رپورٹ:طلعت عمران
عکّاسی:اسرائیل انصاری
پاکستان میں ہائبرڈ وارفیئر انتہا پر ہے،نان ایشوز کو ایشوبنایا جارہا ہے،پاکستان پر سی پیک اور جوہری اثاثے ختم کرنے کے لیے دبائو ڈالا جا رہا ہے،ہم سعودی عرب کو ناراض کر سکتے ہیں اور نہ ایران کو،اگر پاکستان، ایران اور ترکی اتحاد کرلیں اور روس و چین ان کی پشت پر ہوں،
تو یہ صورت حال امریکا کے لیے تشویش ناک ہوگی،اس وقت دنیا کو پاکستان کی ضرور ت ہے، سو ہمیں گریٹ گیم کھیلنا چاہیے،چین نے 1970ء میں گوادر پورٹ تک رسائی کا منصوبہ بنالیا تھا،پاکستان ، بھارت سے ایگریمنٹ نہیں، فنکشنل ارینجمنٹ کرے، ہمیں اپنے قومی مفادات کے تحت فیصلے کرنا ہوں گے،بھارت کی سی پیک میں شمولیت سے پاکستان کو فائدہ ہوگا، اگر راہداری منصوبہ کامیاب ہوا، تو بھارت کا غرور مٹ جائے گا
اکرام سہگل
عمران خان نے معیشت کو دبائو سے نکالنے کے لیے سعودی عرب کا دورہ ضروری سمجھا،گزشتہ دو برس سے ہماری خارجہ پالیسی بے چہرہ اور بے آواز تھی، جس سے پاکستان کو نقصان پہنچا،معیشت اور پانی کو خارجہ پالیسی کا لازمی جزو بنایا جائے،
اندرون ملک اتفاق رائے قائم کر کےخارجہ پالیسی تشکیل دی جائے،سعودی عرب سے تعلقات مستحکم کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن ایسا پاک، ایران تعلقات کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے،عمران خان کے برسر اقتدار آنے سے بیرون ملک پاکستان کی ساکھ بہتر ہوئی، شاہ محمود قریشی تجربہ کار وزیر خارجہ ہیں، سی پیک کی کامیابی کے لیے بھارت سے ’’فنکشنل ریلیشن شپ‘‘ قائم کرنا ہوگی،امریکا اور چین کے مابین جاری تجارتی جنگ میں پاکستان کے لیے مواقع پوشید ہ ہیں
ڈاکٹر ہما بقائی
عالمی سیاست میں رونما ہونے والی تبدیلیاں موجودہ حکومت کے لیے چیلنج ہیں، اگر حکومت عرب ممالک کی جانب جھکتی ہے، تو رائے عامہ کو ہم نوا بنانا بہت مشکل ہو گا، افغانستان میں آیندہ 30سے 50برس تک عدم استحکام رہے گا اور پاک، افغان تعلقات بھی کشیدہ رہیں گے،
پاکستان میں پائی جانے والی انتہا پسندی کو بیرون ملک دہشت گردی سے جوڑا جاتا ہے، ہمیں انتہا پسند عناصر کو پر امن بنانا ہو گا، ہم ایران کے راستے وسطی ایشیا اور یورپ تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں، پاکستان کو اکثر غیر ملکی معاہدوں پر بھاری جرمانہ عاید کرنا پڑا، اس سے بچائو کے لیے اہل افراد کو مذاکرات کار مقرر کیا جانا چاہیے
مصطفیٰ کمال
گزشتہ چند برسوں سے پاکستان کے امریکا اور اپنے پڑوسی ممالک سے تعلقات میں تنائو پایا جاتا ہے، جسے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کمزوری قرار دیا جا سکتا ہے۔ امریکا، بھارت اور افغانستان، پاکستان پر تواتر کے ساتھ دہشت گردوں کی حمایت کرنے کا الزام عاید کرتے آ رہے ہیں، جنہیں پاکستان سختی سے رد کرتا ہے۔ ایران کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات مثالی نہیں، جبکہ پاک، چین اقتصادی راہداری منصوبے پر غیر محتاط انداز میں بیان بازی کی وجہ سے پاکستان کا دیرینہ دوست بھی کچھ بے چینی کا شکار ہے۔ تاہم، تبدیلی کی علم بردار پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد عوام یہ جاننا چاہتے کہ کیا اب ملک کی خارجہ پالیسی میں بھی تبدیلی واقع ہو گی۔ گزشتہ دنوں وزیر اعظم پاکستان، عمران خان نے سعودی عرب، آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ نے چین اور وزیر خارجہ، شاہ محمود قریشی نے افغانستان کا دورہ کیا۔ ان تمام دوروں کو نئی عالمی صف بندی کے تناظر میں اہمیت کا حامل قرار دیا گیا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کو امریکا، چین اور روس جیسی عالمی طاقتوں اور خطے میں واقع ممالک سے کس قسم کے تعلقات قائم کرنے چاہئیں؟ نیز،خارجہ پالیسی کن عناصر پر مشتمل ہونی چاہیے؟ان سمیت دیگرسوالات کے جوابات جاننے کے لیے گزشتہ دنوں آئی بی اے، مین کیمپس میں ’’پاکستان کی خارجہ پالیسی، نئے چیلنجز‘‘ کے موضوع پر جنگ فورم منعقد کیا گیا، جس میں معروف دفاعی تجزیہ کار اور پاتھ فائنڈر گروپ، پاکستان کے چیئرمین، اکرام سہگل، سابق سفیر، مصطفیٰ کمال قاضی اور آئی بی اے، کراچی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر، ایف بی اے کی ایسوسی ایٹ ڈین اور ماہر بین الاقوامی تعلقات، ڈاکٹر ہما بقائی نے اظہارِ خیال کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔
