غلام عبا س بھنبھرو ،خیرپور
کچے کے علاقے ایک مرتبہ پھر ڈاکوؤں کی محفوظ پناہ گاہیں بن گئے ہیں۔ حکومتی رٹ کمزور ہونے کی وجہ سے ان کے حوصلے اتنے بلند ہوگئے ہیں کہ اپنی کمین گاہوں سے نکل کر شہری علاقوں پر حملہ آور ہوکر لوگوں کی جان و مال کی بربادی کا باعث بن رہے ہیں۔ سندھ میں ڈاکوؤںکے گروہ عرصہ دراز سے سرگرم ہیں۔ خیرپور ،سکھر ،گھوٹکی ،کندھ کوٹ کشمور ،شکارپور ،جیکب آباد،قمبر، شہداد کوٹ ،لاڑکانہ ،دادو ،نواب شاہ اور نوشہروفیروز میں دریائے سندھ کے دائیں اور بائیں کنارے کے جنگلات ڈاکوؤں کی آماج گاہیں رہی ہیں۔ خیرپور میں دریائے سندھ کے بائیں کنارے ببرلو سے سگیوں تک ایک سو سے زائد کلو میٹر کی اراضی گھنے جنگلات پر مشتمل ہے۔ دریائے سندھ خیرپور ،پریالو،کوٹ میر محمد،پیر جو گوٹھ،گمبٹ، اگڑا،صوبھوڈیرو، رانی پور،ہنگورجہ ،رسول آباداورسمی سگیوں کے قریب سے گزرتا ہے جس سے متصل علاقے ڈاکوؤں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ خیرپور کے شہری و دیہاتی علاقے زیادہ تر ڈاکوؤں کے نشانے پر رہتے ہیںجب کہ خیرپور ضلع ،قبائلی تنازعات و خونریزی کے واقعات کا بھی مرکز رہا ہے ۔ماضی میں ناریجا ،کھرل،کلہوڑا،سولنگی ،جاگیرانی،الرا ،اڈھا،انصاری ،پھلپھوٹہ ،سہاگ ،سندیلا، قناصرا، پتافی اور دیگر کئی قبائل کی باہمی دشمنی کی وجہ سے سیکڑوں افرادہلاک ہو چکے ہیں اور کئی قبائل ابھی تک آپس میں دست گریبان ہیں ۔
ڈاکو ؤں کےگر وہوں کے خلاف مختلف ادوار میں بڑے آپریشن کیے گئے جن میں کئی گروہوں کا خاتمہ ہوا اور بے شمار ڈاکو جہنم واصل ہوئے۔ کچھ عرصے تک شہریوں نے سکھ کا سانس لیا لیکن سیاسی حالات کی وجہ سے جب ملک کی صورت حال عدم استحکام کا شکار ہوئی یاحکومتیں تبدیل ہوئیں تو ان حالات سے ڈاکو ؤں نے توفائدہ اٹھا کر اپنی قوت کو مجتمع کرکے دوبارہ اپنے گروہ منظم کیے، جس کی وجہ سے صوبہ سندھ میں ایک مرتبہ پھر ڈاکوؤں کی عمل داری قائم ہوگئی اور شہری علاقے ان کے نشانے پر آگئے۔ اس وقت بھی ڈاکوؤںکے کئی گر وہ دریائے سندھ کے دائیں اور بائیں کنارے کے جنگلات میں اپنی کمین گاہیں قائم ہوئے ہیں۔ حال ہی میں خیرپور کے علاقے کوٹ میر محمد کے قریب گوٹھ بھٹہ پر ڈاکوؤ ں نے حملہ کیا اور صدر الدین بھٹو کی اوطاق پرفائرنگ کرکے، اوطاق میں سوئے ہوئے دو دیہاتیوں فیاض حسین بھٹو اور غلام سرور بھٹو کو موت کےگھاٹ اتار دیا، جب کہ دو دیگر،افراد راشد بھٹو اور غلام مصطفیٰ بھٹو اس حملے میںشدید زخمی ہو گئے۔ ڈاکوؤں کے ہاتھوںمارے جانے والے فیاض بھٹو اور غلام سرور بھٹو آپس میں ماموں بھانجے تھے۔روزنامہ جنگ کو موصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق ،بھٹہ گاؤں پر ڈاکوؤں کے حملےکی وجوہات یوں ہیں کہ دو سال قبل کوٹ میر محمد کے قریب پولیس کا ڈاکوؤں کے ساتھ مقابلہ ہوا تھا جس میں ڈاکو بلاول ناریجو مارا گیاجب کہ ڈاکوؤں کی فائرنگ سے دو پولیس اہل کار شہید اور ایک اہل کار عطا محمد بھٹو زخمی ہوا تھا۔
