تاریخ ریاستی نظام میں موجود مختلف قوتوں کے مابین کشیدگیوں، اختلافات اور پنجہ آزمائی کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ دورِ شہنشاہیت میں محلاتی سازشوں سے لیکرجدید جمہوری دَور تک کوئی سیاسی نظام مسلسل جاری و ساری رہنے والی اِس قدیم روایت سے عاری نہیں رہا۔ زیادہ سے زیادہ طاقت، اختیار اور وسائل کا حصول تاریخ کے اِس ناقابل شکست رجحان کا سب سے بڑ اسبب رہا ہے ۔ ریاستی امور میں اگرچہ یہ ایک سنجیدہ معاملہ سمجھاجاتا ہے لیکن تشویشناک صورتحال اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب یہ متصادم عناصر کسی بیرونی یلغار یا مداخلت کے دوران بھی یکجا نہ ہو سکیںیا ملتے جلتے حالات میں ریاست کی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کے دفاع پراپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دینے لگیں ۔ بیسویں صدی میں یقیناً چند ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں کہ جب اندرونی سطح پر ایک دوسرے سے نبرد آزما قوتوں نے بیرونی مداخلت کے وقت ایک ہوکر اپنی ریاست کے مشترکہ دفاع کو ترجیح دی۔
ہمیشہ کی طرح اِس سال بھی پوری قوم کو یوم آزادی کے موقع پرخوش اور یکجا دیکھ کردل سے خود بخود یہ دعا نکلی کہ آنے والا ہر دِن پوری قوم کے لئے یوم آزادی جیسا ہی ثابت ہو اور ملک بھر میں بسنے والے لوگ ہر نئے دن کو یوم آزادی جان کر اسی طرح یکجا رہیں ۔اگرچہ اختلاف رائے ایک جمہوری روایت ہے، لیکن ملک میں سیاسی رقابتوں اور اقتدار کی کشمکش میں متصادم عناصر کو بارہا سیاسی بحران، اقتصادی تنزلی اور پر تشدد واقعا ت کا سبب بنتے دیکھا جاتا رہا ہے۔
پاکستان میں تاریخ اور پڑوس سے کچھ سیکھ لینے کا کوئی خاص رواج نہیں۔اَلبتہ مذکورہ حقائق کے ساتھ ساتھ ، یوم آزادی کے موقع پر قومی یکجہتی کے جو ش و جذبے سے بھرپور مناظر ’’ماضی‘‘ اور’’پڑوس‘‘ دونوں پر تھوڑی تھوڑی سی دستک دینے کے متقاضی ہیں۔
جولائی 1937میں چین پر جاپان کا حملہ اور اِس کے بعد چین میں سیاسی طور پر یکسر بدل جانے والے حالات، قومی یکجہتی کے تناظر میں دنیا کے لئے مکمل سبق ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کی شروعات کے وقت عظیم چینی رہنما مائوزے تنگ کی قیادت میں دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کرلینے والی لانگ مارچ جاری و ساری تھی۔دنیا کے بہت سے اَہم واقعات کی طرح وسیع جغرافیائی حدودمیں پھیل جانے والی اس لانگ مارچ سے متعلق کئی حقائق بھی جنگ عظیم کی تباہ کاریو ں کے ملبے تلے کہیں گم سے ہوگئے تھے ۔ جیسے شمال مشرقی چین میں مارکو پولو برج پرسپاہیوں کے درمیان ہونے والی معمولی کشیدگی ، جس میں غیرضروری طور پر شدت بڑھ جانے کے بعد جاپانی افواج کی چینی علاقوں میں یلغار، اپنے نتائج کے تناظر میں گزشتہ صدی کی عسکری و سیاسی تاریخ کا اہم باب ہے۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ جاپانی افواج اپنے ایک اہلکار کی تلاش میں چین کے ایک خاص علاقے میں داخل ہونا چاہتی تھیں۔لیکن چینی حکام نے جاپانیوں کی درخواست پر کان نہیں دھرے لہٰذا جاپانیوں نے چینی علاقوں میں پیش قدمی شروع کردی۔اُدھر چین میں اُس وقت مائوزے تنگ کی لانگ مارچ زوروں پر تھی اور ان کے سرگرم حامی عملاً برسر اقتدار قومی نیشنل پارٹی (Kuomintang of China) سے نبردآزما تھے۔لیکن جاپانیوں کی عسکری مداخلت چین کے اندرونی حالات پر کچھ اس طرح اَثر اندازہوئی کہ حکومت اور کمیونسٹوں کے درمیان کشیدگی اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے پر تشدد واقعات میں نا قابل یقین حد تک کمی ہوگئی۔