تحریر:ضیاء المحسن طیب…برمنگھم آج کے کالم میں امام غزالیؒ کی کتاب احیاء العلوم سے موت کے متعلق چند حیرت انگیز واقعات پیش خدمت ہیں جو انشاء اللہ قارئین کی دلچسپی اور عبرت کا باعث ہوں گے۔ حضرت امام غزالیؒ نے باب باندھا ہے۔ ’’ملک الموت کی آمد پر حیرت ظاہر کرنے والے واقعات‘‘ آپ لکھتے ہیں، اشعث ابن اسلم کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ملک الموت سے جن کا نام عزرائیل ہے، دریافت کیا کہ اگر ایک آدمی مشرق میں ہو اور دوسرا مغرب میں اور دونوں کا وقت ایک ہو یا کسی جگہ روحیں قبض کرنی ہوں، جہاں وباء پھیلی ہوئی ہو یا جنگ ہورہی ہو تو تم کیا کرتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ’’اللہ کے حکم سے روحوں کو بلاتا ہوں اور وہ میری انگلیوں کے درمیان سما جاتی ہیں تو میں انہیں قبض کرلیتا ہوں‘‘۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ پوری زمین ملک الموت کے لیے ایک پلیٹ کی طرح ہے، وہ جسے چاہتا ہے اس میں سے لے لیتا ہے۔ دوسرا واقعہ:۔ وہب ابن منبہ کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ نے کسی جگہ جانے کا ارادہ کیا، پہننے کے لیے بہترین لباس منگوایا، سواری کے لیے بہترین سواری منگوائی، اس پر سوار ہوکر بڑی شان و شوکت اور متبکرانہ انداز سے نکلا کہ اس کے نزدیک کسی آدمی کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ اسی دوران اس کے پاس ایک بدحال اور پراگندہ بال شخص آیا اور اسے سلام کیا لیکن بادشاہ نے اپنے غرور و تکبر کی وجہ سے اس کے سلام کا جواب نہ دیا۔ اس شخص نے اس کے گھوڑے کی لگام پکڑلی۔ بادشاہ نے کہا کہ لگام پکڑ کر تونے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ اس نے کہا کہ میں تیرے پاس ایک ضرورت سے آیا ہوں۔ بادشاہ نے کہا کہ میرے اترنے کا انتظار کر، اس نے کہا کہ نہیں، اسی وقت کام ہے، یہ کہہ کر اس نے لگام کو زور سے جھٹکا دیا۔ بادشاہ نے کہا کہ ٹھیک ہے، اپنی ضرورت بیان کر، اس شخص نے کہا کہ یہ ایک راز کی بات ہے۔ بادشاہ نے اپنا چہرہ اس کے قریب کیا۔ اس نے کان میں سرگوشی کی۔ ’’میں ملک الموت ہوں۔‘‘ یہ سن کر بادشاہ کا رنگ متغیر ہوگیا اور زبان لڑکھڑا گئی، وہ کہنے لگا، مجھے اتنی مہلت دے کہ میں گھر واپس جائوں اور اپنی بعض ضروریات پوری کرلوں اور اپنے اہل و عیال کو الوداع کہہ دوں، ملک الموت نے کہا کہ اب اس کی اجازت نہیں، اب کبھی تو اپنے گھر والوں کو اور اپنے مال و متاع کو نہیں دیکھ سکے گا، یہ کہہ کر ملک الموت نے اس کی روح قبض کرلی اور وہ سواری سے بے جان لکڑی کی طرح زمین پر گر پڑا۔ تیسرا واقعہ:حضرت اعمش روایت کرتے ہیں کہ ملک الموت حضرت سلیمان علیہ السلام کی مجلس میں آئے اور ان کے ساتھیوں میں سے ایک کو گھورنے لگے، جب مجلس برخاست ہوئی تو اس شخص نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے پوچھا۔ ’’یہ کون شخص تھے جو مجھے اس طرح گھور رہے تھے۔’’ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جواب دیا۔ ’’یہ ملک الموت تھے۔‘‘ یہ بات سن کر وہ شخص بے حد گھبراگیا اور کہنے لگا شاید وہ میری روح قبض کرنا چاہتے ہیں۔ ’’حضرت سلیمان نے اس سے دریافت کیا، تم کیا چاہتے ہو۔‘‘ اس نے شخص نے جواب دیا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ ان سے بچائیں اور ہوا کو حکم دیں کہ وہ مجھے اڑا کر کہیں دور لے جائے۔ آپؑ نے ایسا ہی کیا، تھوڑی دیر بعد ملک الموت دوبارہ مجلس میں حاضر ہوئے، حضرت سلیمان علیہ السلام نے ان سے پوچھا کہ تم میرے فلاں صاحب کو کیوں گھور رہے تھے، ملک الموت نے کہا مجھے اس شخص کو آپؑ کی مجلس میں دیکھ کر حیرت ہورہی تھی، کیونکہ خدا تعالیٰ سے مجھے اس شخص کو ہند کے فلاں علاقے میں روح قبض کرنے کا حکم ملا تھا، مگر وہ آپؑ کی مجلس میں تھا مگر جب میں اس علاقے میں پہنچا تو وہ وہاں موجود تھا جہاں میں نے اس کی روح قبض کرلی۔ چوتھا واقعہ:۔ ایک بندہ مومن سے ملک الموت کی ملاقات، ملک الموت نے اس بندہ مومن سے کہا کہ مجھے تم سے ایک راز کی بات کہنی ہے۔ اس نے کہا کہ ضرور کہو، ملک الموت نے کہا کہ میں ملک الموت ہوں۔ اس نے کہا کہ خوش آمدید، آپ سے ملنے کا مجھے شوق تھا۔ ملک الموت نے کہا کہ جو کام تم نے کرنا ہے وہ پورا کرلو۔ اس شخص نے کہا کہ مجھے خدا کی ملاقات سے زیادہ کوئی کام محبوب نہیں، آپ میری روح قبض کرلیں، ملک الموت نے کہا کہ تم کس حالت میں مرنا پسند کروگے؟ اس نے پوچھا تمہیں اس کا اختیار ہے؟ ملک الموت نے کہا کہ تم جس حالت میں مرنا پسند کروگے، میں اسی حالت میں تمہاری روح قبض کروں گا، اس نے کہا کہ میں سجدہ کی حالت میں مرنا چاہتا ہوں، اس نے خدا کے ہاں سر سجدہ میں رکھ دیا اور ملک الموت نے اس کی روح قبض کرلی۔ پانچواں واقعہ:۔ وہب ابن منبہ کہتے ہیں کہ ملک الموت نے ایک ایسے زبردست بادشاہ کی روح قبض کی دنیا میں جس کی شان و شوکت کے ڈنکے بجتے تھے۔ ملک الموت اس کی روح کو لے کر آسمان پر پہنچے تو ملائکہ نے ان سے پوچھا۔ اے ملک الموت آپ کو کس کی روح قبض کرتے ہوئے رحم آیا۔ ملک الموت نے کہا کہ ایک مرتبہ مجھے ایک ایسی عورت کی روح قبض کرنے کا حکم دیا گیا جو جنگل میں اکیلی تھی اور اس نے وہاں ایک بچے کو جنم دیا تھا، مجھے اس کی غریب الوطنی اور بچے کی تنہائی کا خیال آیا کہ وہ اس جنگل میں تنہا ہے، کوئی اس بچے کی دیکھ بھال کرنے والا بھی نہیں ہے۔ فرشتوں نے کہا کہ جس بادشاہ کی روح لے کر تم یہاں آئے ہو وہ یہی بچہ تھا جس پر تم نے رحم کیا تھا، ملک الموت نے کہا کہ خدا جس پر چاہے رحم فرمائے۔ عطا بن یسار کہتے ہیں کہ ماہ شعبان کی15تاریخ کو ملک الموت کو ایک صحیفہ دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس سال تمہیں ان سب لوگوں کی روحیں قبض کرنی ہیں جن کے نام اس صحیفے میں درج ہیں۔ عطا کہتے ہیں، انسان نکاح کرتا ہے، مکان تعمیر کرتا ہے، اسے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اس کا نام ملک الموت کے صحیفے میں لکھا جاچکا ہے۔ حضرت حسن بصری کہتے ہیں۔ ملک الموت ہر روز تین مرتبہ تمام گھروں کی تلاشی لیتے ہیں اور ہر اس شخص کی روح قبض کرلیتے جس نے اپنا رزق وصول کرلیا ہے اور اپنی عمر پوری کرلی ہے، جب اس کے گھر والے روتے ہیں تو ملک الموت کہتے ہیں کہ اس نے اپنی عمر پوری کرلی ہے، جب تمہاری عمر بھی پوری ہوجائے گی تو تمہاری روح بھی قبض کرنے آئوں گا۔