نے علمِ ہندسہ اور علمِ ہیئت کچھ اس انداز سے پڑھایا کہ اسمٰعیل میرٹھی کو فطرت اور مناظرِ فطرت سے گویا عشق ہو گیا۔ یہی عشق آگے چل کر اُن کی اکثر نظموں کی تخلیق کا باعث بنا۔ ہندوستانی ریاست، اترکھنڈ کے ضلعے، ہردی وار میں واقع، رڑکی کالج میں داخلہ لیا۔ گھر والوں کی خواہش تھی کہ تعلیم پا کر انجینئرنگ یا آب پاشی کے محکمے میں اوورسیئر کے طور پر سرکاری ملازمت حاصل کر لی جائے۔ تاہم، اسمٰعیل میرٹھی گھریلو اُلجھنوں اور پریشانیوں کے سبب سلسلۂ تعلیم ادھورا چھوڑ کر میرٹھ واپس آ گئے۔ انگریزوں کے بغاوت ناکام ہوئی اور انگریز ہندوستان پر پہلے سے بھی زیادہ تسلّط قائم کرنے میں کام یاب ہو گئے۔
خود میرٹھ میں بھی، جہاں سے بغاوت کی لہر اُٹھی تھی، انگریزوں نے اپنے قدم مضبوطی سے جما لیے۔ اسمٰعیل میرٹھی کا گھرانا بھی معاشی اُلجھنوں میں مبتلا ہو گیا، جس کے نتیجے میں وہ عُمر کے محض 16ویں برس میں میرٹھ ہی میں واقع انسپکٹر مدارس سرکل میں بہ طور کلرک تعیّنات ہو گئے۔ یہ 1860ء تھا۔ یہی وہ سال بھی تھا کہ جب اسمٰعیل میرٹھی کو شعر و سُخن سے دل چسپی پیدا ہوئی۔ اس سے پیش تر شاعری اُن کے مزاج کا حصّہ نہیں رہی تھی۔ تاہم، فارسی ادبیات کے عمیق مطالعے نے شعر فہمی کا اعلیٰ ذوق بیدار کر دیا تھا۔ اسمٰعیل میرٹھی کی شعر گوئی کے سلسلے میں ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے، جو کچھ یوں ہے کہ اُن کے بے تکلّف دوست، منشی نجم الدّین بسلسلۂ ملازمت میرٹھ آئے، چوں کہ منشی صاحب ادب کا بہت سُتھرا ذوق رکھتے تھے، لہٰذا انہوں نے اپنے گھر پر ادبی محافل اور گفتگو کا ایک سلسلہ شروع کر دیا ۔عموماً ایسی محفلوں میں اسمٰعیل میرٹھی بھی موجود ہوتے۔
ایسی ہی ایک ادبی صحبت جاری تھی کہ کسی نے یہ صلاح دی کہ اپنی اپنی پسند کے مطابق کوئی بہترین اُردو شعر سُنایا جائے۔ جب اسمٰعیل میرٹھی کی باری آئی، تو وہ کوئی اُردو شعر بر وقت نہ سُنا سکے اور حاضرین سے اجازت لے کر اپنی پسند کا فارسی شعر سُنا دیا۔ تاہم، وہ دل ہی دل میں خفّت محسوس کرتے رہے کہ ’’مُجھے کوئی اُردو شعر کیوں یاد نہ آ سکا۔‘‘ چناں چہ اُس دن انہوں نے خود سے عہد کیا کہ وہ اُردو دواوین کا گہرا مطالعہ کریں گے۔ سو، جلد ہی اُن کے انہماک اور جستجو نے اُن کے اندر کے شاعر کو بیدار کر دیا۔
