عبدالغنی بجیر، اسلام کوٹ
ضلع تھرپارکر میں ،بلیک میلرز کا گروہ سرگرم ہے جسے مبینہ طور پر با اثر شخصیات کی پشت پناہی حاصل ہے۔ متاثرین انصاف نہ ملنے کی وجہ سے یا تو خودکشی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں یا بعض اوقات قانون ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ دوسری جانب انتظامیہ و قانون نافذکرنے والے اداروں کے پاس ان برائیوںکو روکنے اور شکایات کے فوری ازالے کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے جس سے متاثرین کو انتہاء تک جانے سے بچایا جا سکے۔سب بڑا مسئلہ سرکاری اداروں و نجی اداروں میں کام کرنے والی خواتین کا ہے،جو بلیک میلنگ کا شکار ہو کر خوف و ہراس کے عالم میں زندگی گزارتی ہیں اور بلیک میلرز کے ناجائز مطالبات پورے کرتی ہیں۔ بعض اہم ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ مٹھی شہر میں سیاسی و معاشی طور پر طاقت ور گروہ ہمہ وقت خواتین کو بلیک میل کرتا ہے اور خاص طور پر سرکاری اداروں میں ملازمت کرنے والی خواتین کو تبادلوں اور ملازمت ختم ہونے کا خوف دلا کر اپنے شکنجے میں جکڑ کر انہیں اپنے چنگل میں پھنسا لیتا ہے۔ مختلف محکموں میں سیاسی شخصیات کی اجارہ داری قائم ہے، جس کی وجہ سے غریب گھرانوں کی ملازمت پیشہ خواتین پریشان ہیںکیوںکہ خواتین کومنظم طور سے ہراسگی کا شکا کیا جاتا ہے۔تاہم ان جرائم میں ملوث مافیاکے افراد کا تعلق سفید پوش اور بااثرطبقے سے ہونے کے باعث ان کی خلاف کہیں بھی شنوائی نہیں ہوتی، جس کےباعث عدم برداشت کی انتہاء کے بعد متاثرہ خواتین کے اہل خانہ اپنے طور پر اقدامات کرتے ہیں جو بعض اوقات بھیانک شکل میں ہوتے ہیں اور اس کے نتیجہ قتل و غارت گری کی صورت میں نکلتا ہے۔
ایسے ہی واقعے ایک ہفتے قبل تھرپارکرمٹھی میں پیش آیا جہاں صادق فقیر چوک پرایک شخص نے فائرنگ کرکےچندر شرما نامی شخص کوقتل کر دیا۔چندر شرما جو کہ ایک سیاسی جماعت کاسرگرم کارکن اور ضلع تھرپارکرکے سابق سکریٹری اطلاعات اورممبر قومی اسمبلی ڈاکٹرمہیش کمار ملانی کے قریبی عزیز اورپرسنل سیکریٹری تھا۔اسے فوری طور پر قریب ہی واقع سول اسپتال لایا گیا مگر اس سےنے راستے میں دم توڑ دیا۔ اسپتال کے ڈاکٹروں کی جانب سے اس کی موت کی تصدیق کے بعد اس قتل کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے شہر میں پھیل گئی اور بڑی تعداد میں لوگ اسپتال پہنچے جہاں سے اس کی میت کو گھر لایا گیا۔روزنامہ جنگ کو حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق مقتول چندر شرماروزانہ اپنے ایک دوست کی کمپیوٹر کی دکان پر جاکر بیٹھتا تھا۔ وقوعے کے روز وہ حسب معمول جب شاپ پر پہنچا تو قاتل سیتا رام کولہی جو اس کا واقف کار تھا، اس کا انتظار کررہا تھا۔اس کے شاپ پر پہنچنے کے بعد سیتا رام کسی ضروری بات کرنے کا کہہ کر اسے اپنے ساتھ دکان سے باہر لایا اور اپنی جیب سے پستول نکال کر اس پر فائرنگ شروع کردی۔قاتل نے تین فائر کیے جو مقتول کے سینے اور گردن پر لگے ، کامیاب واردات کرنے کے بعدملزم پرہجوم بازارمیں سے اپنی موٹر سائیکل پرباآسانی فرار ہوگیا۔چندر شرما اس وقت زخمی تھا اور اس کی حالت تشویش ناک نظر آرہی تھی، اطلاع ملنے پر پولیس نے فوری طور پر جائے واردات پر پہنچ کرزخمی چندر شرما کو اسپتال پہنچایا لیکن اس نے اسپتال پہنچنے سے قبل ہی دم توڑ دیا۔