• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’کھجور‘‘ اس کے درخت چھاؤں تو فراہم نہیں کر سکتے، مگر روزگار ضرور فراہم کرتے ہیں

’’کھجور‘‘ اس کے درخت چھاؤں تو فراہم نہیں کر سکتے، مگر روزگار ضرور فراہم کرتے ہیں

عناب سلمان

جغرافیائی اعتبار سے سندھ گونا گوں خصوصیات سے سرشار ہے۔ جہاں صحراہیں، وہاںدریا بھی ہیں، سنگ لاخ پہاڑوں کی بلندیاں ہیں، تو شور مچاتا سمندر اس کے کناروں سے کھیلتا نظر آتا ہے۔ کہیں سرسبز لہلہاتے کھیت ہیں ،تو کہیں باغات کے شوخ رنگوں کی خوبصورتی آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے۔ان رنگوں میں سے ایک رنگ سندھ کے شہر خیرپور میں دکھائی دیتا ہے، اس شہر میں اور آس پاس کھجور کے کئی باغات ہیں ،جو کئی دَہائیوں سے نہ صرف لوگوں کے روزگار کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں بلکہ وہ اب اس شہر کی پہچان بھی بن چکے ہیں۔

شمالی سندھ کے اس ضلع میں کجھوروں کے باغات کو رومانوی حیثیت حاصل ہے۔ شام ڈھلے لوگ کھجوروں کے درخت کے نیچے بیٹھ کر غروب ہوتے سورج کا نظارہ کرتے ہیں۔یہاں موجود باغات اور درخت کھجوروں سے لدے پڑے ہیں اور ملک کے مختلف علاقوں میں بسے سیکڑوں خاندان اپنے بچوں اور سامان سمیت کھجوروں کی کٹائی کے لئے خیرپور پہنچتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق ضلع خیرپور میں ایک لاکھ ایکڑ پر کھجور کاشت کی جاتی ہے، جب کہ پاکستان میں تقریباً ڈھائی لاکھ ایکڑ پر کھجور کے باغات موجود ہیں۔ 

یہاں کھجوروں کی سیکڑوں اقسام پائی جاتی ہیں۔ ان میں ٹوٹو، کڑ، بیگن، عیدن شاہ، مٹھی رکن، نوری اور دیگر اقسام شامل ہیں۔خیرپور کے تین تعلقوں میں 80 فی صد جب کہ باقی تین تعلقوں میں 20 فی صد پیداوار ہوتی ہے۔ کھجور کی کٹائی میں سب سے اہم کردار درخت پر چڑھنے والے اس مزدور کا ہوتا ہے، جسے '’’چاڑھو‘‘ کہا جاتا ہے۔ وہ درخت پر چڑھ کر کھجوروں کی تیار فصل کو کاٹنے کا کام کرتا ہے۔خیرپور کےچاڑھو مزدوروں کی زبان پر شکوے ہیں کہ انہیں اس پر خطر اور مشکل کام کی بہت ہی کم اجرت یعنی پانچ سو دی جاتی ہے،جو ایسے پرخطر کام کے لیے انتہائی کم ہے۔

’’کھجور‘‘ اس کے درخت چھاؤں تو فراہم نہیں کر سکتے، مگر روزگار ضرور فراہم کرتے ہیں

شاید ہی کوئی ایسا ہو جسے کھجور نہ پسند ہو،لوگوں کی اکثریت کھجور مزے لے کر کھاتی ہے، مگر شاید یہ کم ہی لوگوں کو معلوم ہو کہ پھل فروش تک پہنچنے سے قبل کھجوروں کو مختلف مراحل سے گزارا جاتا ہے۔کھجور کو چھوہارا بنانے والی فیکٹری میں کام کرنے والے ایک مزدوررحیم ڈنو کے مطابق ، ہمیں یہاں کام کرنے کے یومیہ تین سو روپے ملتے ہیں۔ ان کا کام بھٹی تک تازہ کھجوروں کو لانا، کھجوروں کو سُکھانا اور انہیں ٹوکریوں میں بھرنا ہے۔

