• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’شیخ زاید مسجد‘‘ عرب، مغل اور افریقی طرز تعمیر کا بے مثل امتزاج

’خلیج کا سفید موتی یادنیا کی حسین مسجدوں کی کہکشاں میں ایک خوبصورت ستارے کا اضافہ‘۔ ابوظبی میں واقع ’شیخ زاید مسجد‘ کے بارے میںجس نے بھی یہ کہا ٹھیک ہی کہا ہے کیونکہ دن میں سورج کی روشنی میں اس عمارت کو دیکھا جائے توسفید سنگ مرمرسے ڈھکی یہ عمارت سفید موتی معلوم ہوتی ہے جبکہ رات میں یہی عمارت نیلی روشنی میں کسی تارے سے کم نہیں لگتی۔متحدہ عرب امارت کے بانی اور اولین صدر شیخ زاید بن سلطان النہیان کی ابوظبی میں اپنے نام سے موسوم مسجد، امارات کی سب سے بڑی مسجد ہے اور اس کا شمار دنیا کی 10بڑی مساجد میں ہوتا ہے۔ مسجد کا بنیادی تعمیراتی ڈیزائن مراکشی ہے مگر اس میں بہت سے عالمگیری رنگ نظر آتے ہیں، بشمول بیرونی دیوار کے، جو ترکی کے روایتی فن تعمیر کا نمونہ ہے۔ اس طرح 22,412مربع میٹر یعنی فٹبال کے پانچ میدانوں کے برابررقبہ پر تعمیر اس مسجد کواپنے طرز تعمیر کے لحاظ سے عرب،مغل اور افریقی طرز تعمیر کا خوبصورت اور بے مثل امتزاج کہا جا سکتا ہے، جس میں40,960نمازی بہ یک وقت نمازادا کر سکتے ہیں بشمول خواتین،جن کیلئے مسجد میں دو ہال مختص کئے گئے ہیں۔17,000مربع میٹر مسجد کا صحن سفیدیونانی سنگ مرمر سے آراستہ ہے جبکہ اس پر بڑے بڑے پھول بوٹے بنائے گئے ہیں، جنھیں دور سے دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے جیسے پھولوں والی سفید چادر بچھا دی گئی ہے۔مسجد کے صحن کے چاروں کونوں پر ایک ایک مینار ہے۔ان چاروں میناروں کی اونچائی 105میٹرہے ۔مسجد کے مراکشی ڈیزائن کے 82 گنبد سفید سنگ مرمرسے مزین ہیں، جن میں چھت پر بنے تین بڑے گنبد بھی شامل ہیں۔انڈے کی شکل کے ان تین گنبدوں میں سے درمیان والا گنبد دنیا کا سب سے بڑا گنبد ہے ۔اس گنبد کی اونچائی باہرسے 85میٹر اور اندر سے70میٹرہے جبکہ بیرونی قطر 32.8میٹر ہے۔ مسجد کا اندرونی حصہ بھی اتنا ہی حسین ہے جتنا کہ بیرونی۔ مرکزی گنبد کو آٹھ ستونوں پر آٹھ کونوں والے ستارے کی شکل میں اُٹھایا گیا ہے، جس کا نیچے کھڑے ہو کر مشاہدہ کیا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے مسجد کی چھت نے آٹھ کونوں والا تاج سر پر رکھا ہوا ہے۔یہ گنبد جن آٹھ ستونوں پر کھڑا کیا گیا ہے ،یہ ستون بھی اپنے اندر ایک خوبصورتی سمیٹے ہوئے ہیں۔ان میں سے ہر ایک ستون کی چار ٹانگیں ہیںیا یوں کہہ لیجئے کہ ہر ستون چار چھوٹے ستونوں پر قائم ہے اور ان ٹانگوں یا چھوٹے ستونوں کے نیچے کا فرش آٹھ نوکیلے پتوں والے پھول کی شکل کا ہے، جس کی ایک پتی چھوڑ کر ایک پرستون ہیں۔ اس پھول جیسے فرش کے آس پاس قالین بچھا ہے مگر اس حصے کو قالین سے باہر رکھا گیا ہے ۔ ان چاروں ستونوں کے درمیان بھی فاصلہ ہے یعنی یہ آپس میں ملے ہوئے نہیں ہیں جبکہ ان چاروں ستونوں کے درمیان فرش کے اندر آٹھ پتیوں والے پھول کی شکل کی ہی لائٹ نصب کی گئی ہے، جو بالکل فرش کی سطح کے برابر ہے۔ ان چھوٹے ستونوں پر صدف کے ساتھ ساتھ زبرجد اورلاجورد جیسے قیمتی پتھروں سے بیلیں بنائی گئیں ہیں، جو روشنی پڑنے پر چمکنے لگتی ہیں۔باقی دونوں گنبد بھی اسی طرح کے ستونوں پر اُٹھائے گئے ہیں ۔اس طرح ان تمام ستونوں کی تعداد96ہوجاتی ہے۔

