بمطابق وولف گنگ وولٹر مشہور جرمن پروفیسر 2002ء تا 2008ء پاکستان کی تاریخ میں اعلیٰ تعلیم کے میدان کا سب سے سنہری دور تھا۔اور اپنے ان خیالات کا اظہار پاکستان کے ایک مشہور اخبار نومبر 2005ء میں ”سنہری دور“ کے نام سے ایک مقالے کے ذریعے کیا۔ وولف گنگ وولٹر وہ سائنسدان ہیں جنہیں حکومتِ پاکستان اُن کے اعلیٰ تعلیم کے شعبے کی پاکستان میں فروغ و ترقی کے لیے کی گئی خدمات کے اعتراف میں اعلیٰ سول ایوارڈ بھی دے چکی ہے۔اُس مقالے میں میرے بارے میں بیان کیے گئے ان کے کلمات کامیں بے حد مشکور ہوں اور ایک جُزو قارئین کی نظر کر رہا ہوں۔
”ایچ ای جے انسٹی ٹیوٹ کی دن دگنی رات چوگنی ترقی پروفیسر عطاالرحمن کی دانشمندانہ صلاحیتوں، سائنس سے لگاؤ اور بے لوث لگن کا نتیجہ ہے اور ان میں ہر طرح کے انتظامی کام کرنے کی نہایت عمدہ صلاحیت ہے اس وجہ سے پروفیسر عطاالرحمن کومیرٹ کی بنیادو ں پر وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی اور بعد میں وفاقی وزیر و چیئر مین اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے لیے نامزد کیا گیا اور پھر ایک معجزہ ہوا۔ پروفیسر عطاالرحمن کی نامزدگی کے بعد ہی پاکستان میں تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک ڈرامائی انداز سے اس طرح مثبت تبدیلی رونما ہوئی جو پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔سنیٹ کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین برائے تعلیم نے حال ہی میں اِس دور کو پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا سنہری دور قرار دیا ہے۔
درحقیقت میں اکیلا اس کامیابی کا سہرا اپنے سر نہیں لے سکتا، بلکہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی کامیابی کے پیچھے ایک نہایت محنتی اور ہونہار ٹیم کی کاوشیں شامل تھیں۔جس میں ڈاکٹر اکرم شیخ نے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے پہلے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی حیثیت سے اپنا اہم کردار ادا کیا اور پھر ڈاکٹر سہیل نقوی اور اُن کے محنتی افسران کی ٹیم کی مستقل اور عمدہ کار کردگی نے 2002ء سے 2008ء میں ڈرامائی انداز سے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے نقشے کو یکسر تبدیل کر دیا۔ 2002ء سے 2008ء کے درمیان رونما ہونے والی پیش رفت اس قدر انقلابی تھی کہ پورے بھارت میں بجلی کی لہر دوڑ گئی اور بھارتی وزیراعظم کی توجہ ہمسایہ ملک کی طرف سے ”ابھرتے ہوئے خطرے“ کی جانب دلائی گئی نیہا مہتا نے 23جولائی 2006ءء میں ہندوستان کے ایک مشہور انگریزی اخبار ہندوستان ٹائمز میں ایک مقالے ”پاکستان کی جانب سے ہندوستان کو خطرہ“ کے عنوان سے اس سلسلہ میں ایک مضمون شائع کیا۔بد قسمتی سے یہ ترقی زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکی۔ اعلیٰ تعلیمی کمیشن گزشتہ چار سال سے نہایت مشکل حالات سے دو چار ہے اور جس تیزی سے شاندار ترقی اس کمیشن نے حاصل کی تھی اب صورتِ حال اس کے بر عکس ہے اور حالت مزید خستہ ہوگئی ہے۔تنگ نظری سے تشکیل کر دہ پالیسیوں کے تحت اعلیٰ تعلیمی کمیشن کا بجٹ پہلے سے کم کر دیا گیا ہے۔ (موجودہ ترقیاتی بجٹ گھٹ کر محض 15ارب رہ گیا ہے جبکہ یہ بجٹ تقریباََ 40ارب روپے تک ہونا چاہیے تھا) اس طرح بیشتر جامعات کے ترقیاتی کام متاثر ہو رہے ہیں۔اکتوبر 2008ءء میں میں نے اپنے عہدے چیئرمین وفاقی وزیرکے عہدے سے احتجاجاََ اس لیے استعفیٰ دیا تھاکہ بر سرِ اقتدار حکومت نے 5ہزار پی ایچ ڈی طلباء کا وظیفہ بند کر دیا جنہیں اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی طرف سے پی ایچ ڈی کرنے کے لیے بیرونیِ ممالک بھیجا گیا تھا۔ یہ طلباء پیرس، برلن، بیجنگ اور بہت سے یورپین ممالک میں تعلیم حاصل کر رہے تھے کہ اچانک اس بندش کی وجہ سے انہیں امریکہ، چائنا وغیرہ کے دیگر شہروں میں اپنے لیے مساجد میں فنڈزاکٹھے کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ یہ تو اس کہانی کی شروعات تھیں۔ 31مارچ 2011 میں حکومت نے قانون اور آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کو ختم کر دینے کا حکم نامہ جاری کیا، جس میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے ٹکڑے کرنے کی کوشش کی گئی، میں نے فیصلہ کیا کہ میں کم از کم اس ایک ادارے کو بچانے کی کوشش ضرور کروں گا جسے چھ سال کے قلیل عرصہ میں عمدہ کارکردگی کی بناء پر نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ دنیا کے دیگر ممالک بھی اس کی کار کردگی کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے اور اسے خراجِ تحسین پیش کیا گیا جس نے پاکستان میں قائم اعلیٰ تعلیم کے نقشے ہی کو یکسر تبدیل کر دیا۔