• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تین نوجوان ملک سے باہر سیر کے لیے گئے اور وہاں ایک ایسی عمارت میں ٹھہرے جو 75 منزلہ تھی ، انہیں کمرا بھی سب سے اوپر والی منزل پر ملا۔ عمارت کی انتظامیہ نے انہیںباخبر کرتے ہوئے کہا کہ، ہمارے نظام کے مطابق رات کے 10 بجے کے بعد لفٹ بند کر دی جاتی ہے،لہذا ہر صورت کوشش کیجیے کہ دس بجے سے پہلے آپ کی واپسی ممکن ہو، کیونکہ اگرلفٹ بند ہو جائے تو اس کاکھلوانا ممکن نہ ہوگا ۔پہلے دن وہ تینوں سیر و سیاحت کے لیے نکلے، مگر رات 10 بجے سے پہلے واپس لوٹ آئے۔

دوسرے دن انہیں دیر ہوگئی اور 10:05 پر عمارت میں داخل ہوئے، لفٹ کے دروازے بند ہو چکے تھے اب ان تینوں کو کوئی راہ نظر نہ آئی کہ کیسے اپنے کمرے تک پہنچا جائے، جبکہ کمرا پچھترویں منزل پر ہے،انہوں نے فیصلہ کیا ، اب سیڑھیوں کے ذریعے ہی جانا ہوگا ۔ لیکن اتنا لمباراستہ طے کرتے کرتے ہم تھک جائیں گے، اس لیے باری باری قصے سنائیں گے، تاکہ راستے کا پتا ہی نہ چلے۔ پچیسویںمنزل تک پہلا ساتھی قصے سنائے گا ،پھر پچیسویں پردوسرا اور پھر آخری پچیسویںپر تیسرا اس طرح ہمیں تھکاوٹ کا زیادہ احساس نہیں ہوگا اور راستہ بھی کٹ جائے گا۔ پہلے دوست نے کہا، کہ میں تمہیں لطیفے اور مزاحیہ قصے سناتا ہوں، تینوں ہنسی مذاق کرتے ہوئے چلتے رہے، جب پچیسویں منزل آگئی تو دوسرے ساتھی نے کہا کہ اب میں تمہیں قصے سناتا ہوں، مگر میرے قصے سنجیدہ اور حقیقت کے قریب ہوںگے اب پچیسویںمنزل تک وہ سنجیدہ اور حقیقی قصے سنتے ہوئے چلتے رہے ۔ 

پچاسویں ویںمنزل تک پہنچنے پر تیسرے ساتھی نے کہا کہ، اب میں تم لوگوں کو کچھ غمگین اور دکھ بھرے قصے سناتا ہوں۔ وہ غم بھرے قصے سنتے ہوئے باقی منزل بھی طے کرتے رہے،یہاں تک کے تینوں تھک کے چُور ہو کر جب دروازے تک پہنچے تو ایک ساتھی نے کہا کہ، میری زندگی کا سب سے بڑا غم بھرا قصہ یہ ہے کہ ہم کمرے کی چابی نیچے استقبالیہ پر ہی چھوڑ آئے ہیں یہ سن کر تینوں پر غشی طاری ہوگئی، مگررکیں ابھی میری بات مکمل نہیں ہوئی ۔انسان کی اوسط عمر 60 سے 80 سال ہے ۔ بہت کم لوگ اس سے اوپر جاتے ہیں اور ہم لوگ اپنی زندگی کے 25 سال ہنسی مذاق ، تفریح میں گذاردیتے ہیں پھر باقی کے 25 سال شادی ، بچے رزق کی تلاش ، نوکری جیسی سنجیدہ زندگی میں پھنسے رہتے ہیں اور جب اپنی زندگی کے 50 سال مکمل کر چکے ہوتے ہیں تو باقی زندگی کے آخری 25 سال بڑھاپے میں مشکلات کا سامنا ،بیماریاں ، بچوں کے غم اور ایسی ہی ہزار مصیبتوں کے ساتھ گزارتے ہیں یہاں تک کے جب موت کے دروازے پر پہنچتے ہیں تو ہمیں یاد آتا ہے کہ ’چابی‘ اصل کنجی تو ہم ساتھ لانا ہی بھول گئے، پھر افسوس سے ہاتھ ملتے ہیں لیکن وہ افسوس کسی کام نہیں آتا تو کیوں نا ابھی سے جنت کی چابی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ، تاکہ منزل پر پہنچ کر پچھتاوا نہ ہو!

(حبیب احمد)

تازہ ترین