• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دروازہ کھلا۔کسی خرابی کی وجہ سے ہر بار دروازہ کھلنے کے باعث چائیں کی آواز آتی تھی، سو اس بار بھی آئی۔غیرارادی طورپرسب کی توجہ دروازے کی جانب پڑی۔یہ ٹام مالیٹی تھے۔کینیاسے تعلق تھا۔اخبارمیں کچھ دیر ہمارے ساتھی رہے۔جو لکھتے، دوڑدھوپ کے بعد لکھتے، سو کسی اسٹوری پر کام کرتے ہوئے معلومات کے لیے کسی سرکاری دفتربھی گئے تھے۔واپسی پراخبار کے دفترکے صوفے پرخودکو گراتے ہوئے بولے کہ معلومات لینا اتنا مشکل ہے کہ جس دستاویزکی قیمت بھی رکھی گئی ہے وہ بھی نہیں ملتی۔

یہ توتب کی بات ہے جب ابھی زندگی ایسی تیزرو نہیں تھی جیسی اب ہے۔ابھی انٹرنیٹ مشکل سے پائوں پائوں ہی چلنے لگا تھا۔مگراب جب کہ انٹرنیٹ کے عام ہونے اورویب سائٹس بننے کی وجہ سے لوگوں کو معلومات دینا آسان ترین ہوچکا ہے، حال ویسا ہی ہے۔ انسانی ترقی اور جمہوریت کی ترویج پر کام کرنے والی تنظیم انسٹیٹیوٹ فار ریسرچ، ایڈووکیسی اینڈ ڈویلپمنٹ کی اطلاعات تک رسائی کے عالمی دن ، 28 ستمبر، کی مناسبت سے جاری ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں کل 39 وفاقی وزارتوں میں سے 17 کی تو اپنی ویب سائٹس ہی نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ جن 29وفاقی وزارتوں کی اپنی ویب سائٹس بن چکی ہیں، ان میں سے بھی اکثریت نے کم از کم39 اقسام کی ایسی معلومات صارفین کو آن لائن مہیا نہیں کیں، جن کا معلومات تک رسائی کا تازہ ترین وفاقی قانون تقاضا کرتا ہے۔ یہ قانون ازخود انکشاف کا تقاضا کرتا ہے یعنی ایک ایسا عمل جس میں شہریوں کی طرف سے کسی درخواست کے بغیر ہی حکومت اور اس کے ادارے بنیادی ضروری اطلاعات اور ریکارڈ شہریوں تک ازخود پہنچا دیں۔ اس قانون کے مطابق اس قانون کے نفاذ کے چھ ماہ کے اندر اندر انفارمیشن کمیشن قائم کرنا لازم تھا، نہ ہوا۔ تمام وفاقی وزارتوں کو ایک ایک اطلاعاتی افسر مقرر کرنا تھا، نہ کیا۔ اور تو اور اس قانون کے تحت اب تک رولز آف بزنس ہی طے نہیں ہوئے۔یہ طے نہیں، تو اس قانون پر عمل درآمد کو یقینی کیسے بنایا جا سکتا ہے اور خلاف ورزی پر سزا کیسے ہو سکتی ہے؟

قانون کی بات بھی سن لیجیے۔2002 میں جب ایک لولا لنگڑا قانون متعارف کروایا گیا تو صرف اس لیے کہ یہ کسی قرضہ کے لیے ایک بین الاقوامی ادارہ کی شرط تھی۔ سقم بھول جائیں توتب اس کا امتیاز یہ تھا کہ جنوبی ایشیا میں ایسا پہلا قانون تھا۔اطلاعات تک رسائی کے حق کے لیے آواز اٹھانے والی تنظیمیں اپنا کام کرتی رہیں، حکومتیں بدلتی رہیں مگرنیا قانون 2017تک نہ آسکا۔پچھلے سال قانون آیا اور نافذبھی ہوا مگر عمل درآمد بہت ہی ناکافی۔

معلومات تک رسائی حق اظہار کے بنیادی حق کا لازمی جزو ہے۔احتساب صرف شفافیت ہی میں پنپ سکتا ہے۔احتساب کو یقینی اسی پیمانہ سے بنایا جا سکتا ہے۔ہمیں جاننا ہے کہ حکمران ہمارے بارے میں فیصلے کیسے کرتے ہیں۔ہمیں چھپانے کی بجائے ظاہر کرنے کا وتیرہ چاہیے۔ معلومات بانٹنے میں معیشت اور معاشرہ کی بہتری ہے، بدعنوانی اسی سے ختم ہوتی ہے۔ہر تہذیب کی ایک دستاویزی وراثت ہے۔اس وراثت کی اگلی نسلوں کو منتقلی کے لیے لازم ہے کہ تاریخی دستاویزات اور مخطوطات تک زیادہ سے زیادہ لوگوں کی آسان رسائی ہو۔ معلومات تک رسائی بلا امتیازہوتاکہ ریاست کے تمام شہری اپنے فیصلوں میں شریک ہو سکیں۔معاشرہ جمود میں نشوونما نہیں پاسکتا۔معلومات ہوا ہیں، روشنی ہیں، کواڑوں کو مقفل کرنے سے معاشرے کی دیواروں پر کائی جمے گی، زوال رواج پائے گا۔شفافیت ہوگی، علم ہوگا ، معلومات ہوں گی توکام چوری اور بدعنوانی ایسے ٹیڑھے رویوں کو جگہ نہیں ملے گی، ترقی ہوگی ۔ یہ کھڑکیاں، یہ دروازے کھول ہی دیں اب تاکہ حبس ختم ہو، جمہوریت بھرپور طورپر جڑ پا سکے، سانس لے سکے، زندگی پاسکے!

تازہ ترین