انسپکٹر مدارس سرکل اسکول میں ملازمت کا آغاز ہوا، تو کچھ معاشی آسودگی میسّر آئی۔ 1862ء اسمٰعیل میرٹھی کے لیے خوش بختی کا سال تھا کہ اُن کی زندگی میں ایک ہم سفر شامل ہوا۔ اب زندگی کے روز و شب مصروفیات و مشغولیات کی ایک دُنیا آباد کر چُکے تھے۔ اسمٰعیل میرٹھی نے رفتہ رفتہ قدیم رنگِ تغزّل میں شعر کہنا شروع کیے۔ تاہم، وہ کسی کے سامنے سنانے سے گُریز کرتے۔ ایک دن یوں ہوا کہ اسمٰعیل میرٹھی کے ذوقِ شعر گوئی کی خبر اُن کے برادرِ نسبتی، شیخ قمرؔ الدّین کو ہو گئی۔ انہوں نے اصرار کیا کہ ’’مُجھے طرحی مشاعروں کے لیے کلام کہہ کے دیا کرو‘‘ اور یوں اسمٰعیل میرٹھی اُن کی فرمائش پر کلام کہنے لگے، جسے وہ سیتا پور، شاہ جہان پور اور میرٹھ کے مشاعروں میں پڑھ کر داد سمیٹتے رہے۔ 1864ء میں اسمٰعیل میرٹھی کو قدرت نے بیٹی سے نوازا۔ اب زندگی حقیقی خوشیوں سے ہم کنار ہونے لگی۔ 1866ء کا سال تھا کہ قدرت نے ایک بیٹا بھی عطا کر دیا۔
اسمٰعیل میرٹھی مکمّل طور پر معاشی و خانگی ذمّے داریوں میں مصروف ہو گئے۔ تاہم، تخلیق سے رشتہ اور قلم سے ناتا ٹوٹنے نہیں پایا۔ 1867ء میں اُن کے کام کی نوعیت بدلی اور اُنہیں ڈسٹرکٹ اسکول، سہارن پور میں بہ طور فارسی استاد تعیّنات کر دیا گیا۔ وہاں انہوں نے3برس تک خدمات انجام دیں۔ اسی اثنا میں انہوں نے عربی زبان پر بھی خاص توجّہ دی۔ یہ غالباً عربی زبان پر غور و فکر ہی کا نتیجہ تھا کہ 1870ء میں اسمٰعیل میرٹھی نے اپنے عزیز دوست، ڈپٹی نجم الدّین کی فرمائش پر ’’خزینۂ علم‘‘ کے عنوان سے 44اشعار پر مبنی قصیدہ تحریر کیا ، جو جہل و علم کی گفتگو پر مبنی تھا اور اس میں پروردگارِ عالم کی ہستی کو نور و آگہی کا مرکز و محور قرار دیا گیا تھا۔ موضوع کی مناسبت سے قصیدے کی پوری فضا مُعرّب و مُفرّس ہے۔ پانی پت میں ایک بڑے بزرگ، غوث علی شاہ کے نام سے معروف تھے۔ اسمٰعیل میرٹھی اُن کے باقاعدہ مُرید بھی تھے۔ وہ اُن کی بیعت کے لیے مذکورہ سال ہی پانی پت کے سفر پر بھی روانہ ہوئے۔ انہوں نے بزرگ کی شان میں کئی قصائد بھی تحریر کیے، جو ’’کُلّیاتِ اسمٰعیلؔ‘‘ کا حصّہ ہیں۔ 1873ء میں اسمٰعیل میرٹھی نے مقفّیٰ و مسجّع نثری تخلیق، ’’طلسمِ اخلاق‘‘ تحریر کی۔ تاہم، بعد میں اس رنگِ تحریر کو ہمیشہ کے لیے ترک کر دیا۔
1876 ء کا سال تھا کہ جب اُن کے والد کا انتقال ہوا۔ اسمٰعیل میرٹھی کو والد کے انتقال کا بہت صدمہ ہوا۔1877ء میرٹھ سے ’’نجم الا خبار‘‘ کے نام سے ایک اخبار کا اجراء کیا گیا۔ منشی محمد حیات اور منشی نجم الدّین اس کے اجراء کے پسِ پُشت تھے۔ کچھ وقت کے بعد ہی اسمٰعیل میرٹھی نے اخبار کے لیے قلمی معاونت کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اُن کی شایع ہونے والی نظموں میں اُن کا نام شایع نہیں ہوتا تھا۔ ’’صبح کی آمد‘‘ اور ’’ملمع کی انگوٹھی‘‘ کے عنوان سے جب اُن کی نظمیں شایع ہوئیں، تو شمس العلماء، منشی ذکاء اللہ نے منشی نجم الدّین سے اظہارِ پسندیدگی کے بعد استفسار کیا کہ ’’یہ کون صاحب ہیں، جو اتنی عُمدہ نظمیں لکھتے ہیں۔