• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مودود احمد ،جھڈو

زیریں سندھ کے اضلاع میں پچھلے تین عشروں کے دوران مختلف مقامات پرزمیں داروں کی "نجی جیلوں"یا بیگار کیمپس کا سراغ لگانے کے بعدان میں غیرقانونی طور سےقید، 25سے 30ہزار ہاریوں کو آزاد کروایا گیا ہے ۔نجی جیلوں کے بارے میں اس وقت پتہ چلا جب اس کی چھان بین کی ابتدا ٹنڈو الہ یار سے ہوئی۔ا نہیں شہرت اس وقت حاصل ہوئی جب جھڈو سے منو بھیل کے خاندان کے افراد کی مبینہ گمشدگی کا معاملہ سامنے منظر عام پر آیا۔ منو بھیل کیس پر سپریم کورٹ نے ایکشن لیا جب کہ اس کی بازگشت اسمبلیوں تک میں سنائی دیتی رہی۔ اس کیس میں، اس وقت کے آئی جی سندھ سے لے کر ​جھڈو پولیس اسٹیشن کے سپاہی تک محکمہ جاتی کارروائیوں اور عدالتی احکامات کی زد میں آگئے۔

نجی جیل ایک ایسا ایشو ہے جس پر زیادہ تر افراد کی رائے ہے کہ" یہ سب بلیک میلنگ ہتھکنڈے اور زراعت کو تباہ کرنے کی سازش ہے "۔جنگ کے نمائندے نے اس بات کی چھان بین کےلیے قانونی ماہرین ، پولیس حکام ، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور اس کیس کے مرکزی فریقین یعنی زمیندار اور ہاریوں سے گفتگو کی تو دو اہم اور بنیادی باتیں سامنے آئیں ۔

ایس ایچ او جھڈو عبدالستار گرگیز نےجنگ سےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالت، وکیل اور پولیس قانون کے دائرے سے باہرنکل کر ذاتی پسند یا نا پسند کی بناء پر کاروائی نہیں کر سکتے ،یہی وجہ ہے کہ روز مرہ نجی جیلوں کی خبریں اخبارات میں شائع ہوتی ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے ٹنڈو الہ یار، سانگھڑ اور میرپورخاص اضلاع میں گنتی کے چند واقعات ایسے سامنے آئے جن میں اینٹوں کے بھٹوں اور زرعی زمینوں پر ظالم جاگیرداروں نے مزدوروں اور ہاریوں کو زنجیروں میں جکڑ کر قید کیا تھا لیکن زیادہ تر کارروائیوں میں پولیس کو زمیندار کی طرف سے زبردستی ،جبری قید یا گن پوائنٹ پر ہاریوں سے کام لینے کے بارے میں کوئی بھی شواہد نہیں ملے۔ایس ایچ اونے مزید کہا کہ ہاریوں کو عدالت کے روبروپیش کرتے ہوئے پولیس کی طرف سے سرزمین کی رپورٹ بھی پیش کی جاتی ہے جس میںنجی جیل پر چھاپے کے وقت کی تمام صورت حال تحریر کی جاتی ہے۔ہم نے ملاحظہ کیا تھا کہ ہاری آزادانہ ماحول میں گھوم پھر رہے تھے، ان پر کوئی بندش نہیں تھی اور نہ ہی قید میں رکھے گئے تھے۔

اس سلسلے میں معروف وکلاء، میر پرویز اختر تالپور ، ایڈووکیٹ ممتاز علی کھوسو اور ایڈووکیٹ اشفاق احمد راجپوت کا کہنا ہے کہ، بانڈڈ لیبر سسٹم ایکٹ1992کے تحت زمیندار ہاری پراپنے واجب الادا پیسے وصول کرنے کے لیےاسے اپنی تحویل میں رکھنے کامجاز نہیں ہے ، اگر کسی زمیندار پر ہاریوں سے جبری مشقت لینے کا الزام ثابت ہو جائے تو عدالت مذکورہ زمیندار کو سزا سنانے کا اختیار رکھتی ہے ۔ اسی طرح ایک زمیندار اپنے ہاریوں کو کسی بھی طریقے سے دوسرے زمیندار کے ہاتھ فروخت نہیں کر سکتا ۔ ہاریوں پر واجب الادا قرض دوسرے زمیندار سے وصول کر کے اپنے ہاری اس کے حوالے کر دینا انسانی اسمگلنگ یا ہیومین ٹریفکنگ کے زمرے میں آتا ہے ۔تاہم ہاری پر واجب الادا پیسہ وصول کرنے کے لیے سندھ ٹیننسی امینڈمینٹ ایکٹ2013کے تحت عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔ تاہم ہوتا یہ ہے کہ قوانین سے ناواقفیت کی بناء پر دونو ں طرف سے اوچھے ہتھکنڈے آزمائے جاتے ہیں، پے درپے جھوٹے اور فرضی کیس بنا بنا کر پولیس اور عدالتوں کو الجھایا اور عدلیہ کا وقت برباد کیا جاتا ہے ۔ ان حالات میں موقع پرست عناصر بھی اپنا حصہ کھرا کرنے میں پوری مہارت دکھاتے ہیں ۔ میر پرویز اختر تالپور، اشفاق احمد راجپوت اور ممتاز علی کھوسو نے بتایا کہ مذکورہ بالا قوانین کے باوجود عدالت میں 98 فیصد درخواستیں CRPC-491کے تحت دائر کی جاتی ہیں ۔

