پینل انٹرویو:لیاقت علی جتوئی، رابعہ شیخ
اُستاد ایک ایسا چراغ ہے، جو تاریک راہوں میں روشنی کے دیئےجلاتا ہے اور یہ روشنی کسی معمولی انسان کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیتی ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو، جو تدریس کےشعبے سے افضل ہو۔ اس دور میں جہاںبچےدنیا سے قدم سے قدم ملاکر چلنے کے لیے انجینئر، ڈاکٹر یا پھر ایک کامیاب بزنس مین بننے کے خواب دیکھتے ہیں، وہاں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، جو ایک چلتا ہوا کاروبار چھوڑ کر شعبہ تدریس کا انتخاب کرتے ہیں۔ایسے ہی لوگوں میں سے ایک CAMSکالج کے سی ای او عادل بٹ ہیں۔ CAMS کالج کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ کراچی میں انسٹیٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹینٹس آف پاکستان سے الحاق شدہ پہلا ادارہ ہے۔ اس سفر کے آغاز اور حال سے متعلق معلومات جاننے کے لیے ہم نے عادل مسعود بٹ کے ساتھ ایک تفصیلی نشست رکھی، جس کا احوال ہم قارئین کی نظر کررہے ہیں۔
جنگ: آپ 1994ء سےتعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں، 24سالہ امتیازی اور شاندار کیریئر ہے،آپ آغاز کے بارے میں ہمارے قارئین کو کچھ مختصراًبتائیں؟
عادل بٹ :آج سے 24سال پہلے ہم تین دوستوں نے اس ایجوکیشن سسٹم کی بنیاد رکھی۔ شہزاد چامڈیہ، رضوان اخوند صاحب اور میں۔ ہم نے سینٹ پال ہائی اسکول سےساتھ O Level کیا، پھر ہم نے انٹرمیڈیٹ حتی ٰ کہ بی کام بھی ساتھ کیا۔ بی کام کے بعد ہم کچھ وقت کے لیے علیحدہ علیحدہ ہوگئے ۔ شہزاد چامڈیہ نے چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ فرم جوائن کرلی، رضوان اخوند صاحب یو کے چلے گئے اور میںماسٹراِن بزنس اینڈ فنانس کرنے میں مصروف ہوگیا۔ پانچ سال بعد قدرت نے ہمیں ایک بار اکٹھاکیا۔ اس عزم کے ساتھ کہ ہمیں مل کر کچھ کرنا چاہیے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب ہمارے یہاں ایجوکیشن سیکٹر اتنا مستحکم بھی نہیں تھا، ہم نے سوچا کہ اس ایجوکیشن سیکٹر کے استحکام کے لیے کچھ کا م کیا جائے اور یہی عزم اس انسٹیٹیوشن کی بنیاد بنا۔2001ء میںہم نے کراچی یونیورسٹی سے الحاق شدہ پہلے پرائیویٹ بی بی اے/بی ایس/ایم بی اے کالج کی بنیاد رکھی۔1994ءمیں CAMSکراچی کا پہلا ادارہ تھا جسےانسٹیٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ آف پاکستان سے الحاق کرنے کا اعزاز حاصل ہوا، اسلام آباد اور لاہور میں ICAPسے رجسٹرڈ ادارے پہلے سے موجود تھے۔ ہم نے 40طالب علموں کے ساتھCAکلاسز کا آغاز کیا اور پھر یہ سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔ اس کے بعد طالب علموں کی تعداد، دیگر پروگرامز اور کیمپسز میں اضافہ ہوتا چلاگیا۔
جنگ : کیا آپ کے آباؤ اجداد بھی اسی شعبہ سے وابستہ تھے؟