پولیس کی ایک ٹیم نے جائے واردات پر موجود، عینی شاہدین کے بیانات قلم بند کیےاور پولیس نے شک کی بنیاد پر ایک شخص انیل کولہی کو گرفتار کیاجسے بعد میں رہا کر دیاگیا۔ جس کے بعد سی سی ٹی وی فوٹیجز اور عینی شاہدین کی نشان دہی پر ایس ایس پی پولیس ، عمران قریشی نے تھر سمیت عمرکوٹ تک تفتیش کا دائرہ بڑھایا۔ سب سے پہلے شک کی بنیاد پر گرفتار شخص انیل کولہی کی مدد سے ملزم کی پہچان کی گئی اور با لآخرپولیس نے عمر کوٹ کے علاقے سےاصل قاتل سیتارام کولہی کو گرفتار کر لیا۔چونکہ مقتول کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے تھا اس لیے مذکورہ قتل کو سیاسی چپقلش کا شاخسانہ سمجھا جاتا رہا لیکن پولیس نے جب گرفتار ملزم کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سامنے پیش کیا تو کیس کا رخ ہی تبدیل ہو گیا۔
سیتارام کولہی نے ایس ایس پی تھر پارکر کی موجود گی میں میڈیا کو بتایا کہ مقتول چندر شرما کےمیری بیوی کو بلیک میل کرکے اس سے ناجائز تعلقات قائم کرلیے تھے۔ میری بیوی رینا کماری محکمہ صحت میں ایل ایچ وی ہے اورچندر شرما اسے متعلقہ محکمہ میں سپورٹ کرنے کے لیے اپنی مرضی کے مطابق سیاسی اثر رسوخ پر تبادلے کرواتا تھا،جس پرملزم کو اعتراض تھا۔ میری متعدد مرتبہ تنبیہ کے باوجود وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہا تھا ۔ کیوں کہ اسے ایک بااثر سیاسی شخصیت کی پشت پناہی حاصل تھی، اس لیے وہ جواب میں مجھے گرفتار کرانے کی دھمکیاں دیتا تھا۔ جس کے بعد میں نے اسے قتل کرنے کا ارادہ کیا ۔ میں غیرت کے نام پر اپنی بیوی کو بھی مارنا چاہتا تھا مگر وہ بچ گئی۔۔ایس ایس پی تھرپارکر عمران قریشی نے میڈیا کو بتایا کہ ملزم انیل کولہی کو مقتول پر شبہ تھا کہ وہ اس کی بیوی کو بلیک میل کرکے اس سے ناجائز تعلقات قائم کیے ہوئے جس کی بنا پر اس نے اسے قتل کردیا۔ ملزم کی تحویل سے واردات میں استعمال ہونے والا پستول اور موٹر سائیکل بھی برآمد کرلی گئی ہے۔ اس کیس کی ہر زاوئیے سے تفتیش کی جارہی ہے اور۔تمام قانونی ضرورتیں پوری کر کے چالان عدالت میںپیش کیا جائے گا۔انہوں نے مزید بتایا کہ مذکورہ واردات ملزم نے تنہا ہی کی تھی اور اس میں کسی دوسرے شخص کے ملوث ہونے کے ثبوت نہیں ملے ہیں۔ دوسری جانب مقتول کے ورثاء ، ملزم کی گرفتاری اور اس کے بیانات کی تردید یا تصدیق کے لیے پولیس کے سامنے پیش ہوئے اورنہ ہی انہوں نے اپنا موقف ریکارڈ کروایا ۔
اس سلسلے میں سول سوسائٹی کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ ضلع کے سرکاری اداروں میں کام کرنے والی خواتین عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ببعض عناصر انہیں تبادلوں، قبل ازوقت ریٹائرمنٹ،معطلی یا نوکری ختم ہونے کا خوف دلا کر ان سے اپنی خواہشات کی تکمیل کرتے ہیں۔ وہ اس قدر طاقت ور حیثیت رکھتے ہیں کہ کوئی ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا ، پریشانیوں سے تنگ آنے کی وجہ سے ایسے واقعات جنم لیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہےکہ ہر تھانے میں ویمن شکایتی سیل کا قیام عمل میں لایا جائے جس میں ورکنگ خواتین کی شکایات پر فوری کارروائی کرتے ہوئے ان کا ازالہ کیا جائے اور بلیک میلنگ گروہ کے ارکان خواہ وہ کتنے ہی طاقت ور کیوں نہ ہوں ، انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے ورنہ ضلع میں قتل و غارت گری کے مزید واقعات جنم لے سکتے ہیں۔