جنگ :وفاقی وزیر اطلاعات، فواد چوہدری نے کہا تھا کہ وزیر اعظم فوری طور پر کوئی بیرونی دورہ نہیں کریں گے، لیکن اس بیان کے برعکس عمران خان سعودی عرب کے دورے پر گئے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
ڈاکٹر ہما بقائی :وزیر اعظم عمران خان نے سعودی عرب کا دورہ شاید اس لیے ضروری سمجھا کہ اس وقت ہماری معیشت خاصے دبائو میں ہے اور اس کا اظہار وفاقی وزیر خزانہ، اسد عمر نے گزشتہ دنوں اپنی منی بجٹ تقریر میں بھی کیا۔ میری یہ تجویز بھی ہے کہ ہمیں معاشی ترقی کو اپنی خارجہ پالیسی کا ایک اہم جزو بنانا چاہیے۔ پھر موجودہ حکومت کو پانی کو بھی اپنی خارجہ پالیسی کا حصہ ضرور بنانا چاہیے۔ تاہم، امریکا، چین اور پڑوسی ممالک سے روابط بہتر بنانے کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے۔ میں یہاں یہ بات واضح کر دینا چاہتی ہوں کہ گزشتہ دو برس سے ہماری خارجہ پالیسی بے چہرہ اور بے آواز تھی، کیونکہ اس عرصے میں سابقہ حکومت اپنی بقا کی جدوجہد میں مصروف تھی اور اس نے خارجہ پالیسی کو کلی طور پر نظر انداز کیا، جس کی وجہ سے ہمیں نقصان اٹھانا پڑا۔ خارجہ پالیسی کے ایک طالب علم کے طور پر میرا یہ ماننا ہے کہ کسی بھی ملک کی داخلی صورتِ حال اس کی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ میں یہ مشورہ بھی دینا چاہتی ہوں کہ اب اندرون ملک اتفاق رائے پیدا کر کے خارجہ پالیسی تشکیل دی جائے۔ سابقہ دور حکومت میں بھارت سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن چونکہ اندرون ملک اتفاق رائے نہیں تھا، لہٰذا یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ اسی طرح امریکا کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات تنائو کا شکار ہیں۔ علاوہ ازیں، پاک، چین اقتصادی راہداری پر بھی ہمارے سنجیدہ دانش ور سوالات اٹھا رہے ہیں۔ میں ایک بار پھر کہوں گی کہ ہمیں اندرونی طور پر متحد ہونے کی ضرورت ہے کہ داخلی پالیسی کی توسیع ہی خارجہ پالیسی ہوتی ہے۔ جب ہم اپنی داخلی پالیسی پر متحد ہوں گے اور اہداف متعین ہوں گے، تو خارجہ پالیسی پر بھی ہمارا موقف یکساں ہو گا۔
جنگ :معاشی ضرورت کے علاوہ کہیں ایسا تو نہیں کہ سعودی عرب میں کوئی فوجی اتحاد بننے جا رہا ہےاور اس سلسلے میں وزیر اعظم پاکستان کو دعوت دی گئی ہو؟
ڈاکٹر ہما بقائی :ماضی میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں بھی کچھ رکاوٹیں آئی ہیں۔ یمن کے معاملے پر ہماری پارلیمنٹ نے سعودی عرب سے تعاون نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن آئین کی رو سے ہماری فوج سعودی عرب میں اب بھی موجود ہے۔ سعودی عرب ہمارا دیرینہ دوست ہے اور اس کے تعلقات مزید مستحکم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تاہم، یہ رشتہ ایران سے تعلقات کی قیمت پر قائم نہیں ہونا چاہیے۔
جنگ :پاکستان تحریک انصاف پہلی بار برسر اقتدار آئی ہے۔ کیا موجودہ حکومت خارجہ پالیسی کے ضمن میں سابقہ حکومتوں کے نقشِ قدم پر چلے گی یا کوئی جوہری تبدیلی واقع ہو گی؟
ڈاکٹر ہما بقائی :عمران خان کے وزیر اعظم بننے کی وجہ سے دنیا میں پاکستان کی ساکھ بہتر ہوئی۔ پھر شاہ محمود قریشی ایک کہنہ مشق سیاست دان اور تجربہ کار وزیر خارجہ ہیں۔ لہٰذا پاکستان کی خارجہ پالیسی محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ البتہ مستقبل کے بارے میں فی الوقت کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
جنگ:گزشتہ دنوں امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع پاکستان کے دورے پر آئے۔ اس سے قبل پاک، امریکا تعلقات میں خاصی سرد مہری پائی جاتی تھی۔ کیا اس دورے کے نتیجے میں کچھ برف پگھلی؟
اکرام سہگل :بد قسمتی سے ہم عالمی سیاست میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر غور نہیں کرتے۔ اگر ہم ماضی میں جھانکیں، تو یہ سوال سامنے آتا ہے کہ جاپان نے دوسری عالمی جنگ کا آغاز کیوں کیا؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکا اور برطانیہ سمیت اس وقت کی دوسری عالمی طاقتوں نے اسے سمندری وسائل تک رسائی دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ایسی صورتِ حال میں جاپان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ جنگ کے ذریعے ان وسائل تک پہنچے۔ آج امریکا، چین کے خلاف جاپان اور بھارت کا تعاون حاصل کر کے اسے ایک لینڈ لاکڈ ملک بنانا چاہتا ہے۔ تاہم، چین نے کبھی بھی سمندری راستوں پر انحصار نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے بیلٹ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) شروع کیا۔ بی آر آئی 6زمینی اور ریل روٹس پر مشتمل ہے۔ خلیج سے تیل کی درآمد کے لیے چین کا اہم روٹ سی پیک ہے اور اسے چین کا فلیگ شپ منصوبہ کہا جاتا ہے۔ سی پیک کے نتیجے میں کاشغر سے چینی بندرگاہ تک پہنچنے کے لیے جتنا وقت لگتا ہے، اس سے نصف وقت میں کراچی پورٹ تک پہنچنا ممکن ہوگا۔ چین کے لیے کراچی اور گوادر پورٹس آئیڈیل ہیں۔ اس وقت ہائبرڈ وار فیئر جاری ہے۔ ایران اور عراق پر پابندیاں عاید ہیں، جبکہ پاکستان پر دبائو ہے۔ اس وقت پاکستان نہ سعودی عرب کو ناراض کر سکتا ہے اور نہ ایران کو اور نہ ہی کسی فوجی اتحاد کا حصہ بن سکتا ہے۔ اس وقت ہم پر دبائو ہے۔
جنگ :اس دبائو کی وجہ کیا ہے؟
اکرام سہگل :اوّل، ہم پر سی پیک منصوبہ ختم کرنے کے لیے دبائو ڈالا جا رہا ہے اور دوم جوہری اثاثے ختم کرنے کے لیے۔ یاد رہے کہ اسرائیل کو پاکستان کے علاوہ کوئی بھی ملک نشانہ نہیں بنا سکتا۔ پھر پاکستان کو اپنے جغرافیے کی وجہ سے بھی بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ پاکستان کو ایک طرف سے بھارت تنگ کرتا ہے، تو دوسری طرف سے افغانستان۔ اس کے علاوہ ہم خود بھی منقسم ہیں۔ تاہم، روس کے ساتھ تعلقات قائم ہونا اچھی پیش رفت ہے۔ اگر پاکستان، ایران اور ترکی آپس میں اتحاد کرتے ہیں اور ان کی پشت پر روس اور چین موجود ہوں، تو یہ صورتِ حال امریکا کے لیے تشویش ناک ہے۔
جنگ :کیا پاکستان دفاعی و معاشی طور پر مغرب بالخصوص امریکا پر انحصار کرتا ہے؟
اکرام سہگل :جی نہیں، پہلے ایسے ہوتا تھا۔ امریکا نے پاکستان پر پابندیاں لگا کر اچھا کیا۔ اس وقت پاکستان چھوٹے ہتھیار، ٹینک، آرٹلری، ایئر کرافٹ اور سب میرین سمیت دیگر دفاعی سازو سامان خود بنا رہا ہے۔ گزشتہ برسوں کے درمیان امریکا نے 6،8ایف 16طیاروں کے علاوہ پاکستان کو دیا ہی کیا ہے۔ چائنیز دور اندیش ہیں۔ وہ سو سال پہلے ہی منصوبہ بندی کر لیتے ہیں اور انہوں نے 1970ء میں گوادر پورٹ تک رسائی کا منصوبہ بنا لیا تھا۔
جنگ:گرچہ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات خوشگوار ہیں، لیکن خطے کے ممالک سے ہمارے تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں۔ اس سرد مہری کو ختم کرنے کے لیے کیا پالیسی اپنانی چاہیے؟ یہ بھی یاد رہے کہ امریکی وزیر خارجہ و وزیر دفاع نے چند گھنٹے کے لیے پاکستان کا دورہ کیا، جبکہ بھارت میں تین روز قیام کیا؟
مصطفیٰ کمال :امریکا اور یورپ کی پالیسی میں تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ چین کا ابھرنا اور روس کا ایک مرتبہ پھر فعال ہونا امریکا کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے، کیونکہ 1992ء سے امریکا اور یورپ یہی سمجھتے آ رہے ہیں کہ اب صرف وہی سپر پاور ہیں۔ اس کے علاوہ ایشیا میں بھی کئی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ مثلاً عراق اور شام میں خانہ جنگی ہوئی۔ لیبیا تباہ ہو گیا اور اب یمن کی باری ہے۔ خیال رہے کہ یمن عرب ممالک کی ماں ہے کہ عرب تہذیب وہیں سے آئی ہے۔ اسلام کے تمام تاریخی مقامات بغداد اور دمشق وغیرہ تباہ کر دیے گئے۔ مغرب ترکی کو بھی تقسیم کرنے پر تلا ہوا ہے اور اسی لیے کردوں کی حمایت کر رہا ہے۔ امریکا افغانستان میں غیر ملکیوں کو استعمال کرنے کے بعد اب شام میں القاعدہ کو استعمال کر رہا ہے۔ امریکا ایک طرف کہتا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اور دوسری جانب دہشت گردوں ہی کو سپورٹ کر رہا ہے۔ یہ صورتِ حال کافی خطرناک ہے اور امریکا کے تمام اقدامات کا پاکستان پر اثر پڑے گا۔ اسی طرح اب عراق کے بعد ایران کو ہدف بنایا گیا ہے۔ وہاں بلوچوں اور کردوں کو بغاوت پر اکسایا جا رہا ہے اور شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دی جا رہی ہے۔ مغرب یہ سب کچھ اسرائیل کی ایما پر کر رہا ہے۔ اگر خدانخواستہ ایران کی ہمت جواب دے جاتی ہے، تو اسرائیل کا اگلا ہدف پاکستان ہو گا۔ پھر پاکستان کے مشرق میں واقع بھارت کو اکسایا جا رہا ہے۔ یعنی پاکستان پر مغرب اور مشرق دونوں طرف سے پھنسا ہوا ہے۔
جنگ :امریکا ہم سے کیا مطالبہ کر رہا ہے؟
مصطفیٰ کمال :امریکا کا مطالبہ ہے کہ ہم بھارت کی اطاعت قبول کر لیں اور افغانستان میں امریکی ایجنڈے کو آگے بڑھائیں۔
جنگ: کیا سی پیک کی وجہ سے پاکستان پر دبائو بڑھایا جا رہا ہے؟
مصطفیٰ کمال :سی پیک ایک عنصر ہے۔ بنیادی طور پر ایک عالمگیر کشمکش جاری ہے اور اسرائیل وسعت اختیار کر رہا ہے۔ اس وقت اسرائیل مسئلہ فلسطین کو دفن کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے اور عرب ممالک بھی اسرائیل کو دوست اور ایران کو دشمن قرار دینے لگے ہیں۔
جنگ :موجودہ حکومت اس ساری صورتِ حال سے کس طرح نمٹے گی؟ بالخصوص سی پیک کے حوالے سے کیا پالیسی اپنائے گی؟
مصطفیٰ کمال: یہ نئی حکومت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہو گا۔ اگر حکومت عرب ممالک کی جانب مائل ہوتی ہے، تو اس کے لیے رائے عامہ اپنا ہم نوا بنانا بہت مشکل ہو گا۔
ڈاکٹر ہما بقائی: 2017ء میں سفارت کاری کے میدان میں ایک اصطلاح تواتر سے استعمال کی گئی کہ ’’نو ورلڈ آرڈر‘‘۔ یعنی ایسی دنیا کہ جس میں کوئی ورلڈ آرڈر نہیں ہے اور شاید چین ایک نیا ورلڈ آرڈر لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ چین کی دلچسپی جیو اکنامک سے ہے اور پاکستان اس سے جڑ رہا ہے، جو پاکستان کو ان تمام چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کی اہلیت دے سکتا ہے۔ اگر ہم خطے کی صورتِ حال دیکھیں، تو بھارت وہ واحد ملک ہے کہ جو سی پیک کا حصہ نہیں ہے اور چین کی خواہش ہے کہ بھارت بھی اس منصوبے کا حصہ بن جائے۔ حتیٰ کہ ایک وقت میں وہ سی پیک کا نام تک تبدیل کرنے پر آمادہ ہو گیا تھا اور کہا جا رہا ہے کہ شاید بھارت مان جائے گا۔ گرچہ چین پیش قدمی کر رہا ہے، لیکن وہ امریکا سے الجھنے پر آمادہ نہیں۔ سو، ہمیں بیجنگ ، واشنگٹن ، ریاض اور تہران سے تعلقات میں توازن لانا ہو گا۔ اسی طرح ہمیں افغانستان اور بھارت کے ساتھ اس قسم کے تعلقات قائم کرنے چاہئیں کہ جس کی وجہ سے سی پیک کو فائدہ پہنچے اور یہی ہماری خارجہ پالیسی کا چیلنج ہے۔
اکرام سہگل :توسیع دو قسم کی ہوتی ہے۔ پہلی قبضہ اور دوسری اثر و رسوخ۔ امریکا اور چین میں فرق یہ ہے کہ امریکا ڈکٹیٹ کرتا ہے، جبکہ چین ساتھ لے کر چلتا ہے۔ سو، چین کے لیے دلوں میں ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔ ہمیں ’’گریٹ گیم‘‘ کھیلنا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ اس وقت دنیا کو ہماری ضرورت ہے۔ اسرائیل خود ہماری سرحد پر نہیں آئے گا، لیکن وہ ہماری سرحدوں پر افراتفری پھیلا ئےگا اور یہ افراتفری لسانی، نسلی اور فرقہ وارانہ تفاوت کا ہوا دے کر پھیلائی جاتی ہے۔ مثلاً آج سے چند روز قبل تک کوئی بھی دیامر بھاشا ڈیم کی مخالفت نہیں کر رہا تھا، لیکن اب اس کی بھی مخالفت کی جا رہی ہے۔ خیال رہے کہ پانی بہت قیمتی شے ہے۔ اگر ڈیم نہیں بنے گا، تو خوراک کی قلت واقع ہو جائے گی اور جب خوراک کی قلت ہو گی، تو ملک میں افراتفری پھیلے گی۔ اسی طرح ہمارے بعض دانش ور اور ماہرین معیشت سی پیک کو بھی سراب قرار دے کر لوگوں میں بے یقینی پھیلا رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں ہائبرڈ وار فیئر انتہا پر ہے اور نان ایشوز اور ایشوز بنایا جا رہا ہے، لیکن ہمیں اپنی داخلی سلامتی کے اہداف پر توجہ مرکوز رکھنا ہو گی۔
جنگ:پاک، بھارت تعلقات کی کیا نوعیت ہونی چاہیے؟
اکرام سہگل :بھارت مقبوضہ کشمیر کا ایک انچ بھی پاکستان کو دینے پر آمادہ نہیں اور پاکستان کو اس خام خیالی سے نکلنا ہو گا۔ پاکستان، بھارت سے ایگریمنٹ نہیں، فنکشنل ارینجمٹ کرے۔
جنگ :پاکستان اور بھارت کھیل اور تجارت کے ذریعے تو تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔ اس میں کیا امر مانع ہے؟
اکرام سہگل :ہندو، مسلم تقسیم ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
ڈاکٹر ہما بقائی :اس کے علاوہ نئی عالمی صف بندی کے نتیجے میں بھی پاک، بھارت کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ پھر عالمی برادری بھی اس وقت خطے میں قیامِ امن کے عزم سے عاری ہے۔
مصطفیٰ کمال :ہمیں اس بات پر بھی غور و فکر کرنا چاہیے کہ افغانستان پر توجہ ہمارے لیے کس قدر فائدہ مند ثابت ہوئی۔ حالانکہ اس ضمن میں ہمیں بڑی قربانیاں دینی پڑیں۔ مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع کا سبب ہے، جبکہ افغان حکام ہر بین الاقوامی پلیٹ فارم پر پاکستان کے ایک تہائی علاقے پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے 70برس کے دوران ہم اس مسئلے کو حل نہیں کر سکے۔ میری دانست میں افغانستان میں عدم استحکام آیندہ 30سے 50برس تک جاری رہے گا اور وہاں خوشحالی کا کوئی امکان نہیں۔ نیز، پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں کشیدگی بھی برقرار رہے گی۔
اکرام سہگل :پاکستان اور بھارت میں کٹر مسلمان اور ہندو ایک دوسرے کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔
جنگ :امریکا، افغانستان اور بھارت کے ان الزامات میں کتنی صداقت ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف کافی کارروائی نہیں کر رہا اور انتہا پسندوں کی پرورش کر رہا ہے؟
مصطفیٰ کمال :پاکستان میں افغان جہاد کے بعد تبدیلی آئی، جس میں انتہا پسندی ایک بہت بڑا عنصر ہے اور بیرونِ ملک اسے دہشت گردی سے جوڑا جاتا ہے۔ ہمیں انتہا پسند عناصر کو تبدیل کرنے اور امن کی جانب راغب کرنے کے لیے کڑی محنت کرنا ہو گی۔ میں یہاں یہ بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ قدامت پسند عیسائی مسلمانوں سے زیادہ انتہا پسند ہیں، لیکن وہ مسلمانوں کی طرح اپنے بھائیوں کو قتل نہیں کرتے۔
ڈاکٹر ہما بقائی :ہم نے فورتھ شیڈول اور نیشنل ایکشن پلان بنایا، لیکن ان دونوں پر عملدرآمد نہیں کیا۔ پھر ماضی میں ہم نے بعض ایسے اقدامات کیے کہ جس کی ہم بین الاقوامی برادری کے سامنے کوئی وضاحت پیش نہیں کر سکتے۔ مثال کے طور پر کالعدم جماعتوں کو انتخابی عمل کا حصہ بنایا گیا اور انہوں نے کامیابی بھی حاصل کی۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی جانب سے کالعدم قرار دی گئی حافظ سعید احمد کی رفاہی تنظیم کو کام کرنے کی اجازت دی گئی۔ ہمیں اس سارے عمل کو شفاف بنانا ہو گا، کیونکہ اس طریقۂ کار کو نہ صرف امریکا اور یورپ مسترد کرتا ہے، بلکہ چین نے بھی اس کے خلاف ووٹ دیا۔ ہارورڈ یونی ورسٹی کا ایک پروفیسر کہا کرتا تھا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ کی کہانی درست ہو، بلکہ ضروری یہ ہے کہ آپ کی کہانی فروخت ہو اور اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہماری کہانی فروخت نہیں ہوتی۔
