ارشادِ ربانی ہے: اور اگر زمین میں جتنے درخت ہیں (سب) قلم ہوں اور سمندر (روشنائی ہو) اس کے بعد اور سات سمندر اسے بڑھاتے چلے جائیں تو اللہ کے کلمات (تب بھی) ختم نہیں ہوں گے۔ بےشک، اللہ غالب ہے حکمت والا ہے۔(سورئہ لقمان)
اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی عظمت وبڑائی اورشان و کبریائی کے لامحدود اور لامتناہی ہونے کوایک مثال دے کر بیان فرمایا ہے کہ روئے زمین پر جتنے بھی درخت ہیں،اگران سب کی شاخوں سے قلم بنا لئے جائیں اور سمندر کا سارا پانی سیاہی بنا لیا جائے اور مزید سات سمندر وں کی سیاہی تیار کر لی جائے اوراللہ تعالیٰ کے کلمات کو لکھنا شروع کر دیا جائے توتمام درخت ختم ہو جائیں گے ،سمندر سوکھ جائیں گے، لیکن تب بھی اللہ تعالیٰ کے کلمات ختم نہیں ہو ں گے، ان کا ہرگز احاطہ نہیں کیا جا سکے گا۔ امام قرطبی ؒ نے اپنی تفسیر احکام القرآن میں اس آیت کے شان نزول کے حوالے سے حضرت عبداللہ ابن عباس ؓکا قول نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت یہود کے علماء واحبار کے ایک سوال کے جواب میں نازل ہوئی ،وجہ یہ ہوئی تھی کہ قرآن کریم کی ایک آیت میں فرمایا گیا ہے کہ انسان کو تھوڑا سا علم دیا گیا ہے ، جب نبی کریم ﷺ مدینہ طیبہ میں تشریف لائے تو یہودکے چند علماء و احبار حاضر ہوئے اور اس آیت کے بارے میں بحث و مباحثہ کیا کہ آپ نے ہمیں ان لوگوں میں شامل کیا ہے ، جنہیں تھوڑا سا علم دیا گیا ہے یا اپنی قوم کو!آپ ﷺ نے فرمایا ، اس سے مراد سب لوگ ہیں، یعنی میری قوم بھی اور یہود ونصاریٰ بھی ۔ انہوں نے دوبارہ سوال کیا کہ ہمیں تو ،تو رات عطا کی گئی ہے ،جس میں ہر چیز کا بیان موجود ہے،پھر ہمیں کیوںشامل کیا گیا ہے؟
اس پر اللہ کے رسولﷺ نے ارشادفرمایا ، وہ علم بھی اللہ کے علم کے مقابلے میں تھوڑاسا ہے اور پھر تورات میں جتنا علم ہے ،اس کا بھی تمہیں پورا علم نہیںہے،بلکہ وہ بھی بقدر کفایت ہےاوراسی طرح تمام آسمانی کتابوں اورتمام انبیاء کے علوم کا مجموعہ بھی اللہ کے علم کے مقابلے میں قلیل ہے ۔چناںچہ سورۂ لقمان کی یہ آیت یہود کے جواب اور رسول ﷺ کے کلام کی تائید میں نازل ہوئی،جس میں فرمادیا گیا کہ اللہ کا علم غیر محدود اورغیر متناہی ہے،وہ کسی ایک کتاب یا کئی کتابوں میں سما نہیں سکتا…بہرحال انسان جتنی بھی ترقی کر لے، اس کا علم محدود ہے اور اللہ کے علم کے مقابلے میں،اس کے علم کو سمند ر میں قطرے کی نسبت بھی حاصل نہیں ہے…