بعد ازاں پولیس مقابلے میں مارے جانے والے ڈاکو بلاول ناریجو کے ساتھیوں نے زخمی پولیس اہل کارپر الزام لگایا تھا کہ اس نے مخبری کر کے ڈاکو بلاول ناریجو کو پولیس مقابلے میں ہلاک کر ایاہے۔ اپنے ساتھی کی موت کا کابدلہ لینے کے لیےوہ کافی عرصے سے کوشاں تھے، جس کا موقع انہیں چند روز پیشتر ملا۔ انہوں نے مذکورہ پولیس اہل کار کی اوطاق میں موجودگی کی اطلاع پاکر انتہائی منظم طریقے پر حملہ کیالیکن حملے کے وقت پولیس اہل کار عطا محمد اوراوطاق کے مالک صدر الدین بھٹو اوطاق میں موجود نہیں تھے جس کی وجہ سےوہ اس حملے سے محفوظ رہے۔ عطا محمد بھٹواور اوطاق کےمالک صدر الدین بھٹو آپس میں چچازاد بھائی بتائے جاتے ہیں۔اس خونیں واقعے سے علاقے میں خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے، جب کہ سیاسی و سماجی رہنماؤںنے اسے قانون کی عمل داری قائم نہ ہونے کا نتیجہ قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کچے کے جنگلات کے قریبی علاقے ڈاکوؤں کے نشانے پر ہیں، اور ان کے باشندے حالیہ واقعے کے بعدان میں عدم تحفظ کا احساس شدید ہوا ہے۔
دوہرے قتل کا ایک افسوس ناک واقعہ سول اسپتال خیرپورکی ایمپلائز کالونی میں ہوا جہاںوالدین کی مرضی کے خلاف پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کی لاشیں سرکاری کوارٹر سے ملیں ۔یہ لاشیں سول اسپتال کی اسٹاف نرس مسماۃ راحیلہ اور سیپکو کے لائین سپرنٹنڈنٹ خیر محمدمیرانی کی تھیں۔ باوثوق ذرائع کے مطابق ،خیر محمد میرانی نے 14سال قبل مسماۃ راحیلہ کے ساتھ پسند کی شادی کی تھی ۔ ان کے یہاںایک بیٹی مسماۃ رمشا اور دو بیٹوں شایان اور شاہ زیننے جنم لیا۔ کچھ عرصہ قبل مسماۃ راحیلہ اپنے تینوں بچو ں سمیت گھر سے لاپتہ ہوگئی تھیں ، ان کے شوہر خیر محمدنے بی سیکشن تھانے میں بیوی اور بچوں کے اغوا کا مقدمہ درج کرایاتھا۔ پولیس نے شبہے کی بنیاد پر بعض افراد کو گرفتاربھی کیا تھا،تاہم کچھ روز کے بعد مسماۃ راحیلہ تینوں بچوں کے ہمراہ واپس اپنے گھر آگئیں اور وہ اپنے شوہر خیر محمد کے ساتھ سول اسپتال کے کوارٹر میں رہ رہی تھیں ۔ کچھ روزقبل سے ان کا کوارٹر مقفل تھا لیکن اس میں سے بدبو اٹھ رہی تھی۔ پڑوسیوں نے پولیس کو اطلاع دی، جس نے اسپتال کے عملے کےہم راہ دروازے کے تالے توڑے تومسماۃ راحیلہ اور خیر محمد کوارٹر کے اندر مردہ حالت میں پڑے ہوئے تھے اور خیر محمد کے قریب پستول پڑا ہوا تھا جب کہ دونوں افرادکے جسم پر گولیوں کے نشانات تھے۔ واقعے کے وقت ان کے تینوں بچے کوارٹر میں موجود نہیں تھے اور وہ اپنے چچاؤں کے پاس رہنے گئے ہوئے تھے ۔
تفتیشی افسرنےجنگ سے گفتگو کرتے ہوئے اس جوڑے کی موت کو پراسرار واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ جائے واردات کا معائنہ کرنے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ خیرمحمد میرانی نے اپنی بیوی کی گمشدگی کے بعد دوبارہ گھر آنے کی وجہ سے غلط فہمی کی بنا پر راحیلہ کو گولی مار کر خود کو بھی ہلاک کرلیالیکن یہ حتمی رائے نہیں ہے کیوں کہ یہ واقعہ دوہرے قتل کا بھی ہوسکتا ہے اورملزمان نے پولیس کو گمراہ کرنے کے لیے خیر محمد کی لاش کے قریب پستول ڈال دیاہو ۔ تاہم واقعے کی اصل وجو ہات کا پتہ چلانے کے لیے متوفی افراد کی پوسٹ مارٹم اورموت کی وجہ بننے والےپستول کی فرانزک رپورٹ کا انتظار ہے۔ اس سلسلے میں ہر پہلو سے تحقیقات کی جارہی ہے۔