• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قوم کو مبارک ہو حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان پانچ نکاتی معاہدہ طے پا گیا اور وفاقی و صوبائی دارلحکومتوں سمیت مختلف شہروں میں جاری احتجاج اور دھرنے ختم ہو گئے، مظاہرین ہدایات ملنے کے بعد پر امن طور پر منتشر ہوگئے، چوک ، چوراہے، گزرگاہیں ،راستے کھل گئے زندگی کا پہیہ پھر سے رواں ہو گیا، ماں جیسی ریاست نے پانچ نکات کے ذریعے اپنے بچوں کی تشفی کا بھرپوربندوبست کردیا،اگر بھول چوک سے قانون کو ہاتھ میں لینے والوں میں سے چند ایک کو سرکارکا مہمان بنایا بھی گیا تھا تو معاہدے کے چوتھے نکتے کے تحت انہیں عزت و احترام سے گھروں کو واپس بھیجنے پر رضامندی ظاہر کردی گئی۔ مدینہ جیسی ریاست کے قیام کی طرف اس سے بڑی پیش رفت اور کیا ہو گی کہ عفو و درگزر کا عظیم مظاہرہ کرتے ہوئے معاہدے پر اسی کے دستخط ثبت کرائے گئے جس نے ریاستی اداروں اور ان کے سربراہان کی تضحیک کی ، اس حسن سلوک سے متاثر ہو کر یقینا بھٹکے ہوئے عناصر راہ راست پر آ جائینگے، جہاں تک شہریوں کے جان و مال کو پہنچنے والے نقصان کی بات ہے تو اس کیلئے بھی معاہدے میں خصوصی طور پر پانچواں نکتہ شامل کر کے ریاست نے ان پر دست شفقت رکھا ہے، اس سے زیادہ اعلیٰ ظرفی اور کیا ہو گی جنہوں نے حکومت اور ریاستی اداروں تک اہمیت دینا گوارا نہ کیا وہ میرے اور آپ جیسے عام شخص سے بھی معافی کے خواستگار ہیں کہ اگر اس واقعے کے دوران کسی کی بھی بلا جواز دل آزاری یا تکلیف ہوئی تو وہ اس پر معذرت خواہ ہیں۔ اب ہم عوام کو بھی حکومت کی طرح دل بڑا کر کے توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کرنے جیسی چھوٹی موٹی غلطیوں پرپشیمان ہونے والوں کو خندہ پیشانی سے معاف کر دینا چاہئے،امید ہےکہ اس معصوم بچے کی بے بسی کا منظر اپنا غم بھلانے کیلئے کافی ہو گا جس کی ریڑھی سے زبردستی کیلے ہی نہیں اٹھائے گئے تھے بلکہ اسے عمر بھر کیلئے یہ سبق از بر کرا دیا گیا کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ نومبر 2017 سے نومبر 2018کے صرف ایک سال کے دوران تاریخ کا پہیہ الٹا کیا گھوما کہ ایسا خوش کن منظر دیکھنے اور سننے کو ملا کہ آنکھوں اور کانوں کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا، کل تک بطور اپوزیشن رہنما فیض آباد دھرنے کے دوران جو عمران خان یہ فرما رہے تھے کہ ان کا دل چاہتا ہے کہ وہ بھی احتجاج کرنے والوں کے ساتھ جا کر بیٹھ جائیں، بطور وزیر اعظم پاکستان قوم سے خطاب کے دوران وہی خان صاحب مظاہرین کو ایک چھوٹا سا طبقہ قرار دے کران سے استفسار کر رہے تھے کہ اس میں حکومت کا کیا قصور ہے؟ یہی نہیں پاکستان میں 126دن کے طویل ترین دھرنے کے ریکارڈ پر ببانگ دہل فخر کرنے والے کپتان وزارت عظمیٰ کی کرسی پربراجمان ہو کر دھرنا دینے والوں کو خبردار کر رہے تھے کہ اگر وہ بعض نہ آئے تو ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے گی، کوئی ٹریفک رکنے نہیں دی جائے گی ، لوگوں کے جان و مان کی حفاظت کی جائے گی اور ریاست سے ٹکرانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائیگی،گرجدار لہجے میں پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کرنے والے آئی جی اسلام آباد کو اوئے طاہرعالم تمہیں میں اپنے ہاتھوں سے جیل میں ڈالوں گا جیسی دھمکیاں دینے والے خان صاحب آج اپنے ایک وزیر کے ایس ایم ایس پر آئی جی کو تبدیل کر دیتے ہیں، جس بیوروکریسی کو شریف خاندان کا نوکر نہ بننے کی نصیحتیں کی جاتی تھیں آج انہی افسران کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ جو حکومت کا ہر جائزو ناجائز حکم نہیں مانے گا اسے گھر کی راہ لینا ہو گی۔ افسرشاہی کو سیاست زدہ کرنے کے طعنے دینے والے کبھی ڈی پی او پاکپتن کو کھڈے لائن لگا دیتے ہیں تو کبھی راتوں رات آئی جی کو صوبہ بدر کر دیتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کی مثالی پولیس کا کریڈٹ لینے والے ، پولیس اصلاحات کے حقیقی معمارناصر درانی کو فری ہینڈ نہ دینے پر مستعفی ہونے پرمجبور کر دیتے ہیں۔ کبھی پارٹی کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کی سفارش نہ ماننے والے افسران کی سرزنش کی جاتی ہے تو کبھی انہیں ہدایات دی جاتی ہیں کہ تحریک انصاف کے لوگوں کے کام فوری کئے جائیں۔ بلدیاتی نظام کو تبدیل کرنے کے نعرے لگانے والے پارٹی کے اندر سے مخالفت پر ہی چپ سادھ لیتے ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں کیلئے فنڈز جاری نہ کرنے کے دعوے کرنے والے ایک ہی اجلاس میں پارٹی کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کے شکوے شکایتوں کے بعد قومی خزانے کا منہ کھول دیتے ہیں۔ میرٹ کی بالا دستی کا راگ اور اقربا پروری کے دعوے تو دوستوں کو نوازنے کے بعد کب سے ہوا ہو چکے۔ اسد عمر سمیت تحریک انصاف کے جو رہنما پٹرولیم مصنوعات اور بجلی پر عائد ٹیکسوں پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے تھے آج وہی دبے لفظوں میں ان ٹیکسوں کا دفاع کرتے دکھائی دیتے ہیں، سوئس بنکوں میں 200 ارب ڈالر اور منی لانڈرنگ کے اربوں ڈالرز کے طعنے دینے والے آج کھسیانی مسکراہٹ کے ساتھ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ وہ تو سنی سنائی باتیں تھیں۔ آج کل پریس گیلری میں بیٹھ کر تحریک انصاف کے رہنماؤں کے منہ سے جمہوریت کی مضبوطی کیلئے مل کر پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے جیسی باتیں بہت بھلی لگتی ہیں ، اور تو اور اپوزیشن سے تعاون طلب کرنے کیلئے ڈاکٹر شیریں مزاری کو اپوزیشن رہنماؤں سے لابی میں ملاقاتیں کرتے اور اپوزیشن لیڈر کے چیمبر کے چکر لگاتے دیکھ کر تو بے ا ختیار ہنسی آ جاتی ہے۔ سیانے سچ کہتے ہیں کہ وقت بہترین استاد ہے اور صرف 75 دنوں کے اقتدار نے پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو وہ کچھ سکھا دیا ہے جو وہ اپوزیشن میں رہتے کبھی نہ سیکھ سکتے تھے۔ اس پر تو اپوزیشن کو چاہئے کہ وہ وقت کے ہاتھوں خان صاحب اور ان کے ساتھیوں کی تربیت کیلئے انہیں پانچ سال کا پورا موقع فراہم کرے جسکے بعد کنٹینر سے بھی مثبت اور تعمیری سیاست دیکھنے کو ملے گی ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین