• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے، تاہم لگتا ہے کہ امریکی اعصاب 17 سالہ جنگ کی وجہ سے جواب دے گئے ہیں اور وہ افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے، اس کی صرف یہ خواہش ہے کہ اس نے افغانستان میں جو 9 جدید اڈے بنائے ہوئے ہیں اُن کو طالبان رہنے دیں تو وہ افغانستان سے عملاً نکل جائے گا۔ اصل میں قندھار حملہ جس میں صوبہ قندھار کے فوجی سربراہ عبدالرزاق، اُن کے انٹیلی جنس چیف سمیت کئی افراد ہلاک ہوئے تھے اور ساتھ تین امریکی فوجی زخمی بھی ہوئے تھے، اس نے افغانستان میں امریکی موجودگی کو چیلنج کردیا، اس کے بعد امریکہ نے ہاتھ پائوں چھوڑ دیئے۔ چنانچہ امریکہ نے زلمے خلیل زاد کو پاکستان اور افغانستان کے لئے امریکی خصوصی نمائندہ اس مینڈیٹ کے ساتھ بنایا ہے کہ وہ طالبان سے مزاکرات کرکے امریکہ اور افغان طالبان کے خلاف جنگ بندی کرا دیں، چنانچہ وہ پاکستانی حکام سے آکر ملے اور پاکستان نے مکمل تعاون کا یقین دلایا، اس کے بعد زلمے خلیل زاد کے افغان طالبان سے دوحا اور سعودی عرب میں مذاکرات ہوئے اور پھر امریکہ نے طالبان کمانڈرز کی رہائی کے بدلے میں ایک امریکی فوجی سارجنٹ بووی برگ ڈاہل کی رہائی کی شرط رکھی جو طالبان نے مان لی، چنانچہ تین کمانڈرز پاکستان نے اور پانچ کمانڈرز گوانتاناموبے سے رہا کردیئے گئےہیں، کہا جاتا ہے کہ یہ آٹھ کے آٹھ رہا شدہ کمانڈرز دوحا آفس میں موجود ہوں گے اور امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات شروع ہوں گے۔ یہ رہا شدہ کمانڈرز طالبان کے لئے انتہائی اہم ہیں مگر ملا عبدالغنی برادران ملا عمر کے بعد طالبان کے انتہائی اہم لیڈر مانے جاتے تھے، اس لئے لگتا ہے کہ امریکہ افغان طالبان سے مزاکرات میں کافی سنجیدہ ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کی خواہش ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح افغان جنگ یا ایسے تنازعات سے باہر نکل آئے جہاں امریکی جانوں کو خطرہ ہے، اُس کی ایک وجہ یہ ہے کہ امریکہ اپنے ملک کے اندر دیکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے اور دوسرے وہ اخراجات کم سے کم کرنے کا خواہاں ہے۔ امریکی حکام کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی امریکی افغانستان میں مرتا ہے تو ڈونلڈ ٹرمپ کا اضطراب بڑھ جاتا ہے اور پینٹاگون سے یہی سوال کرتے ہیں کہ امریکی کب تک مارے جاتے رہیں گے، اس سلسلے میں امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس متحرک ہوئے اور پاکستان کے فوجی حکام نےانہیں یہی مشورہ دیا تھا کہ وہ افغان طالبان کے ساتھ مزاکرات کریں اگرچہ اُن کی خواہش تھی کہ پاکستان یہ مسئلہ حل کرکے دے، پاکستانی حکام نے مشورہ دیا تھا کہ پاکستان موجودہ حالات میں کسی بھی صورت افغان عوام سے نہیں لڑ سکتا، وہ صرف سہولتیں فراہم کرسکتا ہے اور وہ بھی اس لئے کہ کچھ افغان طالبان کے خاندان پاکستان میں مقیم ہیں ان کے ذریعے وہ طالبان کو مذاکرات کے لئے راضی کرسکتے ہیں جبکہ امریکی حکام پاکستان پر دبائو ڈال کر اس کو افغان جنگ میں جھونک دینا چاہتے تھے، پاکستان پر دبائو بڑھایا گیا اور اُن کی رقم کی ادائیگی بند کردی گئی تاہم پاکستان اپنے موقف پر قائم رہا۔ ہمارے نزدیک مذاکرات کی کامیابی کا انحصار شاید اس بات پر ہو کہ طالبان امریکہ کے 9 اڈے افغانستان کی سرزمین پر چھ سے دس ہزار فوجی رکھنے پر راضی ہوجائے یا امریکہ طالبان کی بات مان کر افغانستان سے اپنے فوجی اڈے ختم کردے۔ اگرچہ دونوں اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ امریکہ اڈے خالی کرے اور امریکہ یہ چاہتا ہے کہ طالبان قائم شدہ اڈوں پر امریکی فوج کی موجودگی قبول کرلیں۔ دونوں میں سے کسی ایک کے اپنے موقف سے دستبردارہونے کی صورت میں مذاکرات آگے بڑھ سکتے ہیں، امریکہ میں یہ بات کہی جارہی ہے کہ 17برسوں کی جنگ میں امریکہ کے اعصاب شیل ہوگئے ہیں اور وہ افغانستان میں جنگ ہار چکا ہے، یہ بات وہاں کے باخبر صحافی اور کالم نگار واضح طور پر لکھ رہے ہیں جو کہ وہاں کے معروف اخبارات میں شائع ہوتے ہیں، دوسرے امریکہ اس وقت ہر دوست حکومت سے کہہ رہا ہے کہ وہ امریکہ پر انحصار کم کرے اور خود اپنی حفاظت کا انتظام کرے، اس کے یہ معنی لئے جاسکتے ہیں کہ امریکہ اپنے عالمی کردار سے دستبردار ہورہا ہے یا پھر یہ اس کا وقتی موقف ہے، اُسے معاملات کو سنبھالنے کے لئے کچھ وقت چاہئے، اس وقت امریکہ اپنے ملک کے حالات کو سنبھالنے میں لگا ہوا ہے، وہ ایک طرح سے سفید فام حکومت کےقیام کرنے میں زیادہ دلچسپی لے رہا ہے، وہاں یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ امریکہ پہلی عالمی جنگ کی طرح تنہائی کا شکار ہورہا ہے۔ جیسے یورپ میں اُن کے خلاف کافی ناراضگی پیدا ہوگئی ہے کیونکہ امریکہ نے ’’نیٹو‘‘ یورپ کو روس کے خطرے سے بچانے کے لئے بنائی تھی، اب امریکہ نے یورپی ممالک پر واضح کردیا ہے کہ ہر ملک اپنی حفاظت خود کرے جس کی وجہ سے یورپ کے ممالک کافی پریشان ہیں، کہا جارہا ہے کہ نیٹو اپنی افادیت کھو بیٹھا ہے اور وہ ٹوٹنے جارہا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یورپی ممالک نے نیٹو کے حفاظتی حصار میں اپنی معیشت کو ترقی دے لی ہے جبکہ امریکہ کی معیشت کو نقصان پہنچا ہے۔ اس لئے امریکی صدر بار بار کہہ رہے ہیں کہ جس ملک کو بھی امریکہ کی حفاظتی حصار کی ضرورت ہو وہ اس کی قیمت ادا کرے، دوسرے امریکہ ایران کے خلاف پابندیوں کی حمایت کرنے کی وجہ سے جرمنی، فرانس اور برطانیہ سے خفا ہے کیونکہ وہ P5+1 ایران معاہدے کو قائم رکھنا چاہتے ہیں اس لئے کہ اِن ممالک کے ایران سے مفادات وابستہ ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ یہ معاہدہ ختم ہو۔ دوسری طرف امریکہ نے روس کے ساتھ(INF) ایٹمی معاہدہ کو ختم کردیا ہے، جس کا مطلب امریکہ کا ایٹمی معاملات میں توجہ دینا بتلایا جارہا ہے، شاید اُس کی وجہ روس کی اسلحے میں بڑھتی ہوئی طاقت اور امریکہ کی کمی کے احساس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، ایسی صورت میں یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ عین ممکن ہے کہ افغان طالبان مذاکرات میں شاید امریکہ کے اڈے ختم کرنے کی شرط مان لیں اور اِن اڈوں کو دس سال تک قائم رہنے دیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین