نئے پارلیمانی سال کا آغاز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے خطاب سے ہوا جس کے آغاز پر ہی اپوزیشن کی بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن)، اس کی اتحادی جمعیت علمائے اسلام اور دیگر ہم خیال جماعتوں کے ارکان نے ایوان میں احتجاج اور واک آئوٹ کیا۔ اس لئے یہ بھی کہا جا سکتا ہےکہ نئے پارلیمانی سال کا آغاز احتجاج اور واک آئوٹ سےہوا۔ حالانکہ یہ بات پہلے سے طے ہو چکی تھی کہ محترمہ کلثوم نواز کے انتقال کے سوگ اور اجلاس کو پرامن رکھنے کے لئے اپوزیشن ہنگامہ آرائی نہیں کرے گی اور یہ یقین دہانی اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے پاکستان تحریک انصاف کے راہنماؤں کو اُسی شب برطانوی ہائی کمشنر کی رہائش گاہ پر ہونے والے ایک اعشائیے میں شرکت کے دوران کرائی تھی۔ تاہم ایوان میں شہباز شریف کی عدم موجودگی کے باعث خواجہ محمد آصف جو اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کر رہے تھے احتجاج کا آغاز بھی انہوں نے ہی کیا تھا ،ان کا کہنا تھا کہ ہم احتجاج ہر گز نہیں کرنا چاہتے تھے ہم صرف یہ کہنا چاہتے تھے کہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے 2018 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف جس پارلیمانی کمیشن کا اعلان کیا تھا اس میں مسلسل تاخیری حربوں سے کام لیا جا رہا ہے اس لئے اس کمیشن کے قیام کا اعلان کیا جائے لیکن ہمیں بولنے کی اجازت نہیں دی گئی اس لئے ہم احتجاجاً ایوان سے واک آئوٹ کر گئے جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی نے ایوان سے واک آؤٹ تو نہیں کیا لیکن پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی حکومت کو تنبیہ کی تھی کہ اگر24گھنٹے کے اندر پارلیمانی کمیشن کا اعلان نہیں کیا گیا تو شدید ردعمل ظاہر کریں گے جس کے بعد اگلے ہی روز وزیراعظم عمران خان نے اپنے غیرملکی دورے پر روانہ ہونے سے قبل قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی اور اس موقع پر وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر تحقیقات کے لئے پارلیمانی کمیٹی کا اعلان کردیا۔ واضح رہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری تھی جس کی حکومت کو اب ایک ماہ کا عرصہ ہو گیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ صدر مملکت نے اپنے اولین خطاب میں بعض حقیقی مسائل اور ملک کو درپیش مستقبل کے بعض چیلنجز پر روشنی ڈالی اور بالخصوص عوام کی پریشانیوں اور دشواریوں کا بھی ذکر کیا لیکن اسی روز بلکہ صدر کی تقریر سے محض چند گھنٹے پیشتر تحریک انصاف کی حکومت نے گیس صارفین کے لے قیمتوں میں 10سے 143فیصد تک اضافہ کردیا تھا جبکہ بجلی اور کھاد کے کارخانوں اورسمیت سی۔ این۔ جی سمیت کمرشل سیکٹر کے لئے بھی گیس30سے 50فیصد تک مہنگی کردی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس فیصلے کی وجوہات کا ذمہ دار انہوں نے سابقہ حکومت کو ہی ٹھہرانا تھا۔ وزیراعظم عمران خان سادگی اورکفایت شعاری کے لئے مسلسل اقدامات کر رہے ہیں جس کا آغاز انہوں نے اپنی ذات سے کیا ہے ان کے بعض اقدامات تو واقعی قابل تحسین ہیں لیکن مسائل اور مصائب میں جکڑی ہوئی عوام کو فوری طور پر ریلیف چاہیئے عوام اپنے حالات کے باعث حکومت کے بڑے بڑے اقدامات سے زیادہ اپنی اپنی چھوٹی چھوٹی سہولتوں اور آسائشوں کی منتظر ہیں پانی، بجلی، گیس اور روز مرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں کمی اور ان کی باآسانی فراہمی میں ان کے لئے بڑی بڑی خوشیاں ہیں انہیں نہ تو گورنر ہائوس کھول دینے کی خوشی ہے نہ ہی وزیراعظم ہائوس کی گاڑیاں نیلام کر دینے سے کوئی سروکار۔ حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ خزانہ خالی ہونے کے باوجود مہنگائی کو کیسے روکنا ہے اور عوام کو کیسے ریلیف دینا ہے ۔
