علی اکبر کانڈھڑو،میہڑ
اس ترقی یافتہ دور میں جب دنیا سائنسی ترقی کی معراج پر پہنچ چکی ہے، دنیا بھر کے ممالک کے روایتی اقدار بدل چکے ہیں۔ گزشتہ صدی کی نصف دہائی تک مشرقی ہی نہیں مغربی ممالک میں بھی خواتین کو کمتر مخلوق میں شمار کیا جاتا تھا لیکن آج تحفظ نسواں اور عورتوں کے حقوق سے متعلق عالمی قوانین بننے کے بعد خواتین کو مردوں کی حاکمیت ختم کرکے مساوی حقوق حاصل ہوگئے ہیں اور ان کے بارے میں جو صنف نازک تاثر تھا،زائل ہوچکا ہے ۔انہیں مردوں کے ظلم تشدد سےنجات دلوانے کے لیے عدالتی فورم موجود ہیں، خواتین کے حقوق کا تحفظ کرنے والی تنظیمیں بھی ہر شہر میں کام کررہی ہیں جب کہ ہمارے ملک میں ترقی خواتین کے نام سے وفاق اور صوبائی وزارتیں بھی موجود ہیں۔ آج عالمی معاشرے میں خواتین صنف قوی سے بھی زیادہ کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہیں۔
پاکستان کے شہری علاقوں میں بھی ہمت نسواں کے عملی مظاہرے دیکھنے میں آتے ہیں۔ ملک کی بہت سی خواتین مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہیں۔ لیکن ملک کے دیہی خصوصی طور پر سندھ کے نواحی علاقوں میں خواتین آج بھی غیر انسانی مخلوق جیسی زندگی بسر کررہی ہیں۔ وہ اپنے مرد آقاؤں کے ظلم و جبر کا شکار ہیں جو تمام ملکی و بین الاقوامی قوانین سے مبرا ہیں۔ انہوں نے اپنی عدالتیں قائم کی ہوئی ہیں جنہیں جرگہ کہتے ہیں جہاں عورتوں کی موت و زیست کے فیصلے مردوں کی مرضی کے مطابق کیے جاتے ہیں۔ سندھ کی دیہی خواتین کا کام صرف مردوں کی غلامی کرنا، بچے پالنا اور اپنے مردوں کی نفسانی خواہشات پوری کرنا ہے۔ ان کے اپنے جذبات اور احساسات مردہ ہوچکے ہیں اوروہ ایک روبوٹ کی مانند زندگی گزار رہی ہیں۔
اندرون سندھ کے نواحی علاقوں میں حکومتی رٹ نہ ہونے کے برابرہے، خواتین سے متعلق سمیت زمین و جائیداد کے ’’مقدمات‘‘ جرگوں کے سامنے پیش کیے جاتے ہیںاور ان کے فیصلوں پر عمل کرنافریقین کے لیے لازمی ہوتا ہے۔ ضلع دادو کے تعلقہ میہڑمیںعورتیں مردوں کے ظلم و جبر کا شکار رہتی ہیں۔ان کی زندگی ان کے شوہروں کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ جب تک چاہتے ہیں ان کی بیویاں زندگی کی سانسیں لیتی ہیں۔ شوہر کبھی اپنی شریک حیات کو روٹی دیر سے پکانے پر قتل کردیتے ہیںکبھی کارو کاری کے الزام لگا ر،کبھی رشتہ نہ ملنے پر چراغ پا ہوکر مطلوبہ عورت کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔سندھ کے دیہی علاقوں میںمعمولی باتوں پر خواتین کو قتل کرنے کا سلسلہ جاری ہے اورقانون کی عمل داری نہ ہونے کی وجہ سے ان کے قاتل سزا سے بچ جاتے ہیں۔