‘‘ یوں اسمٰعیل میرٹھی کی منشی ذکاء اللہ سے ملاقات ہوئی اور پھر دوستی اور ملاقاتوں کا یہ سلسلہ تا عُمر جاری رہا۔1880ء میں ’’ریزۂ جواہر‘‘ کے عنوان سے اُن کا اوّلین مجموعۂ کلام سامنے آیا۔’’رسالۂ قلندری‘‘اور خوش خطی کی کتابیں بھی اُسی سال شایع ہوئیں۔ ’’تذکرۂ غوثیہ‘‘(1883ء)، ’’قندِ پارسی‘‘ اور ’’جریدۂ عبرت‘‘ (1885ء) میں سامنے آئے۔ اُسی سال پنجاب کے اُردو مڈل کورس میں اُن کی نظموں کو شامل کیا گیا۔ اُردو اور فارسی درسیات اور قواعد کا جو سلسلہ شروع ہوا، وہ دمِ آخر تک جاری رہا۔ اسی عرصے میں مشاہیر سے روابط استوار ہوئے۔ سرسیّد کی تحریک کے لیے دامے درمے قدمے سُخنے معاونت کرتے رہے۔ یہ تمام ہنگامہ ہائے روز و شب اپنی جگہ، مگر تخلیق کار، اسمٰعیل میرٹھی مسلسل محوِ سُخن رہے۔1914 ء میں حالیؔ کا مرثیہ بھی کہا، یہاں تک کہ خود بھی 1917ء میں دُنیا سے کُوچ کر گئے۔
مطبوعہ تصانیف کے علاوہ اسمٰعیل میرٹھی کی کئی تصنیفات و تالیفات غیر مطبوعہ بھی رہیں۔ اُن پر تحقیقی کام کرنے والوں نے ایسی نامکمّل کتابوں کی فہرست میں اُردو لغت، اُردو صرف و نحو، حضرت امیر خسرو کے سوانحی حالات اور شاعری پر مبنی کتابیں شامل کی ہیں۔ اسمٰعیل میرٹھی نے فارسی زبان میں بھی کلام کہا۔ فارسی شاعری کے علاوہ انہوں نے فارسی درسیات کے سلسلے میں بھی کام کیا اور اس عنوان سے کئی فارسی کتابیں تالیف کیں۔ اسمٰعیل میرٹھی نے طلبہ کی نصابی ضرورت کے لیے ’’کمک اُردو‘‘ اور ’’سفینۂ اُردو‘‘ کے عنوان سے کتابیں تصنیف کیں۔ اسمٰعیل میرٹھی کا ایک اہم کارنامہ، جو شاید آج اتنا اہم معلوم نہ ہو، یہ تھا کہ انہوں نے طلبہ کی نصابی ضرورتوں کو مدّ نظر رکھتے ہوئے سعیٔ مسلسل کے جذبے کے تحت کتابیں تصنیف کیں۔ اُن کے زمانے میں مدارس اور سرکاری دفاتر میں فارسی زبان رائج تھی۔ درسی کتابیں بھی فارسی زبان ہی میں تحریر کی جاتیں۔
اُردو کا چلن تھا، مگر باقاعدہ نصاب کے طور پر اُردو کی حیثیت قائم نہ تھی۔ گرچہ اُردو نظمیں اور نثر کے نمونے نصاب میں کہیں نہ کہیں موجود تھے، مگر اُردو اپنے آپ کو منوانے کی سطح تک نہیں آئی تھی۔ حصّۂ نظم کی حد تک قدیم شعراء کی منتخب نظمیں طلبہ کی نصابی تعلیم کا کسی نہ کسی طور حصّہ تو بن پاتیں، تاہم حصّۂ نثر میں خال خال ہی کوئی تحریر شامل ہوتی۔ اس کمی کو سب سے پہلے محسوس کرنے والی ہستی اسمٰعیل میرٹھی کی تھی، جنہوں نے غور و خوض کے بعد اُردو نظم و نثر کو تدریسی ضرورت کے مطابق خاطر خواہ طور پر شامل کیا اور یوں رفتہ رفتہ اُردو زبان عوامی سطح سے تدریسی سطح تک پہنچنے کے قابل ہوئی۔ خود اسمٰعیل میرٹھی نے اسی عنوان کے تحت بہت سی نظمیں کہیں، درجۂ اوّل تا پنجم کا نصاب تیار کیا اور اُردو زبان کے قواعد مرتّب کیے۔ جب وقت کے مشاہیر کی طرف سے اس کام کی تعریف و توصیف ہوئی، تو اسمٰعیل میرٹھی نے درجہ بہ درجہ اس کام کو آگے بڑھایا۔