خیرپور میں کھجور کی پیداوار کئی خاندانوں کی خوشیوں کا باعث ہے، کیوں کہ یہاں پر نہ صرف سندھ کے مختلف شہروں بلکہ بلوچستان اور پنجاب سے بھی لوگ روزگار کی تلاش میں آتے ہیں اور یہ بہترین ذریعہ معاش ہے۔ بھٹی پر کھجور سے چھوہارے بننے کا عمل انتہائی حیران کن اور دل چسپ ہوتا ہے۔ بھٹی کے مقام پر کھجوروں کو ایک بڑی سی کڑہائی میں پکایا جاتا ہے۔ اس کی رنگت کو برقرار رکھنے کے لیے ایک خاص قسم کا رنگ بھی کڑاہی میں شامل کیا جاتا ہے، جس کی مدد سے چھوہارے کا رنگ پھیکا نہیں پڑتا۔کھجوروں کو اُبالنے کے بعد کڑہائی سے نکال کر ٹوکریوں میں بھرا جاتا ہے اور پھر انہیں کھلے میدان میں سکھایا جاتا ہے، کچھ کھجوروں کو پکاتے وقت رنگ نہیں شامل کیا جاتا،انہیں ایسے ہی سکھایا جاتا ہے، جو کہ پیلے رنگ نہیں بلکہ کتھئی رنگت کی ہوتی ہیں۔ کھجوروں کوسُکھانے کا یہ عمل تین سے پانچ روز تک جاری رہتا ہے۔

’’کھجور‘‘ اس کے درخت چھاؤں تو فراہم نہیں کر سکتے، مگر روزگار ضرور فراہم کرتے ہیں

اس جگہ پر کھجوروں کو گچھوں سے الگ کرنے، کڑھائی تک لاکر اُبالنے اور پھر سکھانے تک کے تمام مراحل کے لیے الگ الگ مزدور مختص ہوتے ہیں۔ کچھ مزدور کھجوریں سُکھانے کا کام کرتے ہیں، تو کچھ چھوہارے ٹوکریوں میں بھرتےہیں۔یہ کام دن کے وقت بہت تیزی سے جاری رہتا ہے۔ کسی بھی مزدور کو اس بات کی پروانہیں ہوتی کہ کس شدت سے گرمی پڑ رہی ہے اور درجۂ حرارت کیا ہے۔پسینے سے شرابور ان جسموں کو بس اتنا پتا ہوتا ہے کہ اگر وہ اس گرمی میں چھاؤں تلے بیٹھ گئے ،تو زندگی انہیں اور ان کے خاندان کو بھوک کی دھوپ میں بیٹھنے پر مجبور کر دے گی۔اس جگہ مزدوروں کے لیے آرام، سستی اور کاہلی کی کوئی جگہ نہیں کیوں کہ یہاں روزگار چند روز تک ہی رہتا ہے اور مزدوری کرنے والے لوگوں کی تعداد کافی زیادہ ہوتی ہے اس لیے یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ یہاں وقت کم ہے اور مقابلہ بہت سخت ہے۔ ہر ایک اپنے کام میں سخت مصروف رہتا ہے۔اس جگہ مسلسل چہل پہل جا ری رہتی ہے۔

رحیم ڈنو جیسے کئی مزدور آج بھی ان باغات میں روزگار کے لیے سرگرداں ہیں ، انہیں خیرپور کے کھجوروں کے درخت چھاؤں تو فراہم نہیں کرسکتے ،مگر روزگار ضرور فراہم کرتے ہیں،گو کہ یہ باغات ان مزدوروں کو روزگار فراہم کرتے ہیں ،لیکن ضرورت اس امرکی ہے، کہ مزدوروں کے مالی حالات سنوارے جائیںاور کسی ایک طبقے کی اجارہ داری ختم کی جائے۔

تازہ ترین