عادل بٹ :میرا تعلق ایک بزنس فیملی سے ہے۔ میرے والد صاحب ایک کامیاب بزنس مین ہیں لیکن مجھے نہیں لگتا تھا کہ مجھ میں ایک کامیاب بزنس مین چھپا ہے، مجھے استاد بہت متاثر کرتے تھے، سیکھنےاور سکھانے کاجذبہ مجھ میں بچپن سے موجود تھا۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے اپنےلیےوالد کے پیشے کو منتخب نہیں کیا۔ شروع میں میرے والد مجھے کہا کرتے تھے کہ میں نے تمہیں اتنا پڑھایا مگر تم ماسٹر لگ گئے، اس دور میں لوگ ٹیچنگ کو عام سا شعبہ سمجھاکرتے تھےلیکن اب اللہ کا شکر ہے کہ میرے والدصاحب کہتے ہیں کہ تم نے اپنے لیے درست شعبے کاانتخاب کیا۔
جنگ: CAMSکالج ACCAs, ACAs, CIMAs, CFAs اور MBAکے علاوہ کچھ شارٹ کورسز اور ڈپلومہ سرٹیفیکیٹ کورسز کرواتا ہے، کچھ ان کورسز سے متعلق بتائیں گے؟
عادل بٹ :ہم نے اس سفر کا آغاز چارٹرڈ اکاؤنٹینسی پروگرام سے کیا تھا، اس کے بعد ہم ACCA(برطانیہ کا چارٹرڈ اکاؤنٹینسی پروگرام)، چارٹرڈ فنانشل انالسٹ اور شعبہ اکاؤنٹس سے منسلک دیگر کورسز جوڑتے چلے گئے۔ ہم کراچی یونیورسٹی سے الحاق شدہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے کالجز بی کام اور بی بی اے بھی کروارہے ہیں۔ہمارے ادارے نے حال ہی میں EduQual کورس کا آغاز کیا ہے۔ یہ ایک آن لائن پروگرام ہے جوکہ پروجیکٹس اور اسائنمنٹس پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ کورس گریجویشن کرنے والے طالب علموں اور اکاؤنٹنگ کے پیشے سے وابستہ افراد (جنھوں نے CA/ACCA کررکھا ہو یا پھر کررہے ہوں) کیلئے بہترین ہے۔ طالب علم 6ہفتے کے قلیل عرصے میںEduQualڈپلومہ مکمل کرکے ماسٹرڈگری کی طرف پیش قدمی کرسکتے ہیں، جن میں یوکے کی یونیورسٹیز سے ایم بی اے بھی شامل ہے۔ یہ پروگرام6ماہ میں مکمل کیا جاسکتاہے۔ملائیشیا کیUCSI یونیورسٹی سے بھی ہمارا اشتراک ہے، ہم بچوں کو ڈگری مکمل کرنے اور مختلف کورسزکے لیے ملائیشیا بھی بھیجتے ہیں۔ ہمارے بچے تعلیم مکمل کرنے کے لیے برطانیہ بھی جاتے ہیں ۔
جنگ : بیرون ملک تعلیم کے حصول کے لیے افورڈایبل اسٹڈی کی بات کی جائے تو آپ کی کیا رائے ہے ؟ کس ملک کا انتخاب بہترین ہے؟
عادل بٹ :اگر افورڈیبل اسٹڈی کی بات کریں تو ملائیشیا ایک ایسا ملک ہے، جہاں کی پڑھائی والدین دیگر ممالک کی نسبت بآسانی افورڈ کرلیتے ہیں۔ دوسری اہم چیز وہ یہ ہے کہ ملائیشیا کا ویزا بھی طالب علموں کو بآسانی مل جاتا ہے۔ استطاعت میں ہونے کے علاوہ ملائیشیا کا نظام تعلیم بھی بہترین ہے۔ ملائیشیا ان ممالک میں شامل ہے، جنہوں نے مختصر مدت میں عظیم المثال ترقی کی۔ یہ حقیقت ہے کہ ملائیشیا نے اپنا تعلیمی معیار بین الاقوامی تعلیمی معیار کے برابر لانے کے لیے انقلابی اقدامات کئے ہیں اور آج ملائیشیا کی یونیورسٹیاں دنیا کی معیاری جامعات میں شامل ہیں۔ہمارے 50سے 60طالب علم ایسے ہیں جو ملائیشیا کی UCSIیونیورسٹی میں پڑھنے کے لیے جاچکے ہیں۔ اس کے علاوہ طالب علموں میں برطانیہ جاکر پڑھنے کا رجحان بھی کافی زیادہ ہے لیکن ملائیشیا کے مقابلے میں برطانیہ نسبتا ًخاصا مہنگا ہے۔
جنگ: آپ کا Avicenna school کیمبرج سے رجسٹرڈ ہے اور اسکول کا نام بھی خاصا منفرد ہے۔ کچھ اس کے بارے میں بتائیں؟