طے شدہ پروگرام کے تحت وزیراعظم عمران خان نے اپنا سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا دو روزہ دورہ مکمل کرلیا ہے جو وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد اُن کا پہلا غیر ملکی دورہ تھا۔ قابل ستائش یہ بات ہے کہ ماضی میں پاکستان کے حکمران اقتدار سنبھالنے کے بعد بڑی طاقتوں کے حضور سلامی کے لیے پیش ہوتے تھے جس کا فیصلہ اُن کے مسند اقتدار پر پہنچنے سے پہلے ہی ہو جاتاتھا لیکن اس مرتبہ وزیراعظم ان فیصلوں میں بھی تبدیلی لے آئے ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں وزیراعظم کا خیرمقدم اور مصروفیات کے مناظر کے بعد یہ دورہ خاصا کامیاب دکھائی دیتا ہے ۔وزیراعظم کے دورہ سعودی عرب سے چند روز پیشتر سعودی وزیراطلاعات ونشریات ڈاکٹر عواد بن صالح کا دورہ پاکستان بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا جنہوں نے پاکستان میں قیام کے دوران وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقاتیں کی تھیں جن میں یقیناً اہم اُمور زیر بحث آئے ہوں گے۔ شنید ہے کہ پاکستان نے 6سے 7 بلین ڈالر کے قرضے کے لیے بیجنگ اور ریاض سے اُمید لگائی ہوئی ہے اگر حکومت کی یہ اُمید پوری ہوجاتی ہے تو اُسے آئی ۔ ایم۔ ایف جانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ واضح رہے کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی حال ہی میں چین کا تین روزہ دورہ کیاہے۔
حکومت کی تشکیل کے بعد غیر ملکی مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔امریکہ ۔چین ۔ترکی اور جاپان کے وزرائے خارجہ ۔سعودی وزیراطلاعات کے بعد رواں ہفتے برطانوی وزیرداخلہ ساجد جاوید کی آمد خبروں کے حوالے سے خاصی ہنگامہ خیز رہی۔ پاکستانی نژاد ساجد جاوید کا خاندان 1960کی دہائی میں برطانیہ منتقل ہواتھاان کے والد بس ڈرائیور تھے جبکہ وہ خود جہد مسلسل سے 2010 میں برطانوی پارلیمنٹ کے رکن بن گئے تھےان کے دورہ پاکستان کے مختلف پہلو تھے لیکن پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال میں سب سے اہم خبر یہ بنی کہ ان کے دورہ اسلام آباد کے موقع پر پاکستان اور برطانیہ کے درمیان قانون اوراحتساب کے متعلق ایک معاہدہ طے پاگیا ہے جس کا مقصد مختلف جرائم کے خاتمے کےلئے انصاف و احتساب کی شراکت داری ہےان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں انہوں نے طے کیا ہے کہ برطانیہ اور پاکستان کے درمیان انصاف واحتساب کی نئی شراکت داری شروع کی جائے۔جبکہ ہم لوٹی ہوئی دولت کی بازیابی کا سول فنڈ بھی شروع کرنے جارہے ہیں اور فوری طور پر آج سے ہی ایک نیا برطانوی مندوب برائے انصاف واحتساب بھی تعینات کررہے ہیں یہ سینئر اپوزیشن کااہلکاردونوں ملکوں کے درمیان آپریشنل تعاون میں مدد دے گا۔اس تقرری سے ملک بدری منی لانڈرنگ اور دوسرے منظم جرائم کے خلاف تیز رفتاری سے کام کیا جاسکے جبکہ مجرموں کے دوطرفہ تبادلے کے معاہدے کی تجدید کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو باتیں برطانوی وزیر داخلہ نے قدرے ملفوف انداز میں کی تھیں وہ سیاسی انداز میں وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے واضح لفظوں میں کیں۔ اس وقت پاکستان کی عدالتوں کو مطلوب شخصیات میں ایم کیو ایم کے قائدالطاف حسین، سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز شامل ہیں جو لندن میں سکونت پذیر ہیں اطلاعات کے مطابق عنقریب مجرموں کی حوالگی سے متعلق پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ایک معاہدہ بھی طے ہونے والا ہے۔ برطانوی وزیر داخلہ ساجد جاوید کے دورہ پاکستان کی اہمیت کو اس تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ ابھی اسلام آباد میں ہی موجود تھے کہ لندن سے یہ سنسنی خیز خبر آگئی کہ برطانوی ادارے N.C.A (نیشنل کرائم ایجنسی) کے بین الاقوامی یونٹ نے منی لانڈرنگ کے الزام میں ایک پاکستانی جوڑے کو گرفتار کرنے کے بعد رہا کردیا لیکن وہ زیر تفتیش رہیں گے۔ابتدائی اطلاعات کے مطابق گرفتار کیے جانے والے پاکستانی کا نام فرحان جونیجو ہے جنہیں اُن کی اہلیہ بینش قریشی سمیت گرفتار کیا گیا ہے۔ فرحان جونیجو کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان کے ’’حقیقی سرپرست‘‘ جام صادق علی تھے بعد میں وہ مخدوم امین فہیم کے دست راست بن گئے اور وزارت تجارت میں اعلیٰ عہدے پر فائز کردیئے گئے۔ برطانوی پولیس نے اُن کی 80لاکھ پاؤنڈ کی جائیداد اپنے قبضے میں لے لی ہے جس کے بارے میں فرحان جونیجو خریداری کی منی ٹریل کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکے۔