• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کنوا: اجناس کی ایک نئی قسم

مرزا شاہد برلاس

 کنوا(Quinoa)اجناس کی ایک ایسی قسم ہے جو دنیاکے کچھ باسیو ںکےلیےتونئی ہے لیکن اس کا ا ستعما ل جنوبی امریکی ممالک پیر و ، بولیویا اور یورا گوئے میںتقریباً3000 سے4000سال پہلے سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ بلکہ آثار قدیمہ کی دریا فت میں جانوروں کی خوراک کے طو ر پرتو اس کااستعمال8000سا ل پہلے سے شروع ہوگیا تھا۔یہ مقا می لو گو ں کی غذا کا لازمی جزو تھا ،جس کو وہ تمام اجناس میں افضل سمجھتے تھے اورموجودہ دورمیں اس نے سپر فوڈ ((super food یعنی انتہائی غذائیت والی جنس کا مقام بھی حا صل کرلیاہے ،جس کی مانگ جاپان،چین ، آ سٹریلیا اور ان یو ر پی ملکوں میں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے جہا ں اس کی پیداوار نہیں ہوتی ہے ، جس کی وجہ سے اس کی قیمت میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔ 2011 ء میں اس کی قیمت3115 ڈالر فی ٹن تھی جب کہ کچھ اقسام کی قیمت تو8000 ڈالر فی ٹن تک پہنچ گئی تھی۔ امریکا کے اسٹور زمیں اس کی موجودہ قیمت فروخت5 ڈالر فی پائونڈ ہےجب کہ امریکا میں مقامی پیداوار کے علاوہ اس کی زیادہ مقدار بولیویا سے در آمد ہوتی ہے۔یہ ایک سالانہ پھل دینے والا پودا ہے، جس کی اونچائی 3فیٹ سے 6فیٹ تک ہوتی ہیں اور اس کے رنگ سفید،سرخ اور سیاہ ہوتے ہیں۔اس کے بیجوں کا قطر 2ملی میٹر کے قریب ہوتا ہے۔ 

جن کےرنگ ان کی اقسام کے مطابق سفید ،سرخ اور جامنی ہوتے ہیں۔ جن پر ایک سخت خول چڑھا ہوا ہوتا ہے، جس کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے ،جس کواتار کر بیج استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کےخول کے بد ذائقہ اور کڑواہونے کی وجہ سے اس کی فصل کو پرندے اور جانور نہیں کھاتے ۔ اس کی پتیوں میںاوگزالک ایسڈ (Oxalic Acid)پایا جاتا ہے ۔چنیدہ افزائش نسلی سے اس کے خول کے کڑوے پن کو دور کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، جس کے لئے اب غالباً جینیٹک انجینئرنگ (Genetic Engineering) بھی استعمال کی جائے گی ۔

اس کی کاشت کے لیے سرد آب وہوا کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کی کا شت جنوبی امریکی ملکوںمیںسطح سمندر سے 8000 سے 13000 فیٹ کی بلندی پر کی جاتی ہے۔ اس کی کاشت کے زمانہ میں درجہ ٔ حرارت منفی4 ڈگری سے35ڈ گر ی سینٹی گریڈ تک اور بارش 12انچ سے39انچ کے درمیان ہوتی ہے۔ اس کی کاشت کے لیے ایسی زمین درکار ہوتی ہے، جس میں پانی کھڑا نہ رہے۔ یہ کم غذائیت اور کم نمکیات والی زمین میں بھی بخوبی کاشت ہوسکتا ہے۔ اس کی فصل میں زیادہ تر کام ہاتھ سے کیا جاتا ہے ، کیوں کہ ایک پودے پر کچھ گچھے جلد ی تیار ہوتے ہیں اور کچھ بعد میں تیار ہوتے ہیں۔ لیکن اس کی کاشت کے لیےامریکا اور برطانیہ میں چھوٹی مشینوں کا استعمال شروع کیاگیاہے۔ اس کی فصل تین سے چار ماہ کے درمیان تیار ہوسکتی ہے۔

تجارتی پیمانہ پر اس کی کاشت چند یوروپی ممالک میں بھی شروع کی گئی ہے۔ جن میں انگلینڈ، فرانس، ہالینڈ، جرمنی، بیلجیئم اور اسپین شامل ہیں۔2015 ءمیں برطانیہ میں اس کی کافی بڑی کاشت کی گئی تھی، جس کو ستمبر کے مہینہ میں مشینوں سے کاٹا گیا تھا۔کنواکا جینوم سعودی عرب کی کنگ عبداللہ یونیورسٹی کے محققین نے 2017ء میں تیار کیا گیا تھا۔ اب جینیٹک انجینئرنگ کی مدد سے اس کی جین میں تصرف کرکے ایسی اقسام تیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں جن کی فصل میں اضافہ ہو،جو زیادہ گرمی برداشت کرسکے اور جس کے خول کی کڑواہٹ کوبھی ختم کیاجاسکے ۔

پاکستان میں اس کی کاشت اسکردو اور بلتستان میں ان علاقوں میںکامیابی سے کی جاسکتی ہے۔ جہاں کی آب وہوا اور بارش اس کی کاشت کے لیے انتہائی موزوں ہے ۔ وہاں پر اس کی کاشت اپریل سے مئی کے مہینوں میں کی جاسکتی ہے، جس کی فصل جولائی اور اگست کے مہینوں میں تیار ہوسکتی ہے۔ لیکن اس کے لئے حتمی معلومات کے حصول کے لیےعلاقہ میں تجربات کرنے ضروری ہیں۔ علا وہ ازیں شمالی پنجاب کے کچھ علاقے بھی اس کی کاشت کے لیے کافی مناسب ہوسکتے ہیں۔

کنوا کی خاص با ت یہ ہے کہ پکے ہوئے کنوا میں 72 فی صد پانی ، 21 فی صدکاربو ہائیڈریٹ ، 4فی صدپروٹین اور 2فی صد چکنائی ہوتی ہے اور 100 گرام پکے ہوئے کنوا سے20 کیلوریز کی توانائی حاصل ہوتی ہے۔ جب کہ اس میں روزانہ کی انسانی ضروریات کا 30فی صد میگنیشیم،22 فی صد فاسفورس،10فی صد سے19فی صد فائبر (ریشہ) فولیٹ، لوہا، وٹامن بی کی چند اقسام اور زنک شامل ہیں۔ امریکی ادارے ناسا نے کنوا کو بہت زیادہ لمبے خلائی سفر کے دوران کنٹرول کردہ ماحول میں اس کی پیداوار کے لیے اسے تجرباتی منتخب کیے ہیں، جس کی مدد سے خلا میں رہنے والے لوگ اپنی غذا خلائی سفر کے دوران خود ہی تیار کرسکیں گے۔ اس میں تمام وٹامن دھاتیں اور انسانی غذا کے تمام اجزاء ہونے کے سبب ہی اس کو سپر فوڈ کا درجہ حا صل ہوا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین