• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھینسیں تو نیلام ہوگئیں۔۔ سیاسی بحث چھوڑ گئیں

وزیر اعظم ہائوس کی بھینسوں کو نیلام کر دیا گیا ۔۔ بھینسیں تو نیلام ہوگئیں ہیں مگر اپنے پیچھے ایک سیاسی بحث چھوڑ گئی ہیں ۔


حکومت تو تحریک انصاف کی ہے مگر وزیر اعظم ہائوس کی بھینسیں دوبارہ ن لیگ کے پاس آگئی ہیں ۔ کیونکہ انہیں اب ن لیگ کے کارکنوں نے خرید لیا ہے ، جن میں سے ایک خریدار کا کہنا ہے کہ وہ انہیں نواز شریف کی نشانی کے طور پر رکھے گا جبکہ ایک کارکن مارکیٹ ریٹ سے زیادہ میں خریدی گئی بھینس نواز شریف کو تحفے میں بھی بھیجے گا ۔

گائے اور بھینسوں کی اہمیت سے کون واقف نہیں ہوگا ۔۔ یہ بھینسیں اپنی اہمیت خود منوانا جانتی ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب ان بھینسوں کی بھی سیاست کے میدان میں اہمیت بڑھتی جارہی ہے اور اسے اپنی سیاست کی دوکان چمکانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔

بھینسیں جہاں ایک طرف انسانوں کو فائدے پہنچاتی نظر آتی ہیں وہیں دوسری طرف مخالفین کو غصہ دلانے کے لیے بھی کام آتی ہیں ۔

اس بات کا اندازہ آپ کچھ اس طرح لگاسکتے ہیں کہ ابھی دوسال پہلے ہی کراچی میں جماعت اسلامی نے بجلی کی کمپنی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بھینسوں کو اس کے دفتر کے باہر لا کر کھڑا کرکیا تھااور جماعت اسلامی کے کارکن ان کے آگے بین بجارہے تھے ۔ یہ اپنی نوعیت کا انوکھا احتجاج تھا جس میں بھینسیں نہ ہوتیں تو ان کے آگے بین کون بجاتا، محاورہ کا محاورہ اور طنز کا طنز۔

ایساہی کچھ آج کل سوشل میڈیا پر بھی دیکھنے میں آرہا ہے ، جہاں پی ٹی آئی اور ن لیگ کے کارکنان کی بھینسوں کی نیلامی پر خبروں پر خبریں بن رہی ہیں اور دوسری طرف غیر سیاسی صارفین کے دلچسپ تبصرے بھی سنائی دے رہے ہیں ۔

وزیر اعظم ہائوس کی بھینسوں کی نیلامی پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک صارف نے لکھا کہ ’سنتے آئے تھے کہ نیاپاکستان بننے جارہا ہے ، کیا بھینسیں اور کٹے بیچ کر نیاپاکستان بنایا جائے گا؟‘

ایک سوشل میڈیا صارف نے تو بھینسوں کی نیلامی پر آئی ایم ایف کے ملوث ہونے کا الزام بھی لگا دیا ہے ۔۔ صارف نے لکھا کہ بھینسوں کی سازش کے پیچھے آئی ایم ایف کی سازش نظر آتی ہے کیونکہ انہوں نے نیا قرضہ دینے سے پہلے بھینسوں کی نیلامی کی شرط رکھی تھی ۔

تازہ ترین