عادل بٹ :اسکول کے نام سے متعلق ہماری سوچ تھی کہ کسی مسلمان شخصیت کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اسکول کا نام ان سے منسلک کیا جانا چاہیے اور ہم نےاس کے لیے بوعلی سینا کا انتخاب کیا۔ ابن سینا عربی نام ہےلیکن ہمارا اسکول کیمبرج سے رجسٹرڈ تھا چنانچہ اسکول کے نام کےلیے ان کا مغربی نامAvicenna فائنل کیا۔
ہم نے1996ء میں Avicenna Schoolکی بنیاد رکھی۔ اس دوران ہم نے اےلیول پروگرام شروع کیا۔ مونٹیسوری سے لے کر او لیول، اے لیول، انٹرمیڈیٹ،بی کام،بی بی اے سمیت ہم زیادہ تر پروگرام اپنے ادارے سے منسلک کررہے ہیں۔ او لیول اور اے لیول میں ہم سائنس کے مضامین بھی آفر کرتے ہیں لیکن ہمارا بنیادی نقطۂ نظر فنانس، مینجمنٹ، کامرس اوراکاؤنٹنگ رہے ہیں۔ اس سے متعلق ہم والدین کو یہی کہتے ہیں کہ ڈھائی سال کی عمر میں آپ اپنے بچےکو ہماری مونٹیسوری میں داخلہ دلوائیں ہم20سال میں اسے CAبنا دیں گے ۔
جنگ:آپ کے ادارے سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباکا کیا مستقبل ہے؟
عادل بٹ :شعبہ اکاؤنٹس کسی بھی ادارے کا پہلا یا آخری انتخاب ہوتا ہے۔ اس کی مثال کچھ اس طرح سے لیں کہ جب آپ دفتر میں پہلا بندہ رکھتے ہیں تو وہ اکاؤنٹنٹ ہوتا ہے اور خدانخواستہ کسی بھی وجہ سے جب کمپنی بند کرنا پڑے تو آخری بندہ بھی اکاؤنٹنٹ ہی ہوتا ہے، جسے سب سے آخر میں نکالا جاتاہے۔ اس شعبے میںجاب سیکیورٹی سب سے زیادہ ہے۔ ہمارے بیشتر گریجویٹس آج بھی ملک کے نامور اداروں میں اچھے عہدوں پر کام کررہے ہیںاور اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے طالب علموں میںبے روزگاری کا تناسب صفر ہے۔
جنگ:مینجمنٹ سائنس کی بات کریں تو اس شعبہ کا مقصدمعیاری تعلیم اور جدید ترین سہولیات فراہم کر کےعالمی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے قابل مینجر اور بزنس لیڈر پیدا کرنا ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیںکہ آپ کا ادارہ ایسے قابل نوجوان تیار کرنے میں کتنا کامیاب ہوا ہے؟
عادل بٹ :جی ہاں !ہم پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہم ملک کی ترقی و خوشحالی میں اضافہ کرنےاور عالمی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے قابلِ قدر لیڈرز اور گریجویٹس تیار کررہے ہیں، میں کمپنیز کا نام نہیں لوں گا۔ ان کمپنیز میں ہمارے نامور گریجویٹس کام کررہے ہیں اور انشاءاللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
جنگ : جاب مارکیٹ میںاضافے کے لیے آپ مارکیٹ کے ساتھ اشتراک کتنا اہم سمجھتے ہیں ؟ کسی ادارے کے لیے طالب علموں کواندسٹری میں متعارف کروانا کتنا ضروری ہے؟
عادل بٹ :کسی بھی ادارے کے لیے مارکیٹ سے اشتراک کرنا بے حد ضروری ہے کیونکہ ہم نے بچوں کو وہی اسکلز دینی ہیں، جو انڈسٹری کی ڈیمانڈ ہے۔ اسی کی بدولت آپ اپنے طالب علموں کے لیے مستقبل میں جاب مارکیٹ میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ ہم اس کے لیے سیمینارز کا انعقاد کرواتے ہیں، جاب فیئر کرتے ہیں، انڈسٹری سے لوگوں کو بلواتے ہیں، جو انڈسٹری اور جاب ضروریات سے متعلق طالبعلموں کو آگاہ کرتے ہیں۔
جنگ : ہم نصابی اور غیر نصابی سرگرمیاں طالب علموں کی قابلیت میں اضافہ کرتی ہیں، اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
عادل بٹ : طلبہ میں خود اعتمادی اور لیڈر شپ کا جذبہ پروان چڑھانے کے لیے ہم نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کی اہمیت ناگزیر ہے۔ کسی بھی ادارے کے لیےان سرگرمیوں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں،CAMSکالج اس سلسلے میں تقریری مقابلوں کا انعقاد کرتا ہے۔ ہمارے بچےملکی ہی نہیںغیر ملکی مقابلوں میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ ہارورڈ اور یونائیٹڈ نیشن نیویارک میں ہونے والے مقابلوں میں بھی ہمارے بچے حصہ لے چکے ہیں۔ ہمارا ادارہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ یہ سرگرمیاں طالب علموں کی تربیت اور نشوونما کے لیے بے حد ضروری ہیں ۔
جنگ :اسٹوڈنٹ ایکسچینج پروگرام کے بارے میں آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟
عادل بٹ: میں طالب علموں کو یہی مشورہ دوں گا کہ جو تعلیم پاکستان میں دستیاب ہے، اسے پڑھنے کے لیے باہر نہ جایا جائے۔ لیکن ہاں! ان پروگرامز کے لیے ضرور باہر کا رُخ کیا جائے، جو ہمارے پاس موجود نہیں مثلاً پی ایچ ڈی کا کوئی ایسا پروگرام جو یہاں موجود نہ ہو، آئی ٹی کا کورس یا ماسٹرز کا کوئی تیکنیکی پروگرام وغیرہ۔ غیرملکی طالب علموں کے لیے ہمیں اپنی ویزا پالیسی تھوڑی آسان کرنی چاہیےکیونکہ ویزے میں مشکلات کے سبب باہر سے بچے یہاں آکر پڑھنے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہتے ہیں۔ اگر کسی غیرملکی نے پاکستان میں پڑھنا ہے تو اس کے لیے ایک لمبا پراسیس طے کرنا پڑنا ہےمثلاًوزارت داخلہ سے اجازت لینی پڑتی ہے، ان کی اجازت کےبعد پھر وہ فارن آفس جاتا ہے، اس کے بعد وہ ایمبیسی کو اجازت دیتے ہیںوغیرہ وغیرہ۔ ہمیں باہر سے آنے والے طالب علموں کے لیے ویزا پراسیس تھوڑا آسان اور مختصر کرنا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ طالب علم پڑھائی کے لیےپاکستان آسکیں۔
جنگ: میٹرک کریں یا او لیول، بچے اور والدین اسی مخمصے کا شکار رہتے ہیں۔ آپ اس سلسلے میں والدین کی کیا رہنمائی کریں گے؟
عادل بٹ : او لیول اور میٹرک میں میرے نزدیک فرق صرف قیمتوںکا ہے۔ او لیول مہنگا ہے اور میٹرک اس کی نسبت سستاہے۔ لیکن دونوں کے انتخاب سے قبل جو چیز اہم ہے وہ یہ کہ او لیول کرنے سے بچہ کامیاب نہیں ہوتا اور میٹرک کرنے سے بچہ ناکام نہیں رہتا۔ ہمارے جتنے بھی نامور سائنسدان گزرے ہیں انھوں نے دیہات کےکالج اور اسکولوں سے پڑھا ہے اور وہ کامیاب ہوئے ہیں۔ زندگی میں کسی بھی چیز کے حصول کے لیے جذبہ اور لگن ضروری ہے۔ جن طالب علموں میں جذبہ موجود ہو وہ کسی بھی اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد ملک کا نام روشن کرسکتے ہیں ۔