• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ٹرمپ نے ’’امریکہ فرسٹ‘‘ کے نعرے کو ترجیح دیتے ہوئے مختلف ممالک پر بھاری ٹیرف (تجارتی ٹیکس) اور پابندیاں عائد کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ چین سے امریکہ کو ایکسپورٹ کی جانیوالی متعدد مصنوعات مثلاً اسٹیل وغیرہ پر اربوں ڈالرز کے ٹیرف عائد کرکے ایک کشیدہ صورتحال پیدا کی جا چکی ہے۔ چند سال قبل عالمی سپر پاور امریکہ گلوبلائزیشن اور فری ٹریڈ کا زبردست حامی تھا اب اس کی ترجیحات بدل گئی ہیں۔ عالمی فوجی معاہدہ نیٹو کا سب سے بڑا محافظ اور پروموٹر اب اس معاہدہ کے یورپی رکن ممالک سے نیٹو کے اخراجات میں شیئرنگ کا مطالبہ کر کے خاموش مگر ناموافق صورتحال پیدا کر چکا ہے۔ امریکہ، کینیڈا اور میکسکو کے ہمسایہ ممالک کے درمیان آزادانہ تجارت کے علاقائی معاہدہ پر دستخط کرنے اور عمل کرنے والے امریکی پالیسی ساز اس کو نمونہ بنا کر جنوبی ایشیا میں پاکستان کو بھی یہ تلقین کیا کرتے رہے کہ وہ بھارت اور افغانستان کے درمیان راہداری اور تجارتی سہولتوں کا ایسا ہی معاہدہ کرکے امن کیلئے اپنا رول ادا کرے بلکہ جنوبی ایشیا میں ’’نافٹا‘‘ معاہدہ کی نقل ہوتے دیکھنے کا اتنا شوق تھا کہ بھارت کے ساتھ تنازع کشمیر اور کشمیریوں پر بھارتی مظالم سمیت تمام پاک۔بھارت تنازعات کو بھارت کے حق میں فراموش کردینے کا درس بھی دیا جاتا رہا۔ آج کی صورتحال یہ ہے کہ خود صدر ٹرمپ نے نہ صرف امریکہ، کینیڈا، میکسکو کے درمیان آزادانہ تجارت کا سہ فریقی معاہدہ ’’نافٹا‘‘ (N.A.F.TA) اب ناموافق قرار دے رکھا ہے بلکہ پڑوسی کینیڈا سے امریکہ کیلئے ایکسپورٹ پر بھاری ٹیکس عائد کردیئے ہیں اور میکسکو، امریکہ سرحد پر دیوار کی تعمیر بھی شروع کر رکھی ہے۔ دنیا میں مہلک ایٹمی ہتھیاروں، میزائلوں اور کیمیکل ہتھیاروں پر عالمی طاقتوں کی اجارہ داری کی گرفت کمزور ہو رہی ہے۔ لہٰذا مہلک ایٹمی اور دیگر ہتھیاروں سے لیس اکیسویں صدی کی دنیا میں برتر قوتوں نے دوسروں کو تباہ کرنے کے نئے ’’ہتھیار‘‘ ایجاد کرلئے ہیں۔ ٹارگٹ شدہ ملکوں کو ان کے اپنے ہی جغرافیہ، تاریخ، معیشت، سیاست اور معاشرت میں موجود اختلافات اور متضاد عوامل کو متحرک کرکے عدم استحکام اور داخلی تصادم سے تباہی پھیلانا ایٹمی ہتھیار سے بھی زیادہ مہلک ہے۔ موجودہ دور میں کسی اعلان جنگ کے بغیر ہی دنیا کے کئی ممالک میں ان نئے ہتھیاروں سے ان کی آزادی ختم کرنے اور تاریخی تباہی و تبدیلی کی دھیمی رفتار کی مہلک جنگ بیک وقت جاری ہے۔