جنگ :ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو کیا خطرات درپیش ہیں؟
اکرام سہگل :ہمارا ایک مسئلہ یہ ہے کہ پہلے ہنڈی سے رقم آتی جاتی تھی اور ابھی بھی یہ سلسلہ جاری ہے، لیکن ٹیلکوز کو اجازت دے کر اندرون ملک ہنڈی کا متبادل نظام شروع کر دیا گیا۔ اس نظام کے تحت ایک فرد اپنی ایک سم کے ذریعے یومیہ 25ہزار روپے ٹرانسفر کر سکتا ہے۔ اب یہاں لاکھوں افراد کے پاس پانچ، پانچ سمز ہیں اور لاکھوں افراد روزانہ 25،25ہزار روپے ٹرانسفر کر رہے ہیں۔ یعنی آپ نے منی لانڈرنگ کو ایک ادارے کی شکل دے دی۔ یہ ٹیلکوز اس قدر طاقتور ہیں کہ یہ ریگولیٹری اتھارٹی کو بھی خاطر میں نہیں لاتیں، بلکہ سرزنش پر ان پر چڑھ دوڑتی ہیں۔
ڈاکٹر ہما بقائی :پی آئی اے منی لانڈرنگ کا ایک بڑا ذریعہ ہے، کیا دنیا کو یہ سب دکھائی نہیں دیتا۔
اکرام سہگل :جب تک اس سارے نظام کو ریگولیٹ نہیں کیا جاتا، ایف اے ٹی ایف کی تلوار سر پر لٹکتی رہے گی۔ یہاں ایک منافقت بھی ہے۔ جو افراد اپنا سرمایہ لندن یا دبئی لے کر جاتے ہیں، ان سے ذرایع آمدن کے بارے میں پوچھ گچھ کیوں نہیں کی جاتی۔ برطانیہ میں یہ قانون ہے کہ وہاں 10ہزار پائونڈ کیش میں کوئی چیز نہیں خریدی جا سکتی۔ گزشتہ دنوں جو فرحان جونیجو پکڑا گیا ہے، اس کی جائیداد کی مالیت 8کروڑ پائونڈ ہے۔ اب وہ یہاں سے پیسے لے کر گیا، لیکن اسے وہاں پائونڈ کس نے دیے۔ اس بارے میں وہ بات نہیں کرتے۔
شاہ رخ رائو :ہم کبھی امریکا کے کیمپ میں چلے جاتے ہیں اور کبھی چین کے ساتھ۔ آخر ہم اپنی انڈسٹری کو اس قدر طاقت ور کیوں نہیں بنا سکے کہ ہم کسی پر انحصار کرنے کے بہ جائے آزادانہ طور پر اپنی پالیسی بنا سکیں؟
مصطفیٰ کمال :بھارت اور افغانستان سے تعلقات میں پائے جانے والی کشیدگی کا ایک تاریخی پس منظر ہے اور اندرونی حالات بھی اس کا سبب ہیں۔ البتہ ایران ایک ایسا ملک ہے کہ جس کے ساتھ ہمارا کوئی باہمی تنازع نہیں اور اس کے ذریعے ہم وسطی ایشیا اور یورپ تک رسائی حاصل کرتے ہیں، لیکن وہاں ہم نے کوئی ترقی نہیں کی۔ جب میں نے فارن آفس میں شمولیت اختیار کی تھی، تو اس وقت کراچی سے زاہدان کے راستے بہ ذریعہ ریل یورپ جانے کا منصوبہ بنایا جا رہا تھا، لیکن اس سلسلے میں ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ یاد رہے کہ ایران اور ترکی لوہے کے بڑے برآمد کنندگان ہیں۔ پاکستان میں وسطی ایشیا سے اسمگل ہو کر اسٹیل آتا ہے۔ ہمارا محل وقوع بہت اچھا ہے کہ نہ صرف توانائی بلکہ ہر قسم کا خام مال ہمیں اپنے پڑوس میں دستیاب ہے۔ اگر ہمارا روڈ اور ریل کے ذریعے ایران سے رابطہ ہو، تو ہم ایرانی کیسپیئن سی سے بہ آسانی روسی بندر گاہ تک پہنچ سکتے ہیں۔ روس رقبے کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور ہم اسے اپنا دشمن قرار دیتے ہیں۔ وہاں ہر قسم کا خام مال دستیاب ہے۔ ہم وسطی ایشیا میں داخل ہونے کے لیے افغانستان میں استحکام کا انتظار کر رہے ہیں اور ایران سے نہیں جا رہے۔ یہ ایک انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے۔
جنگ :پاک، ایران گیس پائپ لائن کا معاہدہ بھی تو ہوا تھا؟
مصطفیٰ کمال :ہم ’’تاپی‘‘ کی بات کریں، تو اس کا انحصار بھی افغانستان میں استحکام پر ہے، لیکن ہم افغانستان پر کس طرح اعتماد کر سکتے ہیں۔ بھارت ہم سے گیس خریدنا نہیں چاہتا اور ایران ہم پر بھروسہ نہیں کرتا۔ پاک، ایران گیس پائپ لائن کا مسئلہ ایران پر عاید اقتصادی پابندیاں نہیں ہیں۔ ایران پر تو آج سے 4،5سال پہلے پابندیاں عاید کی گئیں، جبکہ عراق نے ایک مقبوضہ ملک ہونے کے باوجود ایران کے ساتھ پائپ لائن کا منصوبہ شروع کیا اور اسے مکمل بھی کیا۔ اسی طرح ترکی نے بھی ایران کے ساتھ پائپ لائن تعمیر کی، جو نیٹو کا رکن ملک ہے۔ پھر ترکمانستان اور ایران کے درمیان بھی ایک گیس پائپ لائن ہے۔
جنگ :ہم ایسا کیوں نہیں کر پاتے؟
اکرام سہگل :اگر ہمارے تجارتی فواید ہوں اور ہمیں پیسہ مل رہا ہو، تو ہم فوراً معاہدے کر لیتے ہیں۔ مثلاً قطر سے ایل پی جی کی درآمدکا معاہدہ۔ پاکستان کاپر اور سونے کے سب سے زیادہ ذخائر رکھنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ پاکستان کوئلے کے ذخائر رکھنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ پاکستان کی کاٹن انڈسٹری دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ پاکستان دودھ پیدا کرنے والا دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ پاکستان چاول پیدا کرنے والا دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ پاکستان گندم پیدا کرنے والا دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے۔ یعنی پاکستان میں ہر چیز موجود ہے۔ پاکستان کے علاوہ کوئی دوسرا ترقی پذیر ملک ایسا بتا دیں کہ جو خوراک اور لباس میں خود کفیل ہو، لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم درآمدات پر انحصار کرنے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے منی بجٹ سے بڑی مایوسی ہوئی کہ اس میں درآمدات پر کوئی پابندی عاید نہیں کی گئی، جبکہ حکومت کا خود ماننا ہے کہ زر مبادلہ کے ذخائر میں 10سے11ارب ڈالرز کی کمی کا سامنا ہے۔ ہم ترسیلاتِ زر پر تو انحصار کر رہے ہیں، لیکن اپنی برآمدات نہیں بڑھا رہے اور نہ ہی درآمدات کو کم کر رہے ہیں۔ جب تک ہم قربانی نہیں دیں گے، ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہوں گے۔
آمنہ :سی پیک کی وجہ سے ایسا نہیں لگتا کہ اب ہم چین تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں اور ہم چین سے حکم لے کر ہی اپنی خارجہ پالیسی بنائیں گے؟
اکرام سہگل :ایسا نہیں ہے کہ کوئی ملک ہدایات نہیں دیتا، لیکن ہمیں اپنے قومی مفاد کے تحت ہی فیصلے کرنے ہوں گے۔ یعنی ہم چین کی ڈکٹیشن قبول ہی نہ کریں۔ گرچہ امریکا اور بھارت سی پیک کے خلاف ہیں، لیکن ہم یہ منصوبہ جاری رکھے ہوئے ہیں کہ یہ ہمارے مفاد میں ہے۔ امریکا اور یورپی یونین کی پالیسی میں فرق ہے۔ یورپی یونین بی آر آئی کی سپورٹ کرتی ہے، جس پر یورپی ممالک ٹرمپ سے ناراض ہیں۔ سو، اب ہمیں اپنے قومی مفاد کو ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے۔ یعنی ہمیں چین سے ڈکٹیشن لینی چاہیے اور نہ امریکا سے۔ پاکستان نے یمن میں اپنی افواج نہ بھیج کر ایسا کر دکھایا، جس پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان سے سخت ناراض ہوئے۔
جنگ :لیکن ہم افغان جنگ میں تو شریک ہوئے؟
اکرام سہگل :یہ تو پرانی بات ہے۔ آپ 30سال پرانی بات کریں گے، تو پھر میں آپ کو 100برس پیچھے لے جائوں گا۔
ڈاکٹر ہما بقائی :امریکا اور چین کے درمیان جاری عالمی تجارتی جنگ پاکستان کے لیے موقع ہے، کیونکہ امریکا کو خدشہ ہے کہ اگر ون بیلٹ، ون روڈ منصوبہ ٹیک آف کر گیا، تو امریکا کی سپر میسی کمزور ضرور ہو جائے گی اور چین بھی جانتا ہے کہ اس منصوبے میں پاکستان پہلی مرتبہ ایک اکنامک فرنٹ لائن اسٹیٹ ہے۔ یاد رہے کہ ماضی میں دو مرتبہ ہم محاذِ جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ رہے۔
مصطفیٰ کمال :یہاں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ امریکا اور یورپ، چین اور روس سمیت دوسرے فروغ پذیر ممالک سے خوفزدہ کیوں ہیں۔ دراصل، امریکا کو ڈالر کی اہمیت کم ہونے کا خدشہ ہے، جو اس وقت ایک بین الاقوامی کرنسی ہے۔ تاہم، اب ممالک اپنی اپنی کرنسیوںمیں تجارت کرنے لگے ہیں۔ اگر دنیا نے ڈالر میں تجارت کا ترک کر دیا، تو امریکا کی معیشت بیٹھ جائے گی اور اسی لیے امریکا چین کو قابو میں رکھنا چاہتا ہے۔
اسامہ رضوی:کیا اس بات کا خدشہ ہے کہ ہم چینی بینکوں کے قرضے واپس کرنے میں کامیاب نہ ہوں اور چین ہماری بندرگاہوں پر قبضہ کر کے انہیں 99سال کے لیے لیز پر لے لے، جس طرح سری لنکا کی بندر گاہ پر کیا؟