اوّل بنیادی تعلیم، دوم ثانوی تعلیم اور سوم اعلیٰ ثانوی تعلیمی درجے تک کا اُردو نصاب متعارف کروایا گیا۔ یہ اہلِ وطن کی وہ خدمت تھی، جو اسمٰعیل میرٹھی نے غدر کے ہنگاموں کے دِنوں میں سوچی تھی۔ نصابی اور تدریسی ضرورتوں کے تحت تحریر کی گئی نظموں میں اسمٰعیل میرٹھی نے جس بات کا سب سے زیادہ خیال رکھا، وہ زبان کی سادگی تھی۔ آسان زبان میں کہا گیا کلام قوم کے نونہالوں اور طلبہ کے دلوں میں اُتر جاتا اور وہ اُسے پوری دل چسپی اور دل جمعی سے یاد کر لیتے۔
اسمٰعیل میرٹھی نے اپنے عزم و حوصلے سے نونہالوں اور طلبہ میں ایسا ادبی ذوق بیدار کیا کہ جس نے آنے والی کئی نسلوں کا نہ صرف نصاب سے بلکہ کتاب سے بھی رشتہ مستحکم تر کر دیا۔ اسمٰعیل میرٹھی نے جدید نظموں اور بچّوں کی نظموں سے ہٹ کر بہت سی انگریزی نظموں کے منظوم تراجم بھی کیے۔ گوپی چند نارنگ کو اسمٰعیل میرٹھی کے فن کا گہرا ادراک رہا۔ انہوں نے ایک جگہ اسمٰعیل میرٹھی کی تخلیقی قوّت کو اظہارِ پسندیدگی کی سند عطا کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ صرف عجیب چڑیا، گھوڑا، اونٹ، ملمع کی انگوٹھی، محنت سے راحت اور ہر کام میں کمال اچھا ہےکے، شاعر نہیں تھے۔ انہوں نے ’’مناقشۂ ہوا و آفتاب‘‘، ’’مکالمۂ سیف و قلم‘‘، ’’بادِ مراد‘‘، ’’شفق، ’’تاروں بھری رات‘‘ اور ’’آثار سلف‘‘ جیسی نظمیں بھی لکھیں۔ آزاد اور حالی نے جدید نظم کے لیے زیادہ تر مثنوی اور مسدّس کے فارم کو برتا تھا۔ اسمٰعیل نے ان کے علاوہ مثلّث، مربّع، مخمّس اور مثمّن سے بھی کام لیا۔ انہوں نے بے قافیہ نظمیں بھی لکھی ہیں اور ایسی نظمیں بھی، جن میں مروّجہ بحروں کے اوزان کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے مصرعے ترتیب دیے گئے ہیں۔
بعد میں حلقۂ اربابِ ذوق کے شاعروں اور ترقّی پسند شاعروں نے آزاد نظم اور نظمِ معرّیٰ کے جو تجربے کیے، ان سے بہت پہلے عبد الحلیم شرر، نظم طباطبائی اور نادر کاکوروی اور ان سے بھی پہلے اسمٰعیل میرٹھی ان راہوں سے کانٹے نکال چُکے تھے۔‘‘ اسمٰعیل میرٹھی کی زندگی پر ایک نظر ڈالنے کے بعد یہ اندازہ قائم کرنے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا کہ اگر زندگی کسی مقصد کو سامنے رکھ کر گزاری جائے، تو نہ صرف آسانی سے گزر جاتی ہے، بلکہ بعد از مرگ بھی اُس زندگی کے چرچے اوروں کی زبان پر تادیر جاری رہتے ہیں۔