طیب اردوان کے ترکی کو بھی صدر ٹرمپ نے نہ صرف اپنی اس ’’ٹریڈوار‘‘ کا نشانہ بنالیا ہے بلکہ اس مضبوط نیٹو اتحادی اور مسلم ملک کی معیشت کو اجاڑنے کیلئے جو آپریشن شروع کیا ہے اسے ترکی کے صدر طیب اردوان نے غیر ملکی ’’آپریشن‘‘ کا نام دیا ہے۔ ترک کرنسی کی غیر ملکی کرنسیوں کے مقابلے میں شرح تبادلہ میں جو تاریخی گراوٹ آئی ہے وہ ترک معیشت کیلئے ایک تاریخی جھٹکا ہے جس کیلئے ترکی نے 12اگست کو چند اقدامات تو کئے ہیں لیکن ترکی کو طیب اردگان کو پھر سے منتخب کرنے، فوجی بغاوت ناکام بنانے اور روس سے تعلقات میں بہتری کی سزا دینے کا اہتمام ان نئے ’’ہتھیاروں‘‘ کے ذریعے دینے کی کوشش ہے جو عالمی نظام میں برتر قوتوں نے پہلے ہی تیار کر رکھے ہیں۔ ترک وزیر خزانہ نے اپنے بینکنگ کے نظام کو سہارا دینے اور کاروباری اداروں کو اس غیر ملکی ’’آپریشن‘‘ کے نقصانات سے حتی المقدور بچانے کا ایک ہنگامی پلان تیار کیا ہے ہم نے حالیہ دنوں میں پاکستان کی کرنسی بمقابلہ ڈالر کی شرح تبادلہ کا بحران بھی دیکھا ہے جس کے اثرات جلد ہی حقائق کی شکل میں ہمارے سامنے آنے والے ہیں۔


گو کہ ترک صدر کے بعض ناقدین اور مخالفین ترکی کے اس معاشی بحران کو غیر ملکی ’’آپریشن‘‘ کی بجائے طیب اردگان کی اپنی پالیسیاں قرار دے رہے ہیں لیکن ترکی میں کرنسی کا بحران شدید ہونے کی وجہ امریکی صدر ٹرمپ کا وہ ٹوئٹ تھا جو انہوں نے 10اگست کو جاری کرتے ہوئے لکھا کہ وہ ترکی سے امریکہ ایکسپورٹ کئے جانے والے اسٹیل اور المونیم پر ڈبل ڈیوٹی ٹیرف عائد کر رہے ہیں۔ ترک صدر اس کو ترکی کے خلاف امریکہ کا نام لئے بغیر ’’گلوبل فنانشل سسٹم کے سب سے بڑے کھلاڑی‘‘ کا ’’اٹیک‘‘ قرار دے کر وارننگ دے رہے ہیں کہ اس کے اثرات دیگر ابھرتی معیشتوں پر بھی ہوں گے۔ ترکی 880ارب ڈالرز کی معیشت کا حامل ہے جسے بچانے کیلئے ترک صدر نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے تکیوں اور گھروں میں رکھے ہوئے ڈالرز اور غیر ملکی کرنسیاں، سونا، زیورات باہر نکال کر ترک کرنسی میں تبدیل کر کے قومی آزادی کی حفاظت کریں۔ ترکی کا معاشی بحران حل کریں۔ پاکستان میں انتخابی موسم کے دوران پاکستانی کرنسی کی شرح تبادلہ میں بھی ایک ایسا بحران ڈالر کو بڑھا کر 125روپے تک کر گیا ہے۔ اس کے اثرات و خطرات سبھی جانتے ہیں۔ چونکہ ہمارے ممکنہ وزیر خزانہ اسد عمر ملکی معیشت سے ڈیل کرنے کیلئے آج کل انٹرنیشنل امور اور اکنامی بارے خود کو اپ ڈیٹ کرنے میں مصروف ہیں۔ لہٰذا ترکی اور پاکستان کے کرنسی بحرانوں کا تقابلی مطالعہ اور مشترکہ مسائل پر توجہ دینا بھی بہتر رہے گا۔


گلوبل فنانشل سسٹم کے سب سے بڑے کھلاڑی امریکہ کے صدر ٹرمپ اپنی برتر معاشی قوت کو دنیا میں اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے اور نیشنل سیکورٹی مفادات کیلئے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور امریکہ کے تجارتی قانون کا سیکشن 232 صدر کو اختیار دیتا ہے کہ وہ کانگریس سے کسی منظوری کے بغیر ٹیرف میں تبدیلی کر سکتے ہیں۔ مختصر یہ کہ صدر ٹرمپ اقتصادی پابندیوں کو فارن پالیسی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ ترکی اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کا آغاز ترکی میں ناکام فوجی بغاوت سے ہوا۔ ترکی میں ایک امریکی پادری اینڈریو برنسن کو جاسوسی، دہشت گردی اور دیگر الزامات میں گرفتار کر کے دوسال سے مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ بقول صدر اردوان امریکہ اس پادری کی رہائی چاہتا ہےاور گزشتہ بدھ ڈیڈ لائن مقرر کی تھی کہ ترکی اسے رہا کردے مگر یہ ڈیڈ لائن گزر گئی اور دو روز بعد صدر ٹرمپ نے ترکی پر یہ پابندیاں عائد کرکے کرنسی کا بحران پیدا کر دیا۔