اکرام سہگل :واضح رہے کہ چین نے کمرشل ریٹ کے بہ جائے کافی کم شرح پر پاکستان کو قرضے دیے ہیں۔ اگر خدا نخواستہ یہ خدشہ درست ثابت ہوتا ہے، تو پھر ہماری لیڈر شپ کا یہ کام ہے کہ وہ بندر گاہوں پر قبضے کے بہ جائے چین سے ان کے استعمال کی فیس لے اور انہیں مسلح کرنے سے روکے۔ سری لنکا کی بندر گاہ کا معاملہ مختلف ہے۔ سری لنکن حکومت نے پہلے ہی چین کو بہت زیادہ رعایات دے دی تھیں۔ پھر انہوں نے اسے سیاسی رنگ دے دیا، جس پر چین نے بندر گاہ پر کام روک دیا۔
طلحہ :مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کیسی ہونی چاہیے؟
اکرام سہگل :پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں مولانا فضل الرحمٰن کشمیر کمیٹی کے چیئرمین تھے اور انہوں نے اس ضمن میں کیا خدمات انجام دیں، یہ سب جانتے ہیں۔ یعنی ان دونوں حکومتوں ہی نے مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال دیا اور یہ فرض کر لیا کہ اس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر کے اندر مزاحمت بڑھے گی اور اس وقت ایسا ہی ہو رہا ہے، لیکن اگر سی پیک کامیاب ہو گیا، تو پاکستان ترقی کرے گا اور پھر وہ وقت بھی آئے گا کہ پاکستان اس خطے میں سپر پاور ہو گا اور بھارت کا غرور مٹ جائے گا۔
یسریٰ فاطمہ :جیسا کہ فورم میں بتایا گیا کہ چین، بھارت کو سی پیک کا حصہ بنانا چاہتا ہے۔ اگر بھارت اس پر آمادہ ہو گیا، تو کیا پاکستان اسے قبول کرے گا اور پھر سی پیک کا مستقبل کیا ہو گا؟
ڈاکٹر ہما بقائی :اگر ہم 1940ء کے لندن کی تصاویر دیکھیں، تو یہ موجودہ لندن سے یکسر مختلف ہے۔ چین ایک نیا ورلڈ آرڈر لانے کی کوشش کر رہا ہے، جو جیو اکنامک آرڈر ہے۔ پاک، چین اقتصادی راہداری اس وقت فعال ہو گی کہ جب اس میں سے لوگوں اور اشیا کا گزر ہو گا اور اس مقصد کے لیے ہمیں بھارت کے ساتھ ’’فنکشنل ریلیشن شپ‘‘ قائم کرنے کی ضرورت ہے، جس سے خطے میں ایک تحرک پیدا ہو گا۔ اب صرف پاک، چین اقتصادی راہداری کی بات نہیں رہی، بلکہ روس نے پاکستان کو رشیا، پاک اکنامک کوریڈور کی پیشکش بھی کی ہے۔ یعنی اس خطے میں کافی امکانات موجود ہیں اور چین انہیں استعمال کر رہا ہے، جس کی وجہ سے ورلڈ آرڈر تبدیل ہو رہا ہے اور اس میں پاکستان کا اہم کردار ہے۔ ہم بھارت کے ساتھ فنکشنل ریلیشن شپ چاہتے ہیں اور یہ ہماری خارجہ پالیسی کا ایک اہم جزو ہے۔
اکرام سہگل :اگر بھارت سی پیک میں شامل ہو جاتا ہے، تو اس سے پاکستان کو فائدہ ہو گا کہ وہ کشمیر کے معاملے پر کچھ رعایتیں دے گا۔ نیز، پاکستان بنگلا دیش تک رسائی حاصل کرے گا اور بھارت وسطی ایشیا تک۔ یوں دونوں ممالک کو تجارتی فواید حاصل ہوں گے۔
جنگ :گزشتہ دنوں وزیر اعظم کے مشیر، عبدالرزاق دائود نے یہ بیان دیا کہ سی پیک کو ایک سال کے لیے ملتوی کیا جائے، تو اس کے بعد دونوں ممالک کے حکام کی آمد و رفت شروع ہو گئی اور پھر آرمی چیف بھی چین کے دورے پر گئے۔ اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکومت دبائو کا شکار ہے اور چین کے مزید مطالبات تسلیم کر سکتی ہے؟
اکرام سہگل :میرے نزدیک یہ بیان ناقابلِ فہم ہے۔
مصطفیٰ کمال :بد قسمتی سے ہم اکثر معاہدوں میں دبائو کا شکار ہو جاتے ہیں اور ہمیں بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا، غیر ملکی معاہدوں کے مذاکرات کار اہل افراد ہونے چاہئیں۔
ٓڈاکٹر ہما بقائی :میں جہاں اکرام سہگل اور مصطفیٰ کمال کی بات سے اتفاق کرتی ہوں، وہیں عبدالرزاق دائو کے بیان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ پاکستان کے بڑے بڑے صنعت کاروں کو انڈسٹریل زونز میں چینی صنعتوں کو دی جانے والی مراعات پر تحفظات ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ اس کے نتیجے میں مقامی انڈسٹری متاثر ہو گی۔ سو، ہمیں اس مسئلے پر بھی غور کرنا چاہیے اور یہ نکتہ اٹھانا غداری نہیں، بلکہ وفاداری ہے۔