پاکستان تحریک انصاف نے انتخابات سے قبل قوم سے وعدہ کیا تھا کہ لوٹی ہوئی دولت واپس لا کر یہ رقوم تعلیم و صحت پر خرچ کی جائیں گی اور پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا جائے گا۔ آج کی نشست میں ہم 5نکاتی حکمت عملی کا خاکہ پیش کررہے ہیں جو آنے والی حکومت کو تیز رفتاری سے اپنانا ہوگی۔ یہ تجاویز تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے وعدوں اور تحریک انصاف کے 2013ء اور 2018ء کے انتخابی منشور کی روشنی میں وضع کی گئی ہیں:۔
(1) لوٹی ہوئی، ٹیکس چوری اور دوسرے ناجائز ذرائع سے حاصل شدہ رقوم سے بنائے گئے کئی ہزار ارب روپے کے ایسے اثاثے اب بھی ملک میں موجود ہیں جو ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں بھی ظاہر نہیں کئے گئے۔ ان ناجائز اثاثوں کی مکمل تفصیلات بشمول ان کے مالکان کے قومی شناختی کارڈ نمبر ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔ ملک کے اندر موجود ہونے کی وجہ سے یہ اثاثے حکومت کی دسترس میں بھی ہیں۔ ان اثاثوں میں غیرمنقولہ جائیدادیں، گاڑیاں، بینکوں و مالیاتی اداروں کے کھاتوں میں جمع شدہ رقوم، قومی بچت اسکیموں میں لگائی گئی رقوم، حکومتی تمسکات و میوچل فنڈز میں کی گئی سرمایہ کاری اور اسٹاک مارکیٹ کے حصص وغیرہ شامل ہیں۔
اب کمپیوٹرز کے ذریعے ان اثاثوں کا متعلقہ شخص کے ٹیکس کے گوشواروں سے موازنہ کرکے ان ناجائز اثاثوں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے جو ابھی تک ٹیکس حکام سے خفیہ رکھے گئے ہیں اگر ان اثاثوں پر مروجہ قوانین کے تحت اگست 2018ء سے ہی حکومتی واجبات وصول کرنے کا سلسلہ شروع کیا جائے تو چند ماہ میں کم از کم 1500؍ارب روپے کی اضافی آمدنی ہوسکتی ہے۔ اس رقم سے ایک بڑا ڈیم بنایا جاسکتا ہے، پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی و گیس کے نرخوں میں کمی کی جاسکتی ہے اور تعلیم و صحت کے لئے زیادہ رقوم مختص کی جاسکتی ہیں۔
ایف بی آر کی اصلاح کرنے اور اس کو متحرک بنانے میں چونکہ خاصہ وقت درکار ہوگا اس لئے یہ ازحد ضروری ہے کہ اس مہم کی مانیٹرنگ خود وزیر اعظم کے دفتر سے کی جائے۔ ایف بی آر کے چیئرمین نے جون 2018ء میں یہ بات زور دے کر کہی تھی کہ ناجائز ملکی اثاثوں کو ظاہر کرنے کی مدت ختم ہونے کے ایک دن بعد سے ہی ان اثاثوں پر مروجہ ٹیکس قوانین کے تحت حکومتی واجبات وصول کرنا شروع کردئیے جائیں گے۔ جن کو ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے تحت بھی ظاہر نہیں کیا گیا۔ ان ناجائز اثاثوں پر ٹیکس اور واجبات کی وصولی اور ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے ٹیکسوں کی مد میں ملنے والی تقریباً 127؍ارب روپے کی رقوم سے عوام کو اگلے 45روز میں ریلیف دینا یقیناً ممکن ہوگا۔ یہ نئی حکومت کا ٹیسٹ کیس ہوگا۔
(2) کھلی منڈی سے ڈالر خرید کر ملک میں کام کرنے والے بینکوں کے بیرونی کرنسی کے کھاتوں میں جو رقوم جمع کرائی جاتی ہیں ان کو تعلیم و علاج معالجے کے علاوہ کسی اور مقصد کے لئے ملک سے باہر بھیجنے کی انکم ٹیکس کے گوشوارے داخل کرانے والوں کو بھی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ جون 2018ء میں سپریم کورٹ کو بتلایا گیا تھا کہ صرف 2017ء میں کھلی منڈی سے ڈالر خرید کر بینکوں کے ذریعے 15؍ارب ڈالر سے زائد کی رقوم ملک سے باہر بھجوائی گئی ہیں۔ 2016ء اور 2017ء میں پاکستان میں صرف ہم ہی کہتے رہے تھے کہ عام حالات میں ان رقوم کو ملک سے باہر بھیجنے کی اجازت نہیں ہونا چاہئے۔ (جنگ 21؍اپریل 2016ء، 4؍مئی 2017ء، 29؍جون 2017ء اور 17؍نومبر 2017ء) یہ ملک و قوم کی بدقسمتی ہے کہ ملک سے بھیجی جانے والی ان رقوم سے بیرونی ممالک میں نہ صرف جائیدادیں اور دوسرے اثاثے بنائے جاتے ہیں بلکہ مغربی ممالک کی شہریت بھی حاصل کی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ اگر اس ضمن میں گزشتہ برسوں میں ہماری پیش کی گئی گزارشات پر عمل کیا جاتا تو آج ہم آئی ایم ایف کے پاس جانے کے لئے مجبور نہ ہوتے۔ کیا اس ضمن میں کسی کا احتساب ہوگا؟