ترکی نے بھی بدلتی ہوئی صورتحال میں روس سے قریبی تعلقات بنائے ہیں بلکہ بعض حلقوں کے مطابق طیب اردوان کو روس نے ہی مطلع کیا تھا کہ ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی فوجی سازش ہو رہی ہے۔ صدر اردوان نے اسے ناکام بنانے میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد روس سے تعلقات مزید بہتر بنالئے ہیں۔ پاکستان نے بھی امریکہ سے تعلقات ناموافق ہونے کے بعد روس سے تعلقات کو فروغ دیا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان سیکورٹی تعلقات میں بھی قربت ہوئی ہے جو امریکہ کو یکساں ناپسند ہے۔


ترکی اور پاکستان دونوں کے معاشی بحران کا ایک حل آئی ایم ایف سے قرضوں کا حصول ہے۔ لیکن دونوں سے امریکہ ناراض ہے اوروہ آئی ایم ایف کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا موثر اور طاقتور ممبر ہے جو 17فیصد شیئر بھی کنٹرول کرتا ہے لہٰذا آئی ایم ایف سے سخت شرائط کے ساتھ اور امریکی منظوری سے ہی پیکیج ملنے کا امکان ہے۔ لہٰذا دونوں کو متبادل ذرائع سے قرضے حاصل کرنا ہیں۔


ترکی میں گرفتار پادری اینڈریو برنسن کی طرح ہمارے ہاں بھی پاکستانی شہری ڈاکٹر شکیل آفریدی کی امریکہ رہائی اور حوالگی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ کسی مرحلے پر امریکی صدر ٹرمپ اپنے ایسے ہی اختیارات کا استعمال کر کے ہمارے لئے بھی کوئی ناخوشگوار بحرانی صورتحال پیدا کر سکتے ہیں کیا نئے قائدین ایسے حالات سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں؟


امریکہ افغانستان میں ایک بار پھر کشیدگی بڑھنے کے باوجود پاکستان سے اپنی کشیدگی کو اس لئے بڑھا رہا ہے کہ اب بھارت اور امریکہ کی ترجیحات مشترک ہیں اور امریکہ کو بھارتی سہارا حاصل ہے۔فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ حال ہی میں اپنا بیان دہرا چکے ہیں کہ پاکستان کو غیر ملکی خطرات لاحق ہیں۔ کچھ دنوں قبل پاکستان، چین، روس اور ایران کے حساس اداروں کے سربراہوں کی خاموش ملاقات کی خبریں بھی عالمی امور کے حلقوں میں زیر تبصرہ ہیں۔


امریکہ نے پاکستان کے فوجی افسروں کی امریکہ میں (I.M.E.T) پروگرام کے تحت ٹریننگ کو روک دیا ہے۔ یہ اقدام بھارتی لابی کی خواہش اور کوشش سے ہوا ہے لیکن یہ پاکستان پر دبائو ڈالنے کا ایک اقدام بھی ہے۔ ماضی میں بھی جب پاکستان پر ایٹمی حوالے سے امریکی پابندیاں عائد کی گئیں تو اس میں بھی کئی سال تک امریکہ کے (I.M.E.T) پروگرام کے تحت پاکستانی فوجی افسروں کی امریکہ میں ٹریننگ بند رہی لیکن یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ اس پابندی سے امریکہ کے مفادات کو بھی نقصان پہنچا تھا اور اس کا اعتراف خود امریکی اداروں کی ماہرانہ رپورٹس میں سرکاری طور پر کیا گیا۔ اب ویسے بھی بدلتے ہوئے حالات میں روس اور چین سے رابطے اور ساز و سامان سے واقفیت کے مواقع زیادہ ہیں۔ ادھر ترکی بھی اسی روش پر چل کر روس سے تعلقات کو فروغ دے رہا ہے۔ بعض غیر ترک حلقوں کا کہنا ہے کہ 29اکتوبر کو ترکی کے 95 قومی دن کی تقریبات سے قبل ہی طیب اردگان کی تبدیلی آجائیگی۔ ہمارے پاکستان کے 71ویں یوم آزادی سے قبل ہمارے ہاں بھی حکمرانوں کی تبدیلی آ چکی ہے۔ دیکھئے نئے حکمران عالمی تناظر میں پاکستان کی آزادی کو مستحکم کرنے کیلئے اپنے فکر و عمل میں کیا تبدیلی دکھاتے ہیں؟

تازہ ترین