پروفیسر عفت بانو
حال ہی میںوزیر تعلیم نےکہاہے کہ، کالجوں میں طالب علموں کی حاضری یقینی بنانے کے لیےہر مہینے ٹیسٹ کا نظام رائج کیا جائے،جس کے نمبر سالانہ امتحان میں شامل کیے جائیں ،تاکہ طلباء کلاسوں سے غیر حاضر نہ رہیں ۔یہ حقیقت ہے کہ، کالجوں میں طلباء کی حاضری کا معاملہ نہایت گمبھیر صورت اختیار کرچکا ہے، لیکن اس کی کئی وجوہ ہیں۔ذیل میں ہم چند کا تذکرہ کر رہے ہیں۔
1۔پورے صوبے میں کوچنگ سینٹر زکا جال پھیلا ہوا ہے، جیسے ہی نوجوان دسویں جماعت کےامتحان سے فارغ ہوتے ہیں،کوچنگ سینٹرزمیںکلاسوں کا آغازہوجاتاہے،جب کہ کالجوں میں داخلوں کا مرحلہ دسویں جماعت کا نتیجہ آنے کے بعد شروع ہوتا ہے اور اس میں بھی کم از کم ایک سے ڈیڑھ مہینہ لگتا ہے ،یعنی جب تک کالجوں میں کلاسوں کا آغاز ہوتا ہے، طالب علم کوچنگ سینٹر میں تقریباً آدھا نصاب پڑھ چکے ہوتے ہیں، اس لیے انہیںکالج جانے میں کوئی دل چسپی نہیں ہوتی،بس داخلے لیتے ہیں۔
2۔کالج میں تعلیمی سیشن کے آغاز میں چند نوجوان جوش و خروش سے کالج تو جاتے ہیں، مگرچند ہی دنوں میں انہیں اندازہ ہوجاتا ہے ،کہ یہاں تو پڑھائی ہو ہی نہیں رہی۔وہ جلد ہی اندازہ کرلیتے ہیں ،کہ کالج آنا صرف وقت کا ضیاع ہے، یوں اکثر طالب علم کالج جانا چھوڑ دیتے ہیں۔
3۔کمروںاور فرنیچر کی کمی بھی اکثر کالجوں کا مسئلہ ہے، چھوٹے شہروں کی بات توکیا ہی کریں، بڑے شہروں کے معروف کالجوں میں بھی کمروںکا یہ عالم ہےکہ، اگر ایک دن تمام طالب علم حاضر ہوجائیں ،تو ان کےبیٹھنے کے لئے نہ کمروں میں گنجائش ہوگی اور نہ ہی فرنیچر ۔
اگرارباب اختیار شعبہ تعلیم میں کوئی انقلابی تبدیلی لانے کی خواہش رکھتے ہیں، تو انہیں چاہیے کہ تمام معاملات کو کھلی آنکھوں سے دیکھیں اور ایسی پالیسی بنائیں، جس پر عمل بھی ہوسکے ۔مثلاً کالجوں میں ہر مضمون کا ماہانہ ٹیسٹ تو تب ہی لیا جا سکتا ہے ناں ، جب ہر مضمون کااستاد ہو،جب کہ صورت حال اس کے بر عکس ہے۔یہاں تک کہ بعض شعبہ جات صرف اس لیے بند ہو گئے ہیں، کیوں کہ وہاں متعلقہ مضمون کے استاد کا تقرر نہیں ہو سکا ہے۔کچھ کالجوں میں سالہا سال سے ایجوکیشن جیسے مضمون کے لیے صرف ایک پروفیسر ہیں، جب کہ ایجوکیشن وہ مضمون ہے، جو سال اول سے سال چہارم تک پڑھایا جاتا ہے اور طالبات کی ایک کثیر تعداد یہ مضمون پڑھنا چاہتی ہے، پروفیسر کی سبکدوشی کی بناء پرشعبےکے بند ہونے کا خدشہ بھی رہتاہے۔یہ صورت حال کسی ایک کالج کی نہیں بلکہ اکثر کالجوں میں یہی حال ہے۔ اگر محکمہ تعلیم کی جانب سے ایک باقاعدہ سروے کیا جائے توتقریباََ ہر کالج میں اسی طرح کے معاملات نظر آئیں گے۔مقتدر حلقوں کو فی الفور سروے کروانا چاہیے تاکہ اصل صورتِ حال سامنے آسکے کہ کس کالج میں اساتذہ کی کمی ہے اور کہاں زیادہ ہیں ، طلباء کی تعداد کے مطابق اساتذہ کا تقرر ہونا چاہیے۔تعلیم کی ترقی کی خواہش یقیناً قابلِ احترام ہے،لیکن اس کی تکمیل اسی وقت ممکن ہے ، جب سخت اور موثر اقدامات کیے جائیں۔
کلاسوں میں طلباء، کی تعداد کا تعین کیا جائے،ایک مثالی کلاس میں پینتالیس سے پچاس طلباء ہونے چاہیں،جن مضامین میں اساتذہ کی کمی ہے ،وہ توایک مسئلہ ہے ہی ،لیکن جہاں اساتذہ کثیر تعداد میں ہیں، وہاں سے تبادلے کیے جائیں،کسی بھائی بندی ،زوروسفارش کو خاطر میں نہ لایاجائے۔تعلیمی معاملات بہتر سے بہتر انداز میںچلانے کے لیے ضروری ہے کہ وقتاًفوقتاً تلاش وتحقیق وجستجو کاعمل جاری رکھا جائے،اساتذہ کے لیےسیمینار اور ریفریشر کورسزکروانا محکمہ تعلیم کی ذمے داری ہے،ہر ادارے میں چیک اینڈ بیلنس کا نظام قائم کیا جائے، اس سلسلے میں نہ صرف سینئر اساتذہ پر مشتمل کیمٹیاں قائم کی جاسکتی ہیں ،بلکہ جو اساتذہ اپنی مدتِ ملازمت پوری کرچکے ہیں ،انہیں بھی ان کی مرضی کے مطابق کچھ نہ کچھ ذمہ دار یاں تفویض کی جاسکتی ہیں۔سبکدوش اساتذہ میں یقیناً ایسے ہیں، جو صرف طالبِ علموں کی خاطر بغیر کسی معاوضے کے آگے بڑھ کراپنی خدمات پیش کریں گے۔