(3) تحریک انصاف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ان کی حکومت سی پیک اور ایل این جی معاہدات کو پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرے گی۔ ہماری تجویز ہے کہ اس صدارتی آرڈی ننس کو بھی فوری طور پر پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا جائے جس کے تحت نگراں حکومت کےایماء پر دونوں ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں میں توسیع و ترمیم کی گئی تھی۔ اس ضمن میں سپریم کورٹ کو بھی حقائق سے آگاہ کیا جائے کیونکہ نگراں حکومت نے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے بجائے خاموشی کو ترجیح دی۔
ایف بی آر نے جولائی 2018ء میں تواتر سے قومی اخبارات میں جو اشتہارات شائع کرائے تھے ان میں تنبیہ کی گئی تھی کہ 31؍اگست 2018ء تک ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ نہ اٹھانے کی صورت میں ’’غیرظاہر شدہ غیرملکی اثاثوں اور آمدنی پر ٹیکس کے علاوہ جرمانہ اور قانونی کارروائی‘‘۔ اس کے برخلاف ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کے مقرر کردہ عدالتی معاون نے ایمنسٹی اسکیم کی میعاد ختم ہونے کے بعد 7؍اگست 2018ء کو عدالت کو بتلایا کہ تاجر برادری اور عام شہریوں نے جو رقوم بیرونی ملکوں میں جمع کی ہوئی ہیں ان پر کوئی داغ نہیں لگنا چاہئے مگر ان رقوم کو پاکستان واپس لایا جاسکتا ہے۔ یہ موقف حیران کن ہے کیونکہ (الف) یہ رقوم ٹیکس حکام سے خفیہ رکھ کر ملک سے باہر منتقل کی گئی تھیں (ب) ان اثاثوں کو سالانہ ٹیکس گوشواروں میں شامل نہیں کیا گیا ہے جوکہ غلط بیانی ہے اور (ج) ان اثاثوں کو حالیہ ٹیکس ایمنسٹی کے تحت بھی ظاہر نہیں کیا گیا۔ صاف ظاہر ہے کہ ان کے خلاف مروجہ قوانین کے تحت ٹیکس کی وصولی، جرمانہ اور قانونی کارروائی ہونا چاہئے۔
(4) اگلے 5برسوں میں لوٹی ہوئی رقوم پاکستان کو واپس ملنے کا امکان روشن نہیں ہے لیکن ملکی قوانین اور قواعد و ضوابط میں مناسب تبدیلیاں کرکے اور نئی قانون سازی کرکے تقریباً 20؍ارب ڈالر سالانہ کے سرمائے کے فرار کو روکا جاسکتا ہے۔ یہ بھی ازحد ضروری ہے کہ غیرمنقولہ جائیدادوں کی خرید و فروخت مارکیٹ کے نرخوں پر ہی کی جائے۔
(5) اب سے 3ماہ قبل ہم نے لکھا تھا کہ 2018-19ء کا وفاقی بجٹ مفروضوں اور تضادات پر مبنی غیرحقیقت پسندانہ بجٹ ہے (جنگ 10؍مئی 2018ء) اب یہ ضروری ہے کہ موجودہ مالی سال کے نظرثانی شدہ وفاقی اور صوبائی بجٹ ستمبر کے پہلے ہفتے تک پیش کردئیے جائیں۔ وفاق اور صوبے ایک مقررہ آمدنی سے زائد ہر قسم کی آمدنی پر موثر طور سے ٹیکس عائد کریں، ود ہولڈنگ ٹیکس کا نظام ختم کردیا جائے، جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 7.5 فیصد سے زائد نہ ہو، معیشت کو دستاویزی بنایا جائے اور دولت ٹیکس عائد کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ تعلیم و صحت کی مد میں جی ڈی پی کا 7.6 فیصد مختص کیا جائے۔ گزشتہ برسوں کے تجربات کی روشنی میں ہم اپنی یہ تجویز دہرائیں گے کہ حکومتی شعبے کی یونیورسٹیوں کے چانسلرز صرف ماہرین تعلیم ہوں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)