مسجد کے ڈھانچے میں 1000کالم بھی شامل ہیں، جن پر سنگ مرمرکی2000تختیاں (penals) لگائی گئیں ہیں۔ان تختیوں پراس طرح بیلیں بنا ئی گئی ہیں کہ تختیوں میں سے پھولوں اور بیلوں والا حصہ کاٹ کر نکال لیا گیا اور پھر ان میں نیم قیمتی پتھروں یعنی لاجورد، سرخ عقیق،نیلم یاقوت اور صدف کے پھول اور بیلیں بناکر جڑ دی گئی ہیں، جس کے بعد انکی رگڑائی اور پالش کا کام کیا گیا ۔ان بیلوں کی بہار خاص کر راہداریوں کے ستونوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔جبکہ مرکزی ہال کے دائیں اور بائیں بنائے گئے کمروں کی دیواروں اور فرش پر بھی انہی پتھروں کو کاٹ کر بیلیں بنائی گئی ہیں مگر انکی خاص بات یہ ہے کہ ان کو اندر نہیں جڑا گیا بلکہ اوپر لگایا گیا ہے، جس سے دیکھنے والے کو یہ گمان ہوتا ہے کہ شاید دیواروں پر،فرش پر اور دروازوں کے ارد گرد اصلی بیلیں چڑھائی گئی ہیں۔ مسجد کی آرائش کیلئے سونا،پتھر،بلور اور سرامکس جیسی قدرتی دھاتیں استعمال کئی گئی ہیں تاکہ تعمیروتزئین دیر پا رہے۔مسجد میں 28اقسام کا سنگ مرمر استعمال کیا گیاہے۔مسجد کے ہال میں بچھا دنیا کا سب سے بڑا قالین اپنے ڈیزائن،پیمائش اور رنگوں کے لحاظ سے نرالا اور بے مثال ہے،اس میں پچیس سے زائد رنگ استعمال کئے گئے ہیں۔قالین کے تمام حصے مکمل طور پر ہاتھ سے تیار کئے گئے ہیں اور اسے ایک ایرانی ماہرِفن علی خالقی نے ڈیزائن کیا ہے جبکہ ایران ہی کی ایک ممتاز قالین ساز کمپنی نے اسے تیار کیا ہے۔اس قالین کی پیمائش 5,627مربع میٹر(60,570 مربع فٹ)ہے اور اسے تیار کرنے میں 20ماہرفنکاروں، 1200کاریگروں اور30 مزدوروں نے حصہ لیا۔ اس قالین کا وزن47ٹن ہے، جس میں35ٹن اُون اور 12ٹن سوت استعمال کیا گیاجبکہ اس قالین پر30ملین درہم لاگت آئی ہے۔مسجد کے مرکزی دروازے سمیت، جس کی چوڑائی 7میٹر،اونچائی 12.2میٹراور وزن 2.2 ٹن ہے ،مسجد میں نصب تمام شیشے کے دروازوں کے فریم مسجد میں بنے نقش و نگار کے مطابق بنائے گئے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ رنگین شیشوں کے ٹکڑوں سے دروازوں کے شیشوں پر پھول بھی بنائے گئے ہیں۔ مسجد کی23میٹراونچی اور50میٹرچوڑی محراب والی دیوارپرگچ(پلاسٹر آف پیرس)اور سنگ مرمر کا اعلیٰ پائے کا کام کیا گیا ہے۔پلاسٹر آف پیرس کوسانچوں میں ڈھال کر ڈیزائن بنائے گئے اور پھر ان کی رگڑائی کرکے آپس میں جوڑ کر ڈیزائن مکمل کرکے لگائے گئے ہیں جبکہ سنگ مرمر کے تقریباًایک ایک انچ کے ٹکڑوں کو جوڑ کر بڑے بڑے پھول بناکرانہیں پالش کرکے لگایا گیاہے، جن پر روشنی پڑتی ہے تویہ کپڑے پر لگے ستاروں کی طرح جھلملاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اور بھی کمال کا کام کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ کھدی ہوئی نالیوں کی شکل کی بیلیں بنائی گئیں ہیں، ان پر فائبر(شیشے جیسی پلاسٹک) لگا کر پیچھے سے لائٹیں لگائی گئی ہیں، جن کے جلانے پر یہ بیلیں روشن ہوکر دلفریب منظر پیش کرتی ہیں اوریوں لگتا ہے جیسے یہ بیل بوٹے چمک رہے ہیں۔ ان بیلوں میں مناسب فاصلے پر ایک ایک کرکے پھول بنائے گئے ہیں اور ہر پھول میں اللہ کا ایک صفاتی نام خطِ کوفی میں انتہائی مہارت اور عرق ریزی کے ساتھ بنایا گیا ہے۔اس کے علاوہ اس دیوار پر اللہ تعالیٰ کے ننانوے صفاتی ناموں(اسماء الحسنیٰ) کی نہایت خوبصورت خطاطی کرکے اس دیوار پر لگایا گیا ہے۔ اس خوبصورت دیوار کے درمیان میں قدرے اونچی محراب بنائی گئی ہے جوکہ قبلے کے رُخ کی ترجمانی کرتی ہے۔اس محراب میں سنہرے شیشے کا انتہائی نفیس دھاری دار کام کیا گیا ہے۔

مسجد میں تین قسم کے رسم الخط میں خطاطی کی گئی ہے۔خطِ نسخ،خطِ ثلث اورخطِ کوفی ۔مرکزی گنبد کے درمیان دنیا کا سب سے بڑا فانوس نصب ہے ۔ یہ ان سات فانوسوں میں سے ایک ہے، جو جرمنی سے تیار کروائے گئے ہیں جبکہ شیشے کا کچھ کام اٹلی سے بھی کراوایاگیا ہے ۔9ٹن وزنی اس فانوس کے فریم کاقطر(گولائی) 10میٹراور اونچائی15 میٹرہے ۔ اسٹیل اور تانبے کے اس فریم پر خالص سونے کی ملمع کاری کی گئی ہے اور اس پر چالیس ملین جرمن بلور (کرسٹل)لگائے گئے ہیں، جو برف کے شفاف ٹکڑوں کا منظر پیش کرتے ہیں جبکہ اس پر 30ملین درہم سے زیادہ لاگت آئی ہے۔

تازہ ترین