جہانزیب راضی
بینش نے جھنجلا کر کتاب رکھی اور کہا ’’اُف میں تو تھک گئی ہوں، اردو کا یہ مضمون یاد ہی نہیں ہو رہا، ا انگلش پڑھنے میں تو کبھی مسئلہ نہیں ہوتا، پتا نہیں کیوں اسے یاد کرنے میں گھنٹوں گزر جاتے ہیں۔ اس نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔ اردو بھی آسان ہے، نرسری سے پڑھ رہی ہو، گھر میں بولی جاتی ہے، بس خواہ مخواہ کا مسئلہ بنا یا ہوا ہے تم نے اس کی امی نے ڈانٹتے ہوئے کہا، تو بینش نے چپ چاپ دوبارہ یاد کرنا شروع کردیا۔‘‘
یہ صرف ایک واقعہ نہیںبلکہ ہماری نسل نومیں اُبھرنے والی سوچ ہے، جو انہیں اپنی قومی زبان سے دور کر رہی ہے۔ گزشتہ چند عشروں سے ہماری قوم میں تنزلی کے جو آثار نمودار ہوئے ہیں، اپنی زبان سے دوری بھی ان آثار کا ایک حصہ ہے۔اس میں نئی نسل سے زیادہ گھر کے بڑے قصوروار ہیں، جنہوں نے بچوں کو ابتدا سے ہی انگریزی سکھانے پر تو توجہ دی ،مگر اُردو کو یکسرنظر انداز کردیا۔یہ ہمارے نصاب کا حصہ تو ہے ،مگر شاید ہماری توجہ سے سب سے زیادہ محروم ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ جہاںسرکاری اسکولوں میں مسائل میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، وہیں گلی محلوں میں کھلنے والے نام نہاد انگلش میڈیم اسکولوں نے انگریزی کا تو جو برا حال کیا سو کیا، اردو بھی بگاڑ دی۔ہم یہ نہیں کہتے کہ انگریزی یا دیگر بین الاقوامی زبانیں نہیں سیکھنی چاہییںلیکن نسل نو کو اپنی زبان کی اہمیت و افادیت سے لا علم نہیں ہونا چاہیے۔گھر میں مہمانوں کے سامنے بچوں کو انگریزی زبان میں تلقین و سرزنش کی جاتی ہے تاکہ ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کا رعب ان پرپڑے۔
لمحۂ فکریہ تو یہ ہے کہ ہماری نسل نو اپنی بہت سی روایات، تہذیب، افکار کی طرح اپنی زبان بھی نہ فراموش کردے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس بات کی نشاندہی سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟ کیا ہمارے یہ کہنے سے کہ ہماری نئی نسل کو اپنی زبان پر فخر کرنا چاہیے، سوچ میں تبدیلی آجائے گی؟ ہرگز نہیں! اگر ہمیں واقعی اپنی زبان کو آگے بڑھانا ہے تو ہمیں اس کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ ایسی راہیں تلاش کرنی ہوں گی جن پر عمل کر کے ہم اسے پروان چڑھا سکیں۔چین اور جاپان کے وزرائے اعظم انگریزی سمجھنے کے لیے مترجم کا سہارا لیتے ہیں اور اپنی تقاریر اپنی زبانوں میں کرتے ہیں تو ہمارا رویہ یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی زبان سے مخلص ہیں، لیکن اگر ہمارا کوئی سیاستدان، وزیر یا ٹی وی اداکار انگریزی سے لاعلمی یا کم علمی کا اظہار کرے تو ہم ان کا مذاق اُڑاتے ہیں۔خود دار اور با وقار قومیں ہمیشہ اپنی تہذیب و ثقافت، اپنی زبان پر فخر کرتی ہیں،اس کی قدر کرتی اور اسے فروغ دینے کی کوشش کرتی ہیں۔ کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی مثال لے لیجیے وہ ہمیشہ نسل نومیں اپنی زبان سے محبت کرنےاور اسے سیکھنے کی تعلیم دیتا ہوا ہی نظر آئے گا ،ان کی وجہ سے احساس کمتری میں مبتلا ہو کر خود کو کم تر یا بیرونی دنیا سے کٹ کر الگ تھلگ ہونے کا احساس انہیں اپنی ثقافت اور زبان سے بے رخی اختیار کرنے کا درس دیتا ہے۔ دنیا میں جن اقوام نے ترقی کے مدارج تیزی سے طے کیے ہیں، سب نے ہمیشہ اپنی ثقافت اور قومی زبان کو فوقیت دی ۔ اس امر سے انکار بھی ممکن نہیں، کہ انگریزی زبان کی اپنی جگہ اہمیت اور افادیت ہے۔اگر ہم نے بین الاقوامی معاملات اور علوم و فنون پر دسترس حاصل کرنی ہے، تو دیگر زبانیں بھی سیکھنی ہوں گی، لیکن اپنی قومی زبان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ ہر قوم کو اپنی شناخت اور پہچان کے لیے چند مخصوص علامتوں کی ضرورت ہوتی ہے، جو اسے دنیا کی دوسری اقوام سے منفرد بناتی ہے۔ زبان بھی ان علامتوں میں سے ایک ہے، جو کسی بھی قوم کی پہچان ہوتی ہے۔ یہ کسی بھی ملک کے عوام کے درمیان تعلقات بڑھانے اور اس ملک کے اتحاد و یکجہتی اور استحکام کا ذریعہ ہے۔کیا آپ نے کبھی کسی انگریز کو یہ کہتے سنا ہے کہ وہ اچھی انگریزی نہیں بول سکتا؟ کبھی کسی جرمن کو اپنی زبان پر شرمندہ ہوتے دیکھا ہے؟ تو کیوں ہم بڑے فخر سے محفلوں میں کہتے نظر آتے ہیں کہ ’’ہمارے بچوں کی اردو کمزور ہے‘‘اسی ملک کےتعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والے، گھروں میں اردو یا کوئی علاقائی مادری زبان بولنے والے یہ کہتے ہوئے ذرا ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے؟ املا غلط، تلفظ غلط اور افسوس کی بات یہ کہ اس غلطی کو سدھارنے کے بہ جائے اس کا فخریہ اعلان۔اردو ایک ایسی زبان ہے جس میں علم وادب کا بہت بڑا خزانہ موجود ہے، اس کو لشکری زبان بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ اس میں دوسری کئی زبانوں مثلاً فارسی، ہندی اور انگریزی زبانوں کے الفاظ بھی موجود ہیں۔لیکن ہمارے یہاں بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے کبھی بھی اپنی زبان کو اپنی پہچان نہیں سمجھا بلکہ ہمیشہ انگریزی زبان کو بولنے میں فخر محسوس کیا۔ ہمارے یہاں معلم، ماں باپ اپنے بچوں کو یہ تر غیب دیتے ہیں کہ بیٹا اگر اس معاشرے میں ترقی کرنی ہے اور دنیا کا مقابلہ کرنا ہے تو انگریزی زبان کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لو اور زیادہ سے زیادہ انگریزی میں بات کیا کرو۔ ہمارے یہاں یہ عام تاثر ہے کہ وہ بچے جو اسکول اور کالجز میں انگریزی میں تھوڑے کمزور ہوتے ہیں انہیں اساتذہ کرام بار بار اس بات کا طعنہ دے کر احساس کمتری کا شکار بنا دیتے ہیں اور وہ بچے صرف اس وجہ سے کہ ان کی انگریزی کمزور ہے، بے شمار صلاحیتوں کے باوجود بھی تمام عمر احساس کمتری میں مبتلا رہتے ہیں اور کوئی خاطر خواہ کارنامہ سر انجام نہیں دے پاتے جو کہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔اگر ہمیں بحیثیت قوم ترقی کرنی ہے اور اقوام عالم میں سرخرو ہونا ہے تو اپنے وسائل پہ نہ صرف بھروسا کرنا ہو گا بلکہ اپنی ہر چیز پہ فخرکرنا ہو گا اور اپنے سچ کے ساتھ زندگی گزارنا ہو گی۔