جاپانیوں کی مسلح پیش قدمی کے ساتھ ساتھ یہ واضع ہوتا جا رہا تھا کہ بر سر اقتدار قومی پارٹی روایتی جنگی حربو ں کے ذریعے ملک کا دفاع کرنے میں ناکام ثابت ہورہی ہے ۔اِیسی صورتحال میں ایک جانب سرکاری افواج نے جاپانیوں سے لڑنے کے لئے گوریلا تکنیک اختیار کرنے کا فیصلہ کیاتو دوسری جانب لانگ مارچ کی حمایت کرنے والے کمیونسٹوں نے بھی اِن غیر ملکی حملہ آوروں پرگوریلا حملے شروع کردئیے۔ کمیونسٹ چھاپہ ماروں اور مخالف سرکاری گوریلوں نے شدید نظریاتی اختلافات، نفرت اور محاذ آرائی کے باوجود جاپانیوں کو ملک سے نکالنے کی ملتی جلتی کوششوں کے دوران ایک دوسرے کے خلاف خاطر خواہ کوئی بڑی کارروائی کرنے سے ہرممکن گریز کیا۔اِس جنگ کے حتمی نتائج سے قطعہ نظر، چین کی ریاستی افواج اور کمیونسٹ جنگجوئوں کے درمیان یہ انوکھی اورخاموش یکجہتی حب الوطنی کے فلسفے اور ذاتی مفادات اور نظریات کے مقابلے میں ملک و قوم کے خاطر قربان ہوجانے کے جذبے کی ایک غیر معمولی مثال ہے۔
اگرچہ امن عامہ اور سیاسی اٹھا پٹخ کے حوالوں سے ان دنوں ملک کے حالات پہلے سے بہت بہتر ہیں، لیکن انتخابات کے دنوں میں سیاست دانوں، نگراں حکومت، الیکشن کمیشن آف پاکستان، انتخابات سے متعلق انتظامی عناصر اوردیگر ریاستی و سیاسی حلقوں کے درمیان روابط ، تعلقات اور بظاہر عدم اعتمادکا معاملہ زیر بحث رہا۔ اِس صورتحال کی دھول اب یقیناً ڈھلتی بیٹھتی نظر آرہی ہے لیکن ملک کوآئندہ اندرونی سطح پرمہلک تنازعات سے بہترطور پر محفوظ رکھنا نئی حکومت کے اوّلین ایجنڈوں میں شامل ہونا ضروری ہے۔اِس کالم کے لئے کی گئی تحقیق کے دوران اندازہ ہوا کہ لاہور میں مقیم معروف صحافی اور تجزیہ کار افتخار احمد سے رابطہ موضوع کے تناظر میں مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔
افتخارصاحب نے بتایا کہ وہ 1965 میں محترمہ فاطمہ جناح اور جنرل ایوب خان کے درمیان صدارتی انتخابات کے وقت اسکول میں پڑھتے تھے۔ اس کے باوجود وہ نہ صرف محترمہ کا انتخابی نشان لالٹین لئے گھومتے پھرتے تھے بلکہ انتخابی مہم کے دوران وہ محترمہ کی پارٹی کیلئے باقاعدہ چندہ بھی اکٹھا کیا کرتے تھے جس پر انہیں اسکول میں سزا بھی دی گئی۔اِنہوں نے بتایا کہ لاہور کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کر رہی تھی۔آج بھی متنازع سمجھے جانے والے اِن انتخابات میں محترمہ کی شکست افتخار احمد ، اِن کے ہم جولیوں اور لاہور کے لاتعداد ووٹرزکیلئے ایک انتہائی مایوس کن سانحہ تھا۔ لیکن اصل کہانی ابھی باقی ہے ۔
’’میں نے انتخابات کے دوران جن لوگوں کو ایوب خان کی مخالفت کرتے دیکھا تھا، وہ جنگ شروع ہوتے ہی ایوب کی ایک درخواست پر اپنا سینہ کھول کر کھڑے ہوگئے ،‘‘ چند لمحوں کے لئے ماضی میں کھوئے ہوئے افتخارصاحب نے اپنی اِس بات کو یوں آگے بڑھایا، ’’جنگ کیا شروع ہوئی، قوم ایک ہوگئی۔‘‘ یہی زندہ قوموں کی نشانی اور یہی اچھی جمہوریت کا تقاضا ہے۔
جاپان کی جارحانہ پیش قدمی کے وقت چین میں مزاحمتی سیاست میں سرگرم کمیونسٹوں کی ترجیحات کا یکسر بدل جانااور پھر 1965کے معرکے میں محترمہ فاطمہ جناح کے حمامیوں کا جیتنے والے مخالف امیدوار کی درخواست پرفوراً ایک ہوجانا، در اصل خاص نظریاتی رویے ہیں۔ جمہوری نظام یا سیاسی رویوں میں جمہوری مزاج کا فروغ فطری طور پر نظریاتی روایات کی بنیاد بنتا ہے ۔بات اگرچہ بہت سادہ ہے، لیکن گزشتہ اکہتر برسوں میں اس بات کو سمجھنے والے یا تو ایوان اقتدار سے باہر دکھائی دیتے رہے ہیں یا ایوانوں میں داخل ہوتے ہی وہ مکمل طور پربدل جایا کرتے ہیں۔