میں نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل دائر کی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے خلاف یہ حکومتی قدم سرا سر غیر قانونی و غیر آئینی تھا جس کے جواب میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے 12اپریل 2008ءء میں فیصلہ میرے حق میں سناتے ہوئے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کو برقرار رکھنے کا حکم دیا اور یہ کہاکہ” اعلیٰ تعلیمی کمیشن کو ختم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ ایک خود مختار انتظامی ادارہ ہے اور موجودہ آئین کے تحت محفوظ ہے,نتیجہ یہ ہوا کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی تحلیل کو بچا لیا گیا جو آج بھی ان مشکل حالات میں ثابت قدمی کے ساتھ جدوجہد میں مصروف ہے۔تاہم اعلیٰ تعلیمی کمیشن پھر حکومتی حملے کی زد میں آ گیا ہے ۔ ایک اور آفت ۔حکومت اس کوشش میں ہے کہ سینئر افسران کی تعیناتی کے اختیارات اعلیٰ تعلیمی کمیشن سے چھین کر حکومتی ارباب ِاختیار میں دے دیئے جائیں۔جبکہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن ایک خودمختار ادارہ ہے اور اس کوکسی بھی قسم کی تقرری کے مکمل اختیارات حاصل ہیں۔ جیسا کہ اس کے آرڈنینس میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔
کمیشن کے قانونی اختیارات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے حال ہی میں سپریم کورٹ کے احکامات کو نظر انداز کر تے ہوئے ایک خط جاری کیاجس کے تحت کمیشن کی طرف سے کی گئی تعیناتی کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔یہ اس ادارے کی خود مختاری چھیننے کا ایک گھناؤنا قدم ہے۔ تا کہ اُن لوگوں کی تقرری کی جا سکے جو بر سرِ اقتدار حکومت کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کا اٹھارہ رکنی گورننگ بورڈجو اس وقت تمام سنیئر افسران کی تقرری کی منطوری دیتا ہے اس میں دو وفاقی سیکریٹری اور بہت سے ممتاز ماہرِ تعلیم اور دانشورشخصیات شامل ہیں۔ اگر اعلیٰ عہدوں پر تقرریوں کے اختیارات قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس بورڈ سے سلب کر لیے جائیں گے تو یہ شاندار ادارہ بھی نیست و نابود ہو جائے گاجس نے دنیا بھر کی بین الاقوامی تنظیموں امریکہ برٹش کونسل اور اقوامِ متحدہ سے داد حاصل کی ہے۔
اعلیٰ تعلیمی کمیشن وہ پہلا ادارہ نہیں ہے جس کے بورڈ آف گورنر کو چیلنج کیا گیا ہے کہ اس کو چیف ایگزیکٹو اور دیگر اعلیٰ افسران کی تقرری کے اختیارات نہیں ہے۔ اس قسم کے معاملات ہماری معزز عدالتوں میں پہلے بھی پیش ہوتے رہے ہیں۔جیسا کہ الیکٹرک سپلائی کی کمپنیوں کے بورڈ کے متعلق بھی ادارے کے اختیارات چھیننے کے لیے انہیں چیلنج کیا گیا تھا اور ہر دفعہ سپریم کورٹ نے بلا تفریق یہی فیصلہ صادر فرمایا کہ اعلیٰ عہدوں پر تقرریوں کے معاملے میں کمیشن کے اختیارات میں کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ غیر اخلاقی بھی ہے۔ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے معاملے میں11اپریل 2011ءء کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی واضح خلاف ورزی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے عین الفاظ یہ تھے۔”اعلیٰ تعلیمی کمیشن اپنے تمام کام اُسی طرح انجام دیتی رہے گی جس طرح ماضی میں کرتی چلی آئی ہے، جب تک کہ کوئی نیا قانون نافذ نہ ہو جائے۔“
موجودہ قانون کے تحت کوئی بھی اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی فعالیت پہ انگلی نہیں اٹھا سکتا ۔ورنہ یہ اس ملک کی اعلیٰ عدالت کے حکم کی خلاف ورزی ہو گی۔ہمیں بھارت کی طرف سے فکر مند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ پاکستان کے اصل دشمن تو اس کی جڑوں میں بیٹھے ہوئے ہیں جو اس کے کلیدی اداروں کو تباہ کر کے ملک کو گھٹنوں کے بل گرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔اسٹبلیشمنٹ ڈویژن کی اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے اختیارات کو کم کرنے کی حالیہ گھناؤنی سازش ایک ملک کے خلاف گھناؤنی سازش کا حصہ ہے اورسپریم کورٹ کے فیصلے کی کھلی توہین ہے۔ وزیرِ اعظم پاکستان اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے منتظم اعلیٰ ہیں، اور یہ اُن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ 11اپریل 2011ءء کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے حکومت کے نوٹیفیکشن کو واپس لیں اوراعلیٰ تعلیمی کمیشن کے اختیارات میں دخل اندازی سے گریز کریں کہ ”اعلیٰ تعلیمی کمیشن اپنے تمام کام اُسی طرح انجام دیتا رہے گا جس طرح ماضی میں کرتی چلی آئی ہے، جب تک کہ کوئی نیا قانون نافذ نہ ہو جائے۔“
اعلیٰ تعلیمی کمیشن ملک کا وہ واحد ادارہ ہے جس کو بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا۔میں محترم وزیرِ اعظم صاحب سے اپیل کرتا ہوں کہ ان سنگین حالات کا نوٹس لیں اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واضح احکامات جاری کریں کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے سے انحراف نہ کریں، اس سے پہلے کہ پاکستان کے اعلیٰ تعلیم کے شعبے کو ناقابلِ تلافی تقصان پہنچے اور یہ ادارہ بالکل تباہ ہو جائے۔