میہڑ کے گائوں قائم جتوئی کی رہائشی عورت 3 بچوں کی ماں مسمات بلقیساں عرف بلقیس بروہی کونامعلوم افراد نے 20 روز قبل مبینہ اغواکیا اور اس کے ساتھ زیادتی کے بعد اس پر بیہمانہ تشدد کیا گیا۔ تیز دھار آلے سے اس کے چہرے اور گلے پر زخم لگائے گئے، اس کے بعد اس کا لگا گھونٹ کر ہلاک کردیا۔ہلاکت کے بعد مقتولہ کی لاش بی سیکشن تھانہ کی حدود گاوں تہیبا کے علاقے میں ایک واٹر کورس کے کنارے پر پھینک دی گئی ۔نہ تو قاتلوں کا پتہ چل سکا اور نہ ہی اس قتل کی وجوہات معلوم ہوسکیں۔مقتولہ بلقیساںکے والد حاجی اسد بروہی نے نمائندہ جنگ کو بتایا کہ بلقیس کے اغوا کی ہم نے تھانہ فریدآباد میںاظلاع دی لیکن پولیس نے نہ تو رپورٹ درج کی اور نہ ہی اس کی تلاش کے سلسلے میں کوئی کارروائی کی ۔ انہوں نے بتایا کہ جب وہ میت کو تدفین کےلیے لے جارہے تھے تو اس دوران بی سیکشن تھانہ کے ایس ایچ اوسے ملاقات ہوگئی ہم نے ان سے کہا کہ ہم لاش دفن کر کے واپس آتے ہیںجس کے بعد قتل کی ایف آئی آر درج کرائیں گےلیکن جب ہم میت دفنا کر تھانے آئے تو پولیس اس سے قبل اے ایس آئی غلام مصطفی سولنگی کی مدعیت میں سرکار کی طرف نامعلوم ملزمان کے خلاف ایف آئی آر کاٹ چکی تھی۔ ہم نے جب اپنی مدعیت میں پولیس سے اپنی بیٹی کے اغوا اور قتل کی دوسری ایف آئی آردرج کرنے کے لیے اصرار کیا تو افسران نے کہا کہ اس قتل کی ایف آئی آر سرکار کی طرف سے داخل کی گئی ہے ۔اب آپ کی طرف سے دوسری ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی ہے ۔
مقتولہ کے والد اسد بروہی اورمقتولہ کے رشتہ داروں نے جب اس پر احتجاج کیا تو پولیس والوں نے انہیں دھمکیاں دے کر بھگا دیا۔ معاملہ میڈیا کے سامنے آنے کے بعد پولیس نے خانہ پری کرنے کیلئے بلقیس کے قتل کے الزام میں ایک عورت زینب بروہی اور اس کے شوہر عاشق جتوئی کو گرفتار کر لیا، جن پر پولیس کی جانب سے قتل کے سہولت کار ہونے کے الزامات عائد کیے گئے تھے جب کہ اصل قاتل پولیس کی دس ترس سے آزاد تھے ۔
مقتولہ کے والد حاجی اسد بروہی نےمقامی عدالت میں اپنے وکیل گل حسن مغیری کے توسط سےپٹیشن دائر کی جس میں قتل کے نامزد ملزمان برکت،شبیر،امتیاز،عاشق اور دیگر کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے اور ملزمان کے خلاف کارروائی کی استدعا کی گئی تھی، جس کے بعد عدالت کے حکم پر پولیس نے امتیاز بروہی نامی شخص کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرکے بتایا کہ یہ قتل کا اصل ملزم ہے اور اس نے اعتراف جرم کرلیا ہے اوراس کے بیان کے مطابق ، اس نےیہ واردات تنہا ہی انجام دی ہے۔ اس کےبعد قتل کی معاونت کے الزام میںحراست میں لیے گئے مسمات زینب اور اس کے شوہر عاشق جتوئی اور دیگر کو رہا کر دیاگیا ۔عدالت نے پولیس کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے دیگر شریک ملزمان کی گرفتاری کا بھی حکم دیا۔ اس لرزہ خیزقتل کی واردات کو تین ہفتے گزر چکے ہیں لیکن باقی ملزمان کو اب تک گرفتار نہیں کیا جاسکا جب کہ مقتولہ کے والد اور دیگر رشتے دار انصاف کے حصول کے لیے مسلسل تھانے اور عدالت کا چکر کاٹ رہے ہیں۔