نجی جیلوں کا الزام عائد کرنے کے لیے دفعہ 491کو بڑی آسانی سے استعمال کیا جاتا ہے اور صرف ایک درخواست کے ذریعے درجنوں ہاری اپنا مال اسباب سمیٹ کر روانہ ہو جاتے ہیں ۔ دفعہ491کے تحت دی گئی درخواست کے پیچھے عموماََ جھوٹی کہانی ہوتی ہے ۔

نصیر کینال ٹیل آبادگار ایکشن کمیٹی کے رکن زمیندار محمود اعظم ، نےبتایاکہ زیریں سندھ کے اضلاع میرپورخاص ،تھرپارکر، بدین ، عمرکوٹ، سانگھڑ اور ٹنڈو الہیار کے علاوہ پورے سندھ میں نجی جیل کا کوئی وجود نہیں ہے ۔ مذکورہ 6اضلاع میں سے نجی جیل کے جو بھی کیس پولیس یا میڈیا کے سامنے ریکارڈ پر آئے ان میں سے ٹنڈو الہیار اور سانگھڑ میں ہونے والے چند واقعات میں حقیقت تھی لیکن مجموعی طور پر95فیصد کیسز بلیک میلنگ یا زمینداروں کی طرف سے دیا گیا پیسہ ہڑپ کرنے کی نیت سے بنائے جاتے ہیں ۔ زمینداروں نے کہا کہ کاشت کاری، زمیندار اور کسان کا باہمی روزگار ہے جس میں ہاری کے ذمہ ہل چلانا(کھیڑی)، فصل کی ہر قسم کی سنبھال اور کھاد، ذرعی دوا، چونڈائی کے اخراجات کا نصف ادا کرنا ہوتا ہے، لیکن ہاری چونکہ نقد ادائیگی نہیں کر سکتا اس لیے ہاری کا خرچہ بھی زمیندار کی جیب سے دیا جاتا ہے جو کہ فصل اترنے پر زمیندار نے وصول کرنا ہوتا ہے، لیکن کھیڑی سے فصل اترنے تک کے وقت میں ہاری کے گھر میں کسی بھی بیماری، شادی یا غمی، بچے کی ولادت، مذہبی تہوار، گھر کے راشن تک کے لیے ہاری اپنے زمیندار سے پیسے لیتا رہتا ہے جو کہ فصل کے اترنے تک اتنا بڑھ جاتا ہے کہ اتنی فصل کی قیمت بھی نہیں ہوتی ۔ یہی وہ موقع ہوتا ہے کہ جب ہاری کا ایمان خراب ہو جاتا ہے لہذاہاری کھڑی فصلیں چھوڑ کر فرار ہونے کو ترجیح دیتا ہے ۔ جس سے زمیندار کا لاکھوں روپیہ ڈوب جاتا ہے ۔ ہاری جب بھاگتا ہے تو اپنے مال اسباب سمیت زمیندار کے مویشی بھی ساتھ لے جاتا ہے جس کی واپسی کے لیے زمیندار کو کورٹ تھانہ کے چکر لگانا پڑتے ہیں ۔ رشید احمد نے بتایا کہ آج کل میڈیا کیا آنکھ سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے اور ہاری بھی جدید دور میں قدم رکھ چکے ہیں اور زمیندار کی طرف سے بھی انہیں پوری آزادی ہے ۔

زیریں سندھ کے تمام شہروں میں جو بھی نئی بستیاں اور کالونیاں بن رہی ہیں ان میں آباد ہونے والوں کی اکثریت ہاریوں کی ہے جو تیزی سے شہروں میں مکان ، دوکان اور ذاتی کاروبار بنا رہے ہیں ۔ لیکن ان کے برعکس زیریں سندھ کی ذراعت اور زمینداروں کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور نجی جیلوں کے پروپیگنڈے کی وجہ سے زرعی معیشت کو 10ارب روپے کا دھچکا لگ چکا ہے، سند ھ کی زرعی معیشت کو تباہ ہونے سےبچانے کے لیے ہاریوںکو اصول و ضوابط، قواعد و قوانین کاپابند بنانے کے ساتھ نجی جیلوں کے پروپیگنڈے کا بند کیا جانا ضروری ہے ۔

تازہ ترین
تازہ ترین